محمد اشرف خان، ایک بے لوث کارکن

ملک کے سیاسی منظرنامے میں جہاں نعروں کی گونج تو بہت ہے مگر کردار کی خوشبو کم ہوتی جارہی ہے، وہاں کبھی کبھی ایسی شخصیات دکھائی دیتی ہیں جو یاد دلاتی ہیں کہ سیاست اصل میں خدمت کا نام ہے، عقیدت کا نام ہے اور بالآخر انسانیت کا نام ہے۔ انہی چند لوگوں میں ایک نام محمد اشرف خان کا ہے۔۔ ایک ایسا کارکن جو کارکن ہونے پر فخر کرتا ہے اور ایسا رہنما جو رہنما ہونے کا دعویٰ کیے بغیر رہنمائی کرتا ہے۔
پیپلز پارٹی اپنے اندر ایک تاریخی ورثہ رکھتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید سے لے کر شہید محترمہ بینظیر بھٹو تک اور پھر صدر آصف علی زرداری سے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری تک، یہ جماعت ہمیشہ سے نظریاتی مزاحمت اور عوامی جدوجہد کا نشان سمجھی جاتی رہی ہے۔ مگر ہر نظریے کو زندہ رکھنے کے لیے کچھ ایسے لوگ بھی ضروری ہوتے ہیں جو بینر نہیں، کردار اٹھاتے ہیں، جو نعرے نہیں خدمت کرتے ہیں اور جو سیاست میں کسی ذاتی مفاد کے بغیر محض محبت اور وابستگی کی روایت کو قائم رکھتے ہیں۔ اشرف خان انہی چند لوگوں میں سے ہیں۔
ان کی کہانی ایک عام کارکن کی کہانی نہیں، یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو پارٹی کے لیے صرف ووٹ نہیں دیتا بلکہ اپنا وقت، اپنی توانائی، اپنی محبت اور اپنی زندگی تک وقف کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ بی بی شہید سے ان کی محبت عقیدت کی انتہا کو چھوتی ہے۔ صدر آصف علی زرداری تک پہنچتے پہنچتے یہ محبت وفاداری بن جاتی ہے اور بلاول بھٹو زرداری تک آتے آتے یہ رشتہ امید اور اعتماد میں ڈھل جاتا ہے۔ اشرف خان ان کارکنوں میں سے ہیں جو پارٹی کو محض سیاسی پلیٹ فارم نہیں سمجھتے، بلکہ ایک نظریہ، ایک فکر اور ایک گھر سمجھتے ہیں۔
مگر اشرف خان کے تعارف کا ایک دوسرا رخ بھی ہے اور شاید زیادہ روشن، زیادہ انسانی، زیادہ زندگی سے بھرپور۔ وہ ایک سوشل ورکر ہیں، مگر محض نام کے نہیں، عمل کے۔ جب قدرتی آفات کسی بستی پر حملہ آور ہوتی ہیں، جب لوگ بے گھر ہوتے ہیں، جب بھوک اور بیماری تاریکی بن کر پھیلتی ہے، وہاں کسی نہ کسی مقام پر اشرف خان ضرور دکھائی دیتے ہیں۔ وہ نہ تو فوٹو سیشن کا انتظار کرتے ہیں اور نہ ہی میڈیا کی موجودگی کا۔ وہ ایسی خدمت پر یقین رکھتے ہیں جو ریکارڈ نہیں ہوتی، مگر دلوں میں لکھی جاتی ہے۔
رمضان المبارک ہو یا محرم الحرام، عید میلادالنبی ہو یا شبِ برات، اشرف خان کا کردار عبادات سے زیادہ حقوق العباد کے کھیت میں ہل چلانے والا ہے۔ ان کے لیے دین کا مطلب صرف عبادت نہیں، بلکہ انسانیت کی خدمت ہے۔ ان کے ہاتھوں میں روٹی، ان کی زبان میں دعا، ان کی جیب میں مدد اور ان کے قدموں میں عاجزی رہتی ہے۔
ذاتی زندگی میں بھی وہ اسی طرح کے ہیں۔ دوستوں کے لیے بے لوث محبت، بھائیوں کے لیے سایہ، بیوی کے لیے مضبوط سہارا اور اولاد کے لیے بہترین باپ۔ ان کا طرزِ زندگی یہ احساس دلاتا ہے کہ عظمت ہمیشہ بڑے بننے سے نہیں، بڑے دل رکھنے سے حاصل ہوتی ہے۔ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو اپنی ذات کے دائرے کو وسیع کرکے دوسروں کی زندگی میں آسانی پیدا کرتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ کوئی انسان کامل نہیں ہوتا۔ ہر شخص میں خوبیاں بھی ہوتی ہیں اور کمزوریاں بھی۔ لیکن اگر کسی شخص میں 51 فیصد انسانیت موجود ہو، جیسا کہ روایت ہے، تو اس کے وجود کو فرشتوں سے تشبیہ دینے میں کیا مضائقہ ہے؟ محمد اشرف خان کی شخصیت اسی شرح انسانیت پر مبنی ہے۔۔ زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں، بس اتنی کہ معاشرہ زندہ رہے اور لوگ امید نہ چھوڑیں۔
ایسے لوگ کسی بھی سیاسی جماعت کا حسن ہوتے ہیں۔ وہ پارٹی کی reputational backbone بنتے ہیں۔ ایسے کارکن کسی بھی لیڈر کے لیے عزت کا باعث ہوتے ہیں۔ مگر آج کے سیاسی دور میں، جہاں سیاست کا سرمایہ اخلاق نہیں بلکہ طاقت سمجھا جاتا ہے، وہاں محمد اشرف خان جیسے کارکنوں کا ہونا کسی معجزے سے کم نہیں۔ میاں منیر ہانس اور رانا جواد جیسے لوگ بھی اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔۔ وہ جو پارٹی کے لیے جیتے ہیں اور پارٹی کے لیے مرتے ہیں وہ کام کرتے ہیں، مگر کریڈٹ کا مطالبہ نہیں کرتے۔
یہ وہ لوگ ہیں جن پر پارٹی کھڑی رہتی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر ایسے کارکنوں کی عزت، وقعت اور جگہ پارٹی کے اندر کم ہوتی جائے تو پھر ووٹر بھی دیکھتا ہے، کارکن بھی محسوس کرتا ہے اور نتیجہ بھی ظاہر ہوجاتا ہے۔ ووٹر وہی سمجھتا ہے جو کارکن محسوس کرتا ہے اور کارکن وہی محسوس کرتا ہے جو قیادت کرتی ہے۔
یہی وہ غیرمحسوس پیغام ہے جو پیپلز پارٹی کی قیادت تک پہنچنا ضروری ہے۔ اگر آپ محمد اشرف خان جیسے کارکنوں کو عزت دیں گے، ان کے سر پر ہاتھ رکھیں گے، ان کی حوصلہ افزائی کریں گے، تو نہ صرف کارکنوں کا مورال بلند ہوگا بلکہ ووٹر کا اعتماد بھی بحال ہوگا۔
پارٹی کی قیادت جو بڑے فیصلے کرتی ہے، وہ ملکی حالات پر اثر انداز ہوتے ہیں، مگر جو چھوٹے فیصلے ہوتی ہیں۔۔ یعنی کارکنوں کو عزت دینا، ان کی بات سننا، ان کے کام کا اعتراف کرنا۔۔ یہ فیصلے پارٹی کی روح کو زندہ رکھتے ہیں۔ اشرف خان جیسے لوگ پارٹی کی جھولی میں ووٹ نہیں بلکہ دل لاتے ہیں اور دل جیتنے والے لوگ ہی پارٹی کو تاریخ بناتے ہیں۔
آج کے دور میں جہاں سیاست مفاد کی دوڑ بن چکی ہے، وہاں اشرف خان جیسے لوگ سیاسی جماعتوں کے لیے oxygen ہیں۔ ان کی وجہ سے جذبے زندہ رہتے ہیں، نظریے سانس لیتے ہیں اور عوام کا تعلق برقرار رہتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے لیے ایسے کارکن نہ صرف سرمایہ ہیں بلکہ مستقبل کی ضمانت بھی ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ پارٹی لیڈر شپ اس حقیقت کو محسوس کرے۔
جو لوگ پارٹی کے لیے اپنی زندگیاں کھپا دیتے ہیں، وہ بدلے میں صرف عزت چاہتے ہیں۔ اگر قیادت انہیں وہ عزت دے دے تو باقی کام کارکن خود کر لیتے ہیں، ووٹر خود ساتھ آ جاتا ہے اور پارٹی خود مضبوط ہو جاتی ہے۔

