نثری نظم کے دس بنیادی اصول
پہلے تو ایک طویل عرصہ نثری نظم کی قبولیت اور رد پر بحث ہوئی۔ پھر جب استرداد کمزور پڑا تو شاعری جنہیں چھو کر بھی نہیں گزری تھی وہ بھی اناپ شڑاپ لکھ کر شاعر بن بیٹھے۔ کچھ نے لایعنیت کی آڑ میں دکان سجائی تو کسی نے بدیسی زبانوں سے تراجم کا لب و لہجہ اپنا لیا۔ دوسری طرف میرے جیسے کسی مقبول عام شاعر نے صنف کو شعری خد و خال عطاء کیے تو نشانہ باندھ کر مجھے نثری نظم لکھنے والوں کی فہرست سے خارج کردیا گیا۔
المیہ یہ بھی رہا ہے کہ ہم ہمیشہ یہی سمجھتے رہتے ہیں کہ یہ تعلیمی نصاب کی ذمہ داری ہے کہ وہ اصناف کی تعریف اور ہئیتوں کے خدوخال کی ترتیب کی وضاحت کرے لیکن جہاں نصاب ہی دونمبر اور سازشی ہو اور اسے پڑھانے والے بد دیانت اور جاہل ہوں وہاں کسی علمی پیش رفت کی کیسے امید لگائی جا سکتی ہے۔
یہ ذمہ داری بھی اب صاحب اخلاص و ادراک تخلیق کاروں کو ہی اٹھانی پڑے گی۔ اگرچہ یہ بھی طے ہے کہ علمی و ادبی ارتقاء کی کسی بھی کوشش کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی تعلیمی اداروں میں پنجے گاڑے بیٹھے کالونئیل منشی ہیں جو آج بھی انسان دشمن سامراجی نصاب کی ٹوپیاں پہنا کر ہماری نسلوں سے تخلیقی و تجزیاتی فکر کو چھین لینے کی ڈیوٹی دے رہے ہیں۔
قصہ مختصر میں بغیر وقت ضائع کیے ذاتی نکتہ نظر بیان کرتا ہوں۔ میری نظر میں ذیل میں دیے گئے دس اصول نثری نظم کے خدوخال کی وضاحت کرنے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔
1۔ نثری نظم سے مراد ہے نثر میں پیدا کیے گئے نظم کی ہیت ہے۔
2۔ نثری نظم قطعی طور پر نثر کے فقروں کو پیراگراف میں لکھنے کی بجائے پیراگراف کو توڑ کر آزاد نظم کی شکل دیتی ہوئی لائنوں پر مشتمل نہیں ہوتی کیونکہ اس سے یہ نثر ہی رہتی ہے جسے لائنوں میں لکھا گیا ہو۔
3۔ نثری نظم اور نثر کا پہلا فرق یہ ہے کہ اس صنف میں نثری فقرے نہیں ہوتے بلکہ نثری مصرعے ہوتے ہیں۔
4۔ نثر میں رہ کے مصرعہ بنانا ہی وہ کمال ہے جو نثری نظم کے شاعر کا پہلا مرتبہ بتاتا ہے۔ مصرعہ جتنی طاقتور شعریت لیے ہوے ہوگا اور باطنی ردھم کیساتھ ہوگا نظم اتنی ہی عمدہ قرار دی جاسکے گی۔
5۔ اگر کسی شاعر کو نثر کا مصرعہ بنانا نہیں آتا تو اسے نثری نظم کا پتہ نہیں ہے۔ یا اگر نثری نظم میں منظوم مصرعے کی پہچان نہیں رکھتا تو سمجھیں صنف سے انجان ہے۔
6۔ نثر کے فقروں کو آپس میں جوڑنے والے حروف ربط مثلاً تاکہ، چونکہ، اور، پھر، اگر، مگر، اس لیے کہ، جیسا کہ وغیرہ وغیرہ کا استعمال جتنا زیادہ ہوگا وہ نظم کم اور نثر زیادہ ہوتی جائے گی۔ یہی حروف نثر اور نظم کے درمیان خط امتیاز کھینچتے ہیں۔
7۔ نثری نظم غیر عروضی ہوتی ہے لیکن بے وزن نہیں ہوتی۔ البتہ اس میں خارجی کی بجائے باطنی ردھم ہوتا ہے۔
8۔ نثری نظم جداگانہ طرز احساس کے حامل اسلوب کا تقاضا کرتی ہے۔ ایسے موضوعات، ایسا طرز احساس اور ایسا لسانی، استعاراتی و تشبہاتی قرینہ جو غزل و نظم میں برتا جائے تو نامانوس لگے مگر نثری نظم میں آئے تو اس کے صنفی تقاضوں کو پورا کرے۔
9۔ نثری نظم چونکہ بحور اور قافیہ ردیف کی مدد کے بغیر شاعری کرنے کا نام ہے اس لیے یہ باقی اصناف کی نسبت زیادہ طاقتور شعری مواد اور تخلیقی سلیقے کی متقاضی ہے۔ یہ ایک بہت مشکل صنف سخن ہے جسے آسان سمجھ لیا جاتا ہے۔
10۔ نثری نظم میں کہانی نہیں ہوتی نظم ہوتی۔ اسے مرصع اور تخلیقی نثر سے بھی مختلف نظر آنا چاہیے۔