پاکستان کی سفارتی فتوحات

پاکستان اور بھارت کے درمیان 7 سے 10 مئی 2025ء تک جاری رہنے والی مختصر مگر شدید اور جدید جنگ نے خطے کے امن کو ایک دفعہ تو مکمل رسک پہ ڈال دیا تھا۔ مگر جہاں میدانِ جنگ پر پاک فضائیہ کی شاندار کارکردگی نے دشمن کے چھ جنگی طیارے تباہ کرکے تاریخ کا ایک سنہری باب رقم کیا، وہیں سفارتی محاذ پر پاکستان کی حکمتِ عملی، قومی یکجہتی اور قیادت کی بصیرت نے بھارت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔
دو دن پہلے 28 مئی 2025ء کو جب ہم جنگ بندی کے بعد کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ پاکستان نے نہ صرف عسکری میدان میں بلکہ سفارتی محاذ پر بھی بھارت پر اپنی برتری ثابت کی ہے، جس کے گہرے اثرات خطے کی مستقبل کی سیاست مرتب ہوتے نظر آتے ہیں۔ میدانِ جنگ سے باہر نکل کر سفارتی محاذ پر لڑی جانے والی یہ جنگ دراصل ایک طویل المدتی حکمتِ عملی کا حصہ تھی، جس میں پاکستان نے عالمی برادری کے سامنے خود کو ایک پرامن اور ذمہ دار ریاست کے طور پر پیش کیا، جبکہ بھارت کو جارحیت پرست، توسیع پسند اور غیر مستحکم قوت کے طور پر بے نقاب کیا۔ سفارتی جنگ کی یہ لڑائی محض سفارت کاروں کی میز تک محدود نہیں تھی بلکہ اس کا دائرہ عالمی فورمز، معاہدوں کی منسوخی اور بین الاقوامی بیانیے کی جنگ تک پھیلا ہوا تھا۔
جنگ بندی کے بعد کے ہفتوں میں پاکستان کی سفارتی حکمتِ عملی نے بھارت کو ہر محاذ پر تنہا کرنے کا کام کیا۔ بھارت کی جانب سے پہلگام حملے کو جواز بنا کر سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ طور پر معطل کرنے کے اعلان کے جواب میں پاکستان نے نہ صرف شملہ معاہدہ سمیت تمام دوطرفہ معاہدوں کی معطلی کا عندیہ دیا بلکہ لگے ہاتھ بھارت کے لیے فضائی حدود، سرحدی آمدورفت اور ہر قسم کی تجارت بند کرنے کا اعلان بھی کر دیا۔ یہ قدم محض ایک ردعمل نہیں تھا بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی تھی جس نے بھارت کو معاشی اور سفارتی طور پر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا
۔ پاکستان نے ثابت کیا کہ وہ بھارت کی یکطرفہ جارحیت کا جواب دوطرفہ سفارتی پالیسیوں کے ذریعے دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بھارت کی فضائی حدود کی بندش کا جواب دیتے ہوئے پاکستان نے پہلے ہی بھارتی طیاروں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دی تھیں، جس کے نتیجے میں بھارتی ائیرلائنز کو ہنگامی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ بھارت کا جوابی اقدام محض علامتی تھا، جو پاکستانی فضائیہ کی پہل سے ہی متاثر ہو چکا تھا۔ پاکستان کے ان اقدامات نے بھارت کو اپنی ہی چال میں پھنساتے ہوئے سفارتی اور معاشی طور پر کمزور کر دیا۔
سفارتی محاذ پر پاکستان کی سب سے بڑی کامیابی بھارت کی "ناپسندیدہ سرگرمیوں" کے الزامات کا منہ توڑ جواب دینے میں نظر آئی جب بھارت نے مئی کے وسط میں نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ایک اہلکار کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر 24 گھنٹے میں ملک چھوڑنے کا حکم دیا، تو پاکستان نے صرف چند گھنٹوں کے اندر اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کے ایک اہلکار کے خلاف اسی قسم کا اقدام کرتے ہوئے جوابی کارروائی کی۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے واضح کیا کہ بھارتی اہلکار "سفارتی کردار، قوانین اور بین الاقوامی سفارتی آداب کے خلاف سرگرمیوں" میں ملوث تھا۔ یہ قدم محض ایک ردعمل نہیں تھا بلکہ ایک واضح پیغام تھا کہ پاکستان اب بھارت کی سفارتی جارحیت کو برداشت نہیں کرے گا۔ پاکستان نے بھارتی ناظمِ الامور کو وزارتِ خارجہ طلب کرکے نہ صرف احتجاج درج کرایا بلکہ اس اقدام کو بین الاقوامی سفارتی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ سفارتی محاذ پر لڑی جانے والی اس جنگ میں پاکستان کی فوری اور مناسب جواب دینے کی صلاحیت نے بھارت کو حیرت میں ڈال دیا، جس کا مقصد پاکستان کو سفارتی طور پر کمزور کرنا تھا، لیکن پاکستان کی جانب سے سخت اور بروقت جوابی کارروائی نے بھارت کی کوششوں کو ناکام بنا دیا۔
عالمی سطح پر پاکستان نے سفارتی برتری حاصل کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر بھارت کے جارحانہ اقدامات کو بے نقاب کیا۔ پاکستانی سفارتکاروں نے دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیابی حاصل کی کہ جنوبی ایشیا میں امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارت کی توسیع پسندانہ سوچ ہے۔ پاکستان کی سفارتی کوششوں کا ہی نتیجہ تھا کہ بھارت کو عالمی برادری میں تنہائی کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستان نے ثابت کیا کہ بھارت کا "پرامن جمہوری ملک" کا بیانیہ محض ایک فریب ہے، جبکہ حقیقت میں وہ خطے میں عدم استحکام کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ منسوخی کو پاکستان نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے عالمی اداروں سے رجوع کیا، جس سے بھارت کو دفاعی موقف اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ پاکستان نے اس معاہدے کو 65 سال سے کامیابی سے نافذ العمل رکھنے کی اپنی ساکھ کو بروئے کار لاتے ہوئے بھارت کی غیر ذمہ دارانہ پالیسیوں کو عالمی سطح پر بے نقاب کیا۔
پاکستان کی سفارتی کامیابیوں میں سب سے اہم عنصر پاکستان کا تحمل، بھارت کے ہزار اکسانے کے باوجود پہل نہ کرنا اور حملے سے پہلے تمام دوست ممالک کو اعتماد میں لینا رہا۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان نے اپنے اصولوں پر ثابت قدم رہتے ہوئے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ہم امن کے خواہشمند ہیں لیکن اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ امریکہ کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی نے ایک موقع فراہم کیا کہ دونوں ممالک اپنے معاملات پر بات چیت کریں، لیکن پاکستان نے واضح کر دیا کہ کشمیر کے مسئلے کے بغیر کوئی پائیدار حل ممکن نہیں۔ پاکستان کا یہ واضح اور ثابت قدم موقف سفارتی برتری کی بنیاد بنا۔
مستقبل کے سفارتی چیلنجز کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کے لیے سب سے بڑا امتحان یہ ہوگا کہ وہ اپنی سفارتی کامیابیوں کو مستحکم کیسے بناتا ہے۔ بھارت مسلسل عالمی سطح پر بیانیہ جنگ جاری رکھے ہوئے ہے، جس میں وہ پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کر رہا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنے سفارتی اقدامات کو بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کے مطابق جاری رکھے۔ سندھ طاس معاہدے کی بحالی کے لیے عالمی عدالتِ انصاف یا عالمی بینک سے رجوع کرنا ایک موثر حکمتِ عملی ثابت ہو سکتی ہے۔
کشمیر کے مسئلے پر اقوامِ متحدہ کو دوبارہ فعال کرنا بھی پاکستان کی سفارتی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ مسلم ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات کو مزید مستحکم کرے اور بھارت کی خطے میں پھیلائی گئی غلط معلومات کا مؤثر طریقے سے جواب دے۔ داخلی سطح پر پاکستان کو اپنی معیشت کو مستحکم کرنے پر توجہ برقرار رکھنی چاہیے کیونکہ اقتصادی استحکام ہی سفارتی طاقت کی بنیاد ہے۔ پاکستان کی سفارتی کامیابیاں نہ صرف اس کی عسکری طاقت بلکہ اس کی حکمتِ عملی، قومی یکجہتی اور قیادت کی دوراندیشی کا نتیجہ ہے۔

