Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Farhat Abbas Shah
  3. Libya Ke Halat e Zaar

Libya Ke Halat e Zaar

لیبیا کی حالت زار

لیبیا اس وقت ایک شدید سیاسی اور حکومتی بحران کا شکار ہے۔ ملک میں دو متوازی حکومتیں ہیں: ایک طرابلس میں قائم فائز السراج کی حکومت، جسے اقوام متحدہ کی حمایت حاصل ہے اور دوسری مشرق میں خلیفہ حفتر کی زیر قیادت لبنانی نیشنل آرمی۔ ان دونوں گروہوں کے درمیان اقتدار کی کشمکش اور خانہ جنگی جاری ہے، جس کی وجہ سے لیبیا میں عدم استحکام اور بدامنی پھیلی ہوئی ہے۔ دو گروہوں کے درمیان اقتدار کی کشمکش نے ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل دیا ہے، جس میں متعدد مقامی اور بین الاقوامی کھلاڑی بھی ملوث ہیں۔ مختلف ممالک لیبیا کے بحران میں فریقین کی حمایت کر رہے ہیں، جس سے یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے۔

خانہ جنگی اور عدم استحکام کی وجہ سے لیبیا میں انسانی بحران جنم لے رہا ہے، جس میں لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں اور بنیادی سہولیات کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا ہے۔

لیبیا کی معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے، تیل کی پیداوار اور برآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے اور ملک میں غربت اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر لیبیا کے بحران کو حل کرنے کی کوششیں جاری ہیں، لیکن اب تک کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہو سکی۔ یہ بحران لیبیا کے مستقبل کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے اور اس کا اثر پورے خطے پر پڑ سکتا ہے۔

2011ء کی عرب سپرنگ کے نتیجے میں معمر قذافی کے 42 سالہ دور کا خاتمہ ہوا، جس کے بعد ملک میں طاقت کا خلا پیدا ہوا۔ قذافی کو مغربی ممالک کی فوجی جارحیت سے معزول کیا گیا، لیکن مستحکم حکومت قائم نہ ہو سکی۔ جس پر میرا ذاتی تجزیہ ہے کہ لیبیا کو نشانہ بنانے والی قوتوں کو لیبیا کے حالات اسی طرح کے ہی چاہیں ہیں۔ کیونکہ ایک خوش و خرم ملک کو طاقت کے زور پر اجاڑنے کا مطلب اسے دوبارہ آباد کرنا ہو تو اجاڑا ہی کیوں جائو۔

قذافی کی ہلاکت کے بعد عبوری حکومت (قومی عبوری کونسل) قائم ہوئی، مگر 2014ء تک ملک دو دھڑوں، اسلام پسندوں کی حمایت یافتہ طرابلس حکومت یعنی جنرل نیشنل کانگریس اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ طبرق حکومت یعنی ایوانِ نمائندگان، میں بٹ گیا۔

دونوں حکومتوں کے درمیان جاری تصادم نے ملک کو تباہی کے کنارے پر پہنچا دیا۔ خلیفہ حفتر نے، جو مشرقی فوج، لیبیائی نیشنل آرمی کے سربراہ تھے، طرابلس پر قبضے کی کوششیں کیں، جسے ترکی کی فوجی مدد سے ناکام بنا دیا گیا۔ ایسے ہی دوسری طرف مغربی لیبیا یعنی طرابلس کی "قومی اتحادی حکومت" کو اقوام متحدہ اور ترکی کی حمایت حاصل ہے۔ یہ اسلام پسند اور اعتدال پسند گروہوں کا اتحاد ہے۔

"قومی استحکام حکومت" خلیفہ حفتر کی فوجی طاقت پر مبنی ہے، جسے مصر، متحدہ عرب امارات اور روس سپورٹ کرتے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر اسے غیر قانونی تسلیم کیا جاتا ہے۔

ترکی اور قطر قومی اتحادی حکومت کی فوجی مدد کرتے ہیں، جبکہ مصر، روس اور متحدہ عرب امارات حفتر کو ہتھیار اور مالی امداد فراہم کرتے ہیں۔ یہ "پراکسی وار" لیبیا کو سرد جنگ کا میدان بنا چکی ہے۔

لیبیا تاریخی طور پر طرابلس (مغرب)، سیرینیکا (مشرق)اور فزان (جنوب) پر مشتمل ہے۔ ہر خطے کے قبائل اور ملیشیا اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے الگ حکومتوں کو سپورٹ کرتے ہیں۔:

2020ء میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام مستقل جنگ بندی معاہدہ ہوا، مگر انتخابات کا عمل آئینی فریم ورک پر اختلافات کی وجہ سے التوا کا شکار ہے۔ دونوں حکومتیں اپنی شرائط پر انتخابات چاہتی ہیں۔

اگست 2023ء میں طرابلس میں حریف ملیشیاؤں کے درمیان جھڑپوں میں 30 افراد ہلاک اور 170 زخمی ہوئے۔ یہ تشدد انتخابات میں تاخیر اور سیاسی کشمکش کا نتیجہ تھا۔

مشرق میں 80 فیصد تیل کے ذخائر ہونے کے باوجود، آمدنی دونوں حکومتوں میں بانٹنے کا تنازعہ ہے۔ قومی اتحادی حکومت تیل کی برآمد سے حاصل ہونے والی آمدنی پر کنٹرول چاہتی ہے، جبکہ خفتر کی حکومت اسے غیر منصفانہ قرار دیتی ہے۔ کرنسی کی قدر میں 300 فیصد گراوٹ، بجلی کی مسلسل بندش اور بیروزگاری 30 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ عوام کو بنیادی سہولیات، پانی اور ادویات تک رسائی حاصل نہیں۔ دونوں حکومتوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں ماورائے عدالت قتل، اغوا اور سیاسی مخالفین کی حراست عام ہے۔ وکلا اور صحافی نشانہ بنائے جاتے ہیں۔

مہاجرین کا بحران: لیبیا یورپ جانے والے مہاجرین کا ٹرانزٹ پوائنٹ ہے، جہاں انہیں تشدد اور غلامی جیسے حالات کا سامنا ہے۔ قوام متحدہ کے مطابق، 2025ء تک 6 لاکھ مہاجر لیبیا میں پھنسے ہوئے ہیں۔

صنفی تشدد میں اضافہ اور قانونی تحفظ نہ ہونے کے برابر ہے۔ خواتین کو سیاست اور معیشت میں شرکت سے روکا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ہانا ٹیٹے کے مطابق، "سیاسی ارادے کی کمی" کی وجہ سے مذاکرات بار بار ناکام ہوئے۔ 2025ء میں مشاورتی کمیٹی تشکیل دی گئی، مگر اس کی تجاویز پر عمل درآمد ندارد ہے۔

اس معاملے میں پاکستان UN کی پالیسی کے مطابق صرف طرابلس حکومت کو جائز تسلیم کرتا ہے۔ تاہم، خلیفہ حفتر کے بیٹے سے پاکستانی فوجی سربراہ کی ملاقات " زمینی حقائق کے مطابق اپنے مفادات" یعنی مشرق میں تیل کے منصوبوں تک رسائی کی عکاس ہے۔ امریکہ اور یورپی یونین پابندیاں عائد کرنے اور امن مذاکرات کی تجاویز دینے تک محدود ہیں۔ وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ "لیبیا کے لیڈر عوام کے بجائے اپنے مفادات پر توجہ دے رہے ہیں"۔ لیبیا کو اس حال تک پہنچانے والوں کی طرف سے ایسی باتیں مظلوم انسانیت کا ٹھٹھہ اڑانے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔

موجودہ صورتحال سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر تشدد اسی طرح جاری رہا تو لیبیا "ناکام ریاست" بن جائے گی، جس سے داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کو پنپنے کا موقع ملے گا اور دوسرا یہ کہ مصر اور ترکی کی براہ راست فوجی مداخلت سے خطے میں جنگ پھیل سکتی ہے۔ لیبیا کا بحران محض دو حکومتوں کی کشمکش نہیں، بلکہ قبائلی عصبیت، بیرونی طاقتوں کے لالچ اور سیاست دانوں کی نااہلی کا مجموعہ ہے۔ اس کا حل صرف اسی صورت ممکن ہے جب لیبیا کے عوام کو ترجیح دی جائے، نہ کہ بیرونی مفادات کو۔ لیکن اگر لیبیا میں امن ہوگیا تو پھر وہاں کے عوام اورلیڈرز دونوں کو وطن کی دولت، سرمائے اور اثاثے کی حفاظت اور اس کی منصفانہ تقسیم کا خیال آئے گا جو بین الاقوامی استحصالی قوتوں کی مرضی کے خلاف ہوگا۔

Check Also

Dil e Nadan Tujhe Hua Kya Hai

By Shair Khan