Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Farhat Abbas Shah
  3. Falasteen Ki Riyasat Par Bain Ul Aqwami Pesh Raft

Falasteen Ki Riyasat Par Bain Ul Aqwami Pesh Raft

فلسطین کی ریاست پر بین الاقوامی پیش رفت

اس وقت عالمی سیاست ایک نئے اور اہم موڑ پر کھڑی ہے، جس میں آسٹریلیا، برطانیہ، کینیڈا اور فرانس جیسے اہم مغربی ممالک نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کرکے ایک بڑی جغرافیائی و سیاسی تبدیلی کی بنیاد رکھ دی ہے۔ یہ اقدام نہ صرف عالمی طاقتوں کے رویوں میں تبدیلی کا مظہر ہے بلکہ مشرقِ وسطیٰ اور وسیع تر مسلم دنیا کے سیاسی مستقبل پر بھی گہرے اثرات مرتب کرے گا۔

یہ حقیقت کہ ایسے ممالک، جو روایتی طور پر امریکہ کے قریب ترین اتحادی سمجھے جاتے ہیں، فلسطین کے حقِ خودارادیت کو تسلیم کرنے کے لیے آگے بڑھے ہیں، اس بات کا عندیہ ہے کہ عالمی رائے عامہ اور حکومتی پالیسیوں میں اسرائیل کے یکطرفہ دفاع سے ہٹ کر انصاف پر مبنی نئے بیانیے کی طرف پیش رفت ہو رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق مزید ممالک بھی اسی روش پر چلنے کے خواہاں ہیں، جس سے یہ واضح ہے کہ فلسطین کے مسئلے پر ایک بین الاقوامی اتفاقِ رائے جنم لے رہا ہے۔ یہ عالمی سطح پر فلسطینی عوام کی قربانیوں اور مزاحمت کو ایک اخلاقی و سیاسی جواز فراہم کرتا ہے اور اسرائیل کو پہلی بار اپنی پالیسیوں اور قبضے کے تسلسل کے بارے میں سخت دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

تاہم، اس بدلتے ہوئے منظرنامے میں امریکہ اب بھی اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ واشنگٹن کی اس پالیسی کو ایک طرف تو اپنے طویل المدتی اسٹریٹیجک اور جغرافیائی مفادات کا حصہ سمجھا جا سکتا ہے، جبکہ دوسری طرف امریکی سیاست میں اسرائیلی لابی کا اثر و رسوخ بھی اس فیصلے کو شکل دینے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اس رویے کے باعث امریکہ اور یورپ کے درمیان فلسطین کے سوال پر ایک نئی خلیج پیدا ہونے کے امکانات بڑھ رہے ہیں، جو مستقبل قریب میں مغربی اتحاد کے اندرونی توازن کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ امریکہ کی یہ ضد نہ صرف اس کی اخلاقی ساکھ کو متاثر کر رہی ہے بلکہ عالمی سطح پر اس کی پالیسیوں کو تضادات کا شکار بھی بنا رہی ہے، کیونکہ ایک طرف وہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے علَم بردار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور دوسری جانب فلسطین جیسے مسئلے پر بنیادی انسانی حق یعنی حقِ خودارادیت کی حمایت سے گریزاں ہے۔

عرب دنیا اس نئی صف بندی میں ایک مرکزی حیثیت اختیار کرنے جا رہی ہے۔ ماضی میں عرب ممالک فلسطین کے مسئلے پر بظاہر متحد تھے مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان میں تقسیم پیدا ہوتی گئی اور بعض نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کو ترجیح دی۔ لیکن اب جبکہ مغربی دنیا کے بڑے ممالک فلسطین کو تسلیم کرنے لگے ہیں، عرب ممالک بھی اپنی داخلی و خارجی پالیسیوں پر نظرثانی کر رہے ہیں۔ اس عمل کے نتیجے میں خطے میں ایک نئی صف بندی سامنے آ رہی ہے جس میں عرب دنیا اپنی اجتماعی حیثیت کو مزید فعال اور مؤثر بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ خلیجی ممالک کے لیے یہ صورتحال ایک موقع بھی ہے کہ وہ فلسطینی عوام کی پشت پناہی کے ذریعے اپنی عوامی حمایت میں اضافہ کریں اور خطے میں اپنی ساکھ کو بحال کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ نئی صف بندی اسرائیل کو خطے میں مزید تنہائی کی طرف دھکیل سکتی ہے، خاص طور پر اگر وہ اپنی جارحانہ پالیسیوں پر نظرثانی نہ کرے۔

پاکستان اس سارے منظرنامے میں ایک منفرد اور مثبت کردار کے ساتھ ابھر رہا ہے۔ خطے میں امن کے پیغامبر اور ایک ذمہ دار ملک کے طور پر پاکستان کی پہچان مزید مستحکم ہو رہی ہے۔ پاکستان طویل عرصے سے فلسطینی عوام کی جدوجہد کا حامی رہا ہے اور اس کی پالیسی ہمیشہ اصولی بنیادوں پر استوار رہی ہے۔ اس وقت جبکہ عالمی سطح پر فلسطین کی حمایت ایک نئی رفتار اختیار کر رہی ہے، پاکستان کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ اپنے سفارتی و سیاسی کردار کو مزید وسعت دے کر امتِ مسلمہ اور دیگر ترقی پذیر ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرے۔

پاکستان کی جغرافیائی اہمیت، ایٹمی قوت اور خطے میں امن قائم رکھنے کی خواہش اسے ایک ایسا مرکزی کھلاڑی بنا دیتی ہے جو نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے ممالک کے درمیان ایک پُل کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ موقع بھی ہے کہ وہ اپنی سفارتکاری کے ذریعے دنیا کو یہ باور کرائے کہ فلسطین کا مسئلہ محض ایک علاقائی تنازعہ نہیں بلکہ عالمی امن و انصاف کا سوال ہے۔

اقتصادی طور پر بھی یہ تبدیلیاں دور رس اثرات مرتب کریں گی۔ مشرقِ وسطیٰ کے وسائل اور توانائی کی سیاست میں فلسطین کے مسئلے پر نئی صف بندی کا مطلب یہ ہوگا کہ خطے میں سرمایہ کاری، تجارتی شراکت داری اور اقتصادی تعاون کے نئے دروازے کھل سکتے ہیں۔ اگر مغربی ممالک فلسطین کو تسلیم کرنے کے بعد عرب دنیا کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرتے ہیں تو توانائی کے شعبے میں نئی راہیں نکلیں گی، جو عالمی معیشت کو بھی متاثر کریں گی۔ اس کے برعکس، امریکہ اور اسرائیل کے درمیان قریبی تعلقات برقرار رہنے کی وجہ سے واشنگٹن کو خطے میں اقتصادی اور سفارتی نقصانات اٹھانا پڑ سکتے ہیں۔ پاکستان اپنی جغرافیائی حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے ان معاشی امکانات کو اپنی ترقی کے لیے بروئے کار لا سکتا ہے، خاص طور پر جب وہ چین کے ساتھ سی پیک کے ذریعے ایک وسیع تجارتی و اقتصادی نیٹ ورک قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

سیاسی سطح پر یہ تبدیلیاں ایک نئے عالمی نظام کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ سرد جنگ کے بعد جو عالمی یک قطبیت وجود میں آئی تھی، اب وہ کمزور پڑ رہی ہے اور ایک کثیر القطبی نظام ابھر رہا ہے۔ فلسطین کی حمایت میں مغربی ممالک کی جانب سے یہ اعلان اسی تبدیلی کی عکاسی ہے، کیونکہ یہ امریکہ کی طے شدہ پالیسی سے انحراف کی ایک علامت ہے۔ مستقبل میں اس کے نتیجے میں اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں میں بھی فلسطین کے حق میں فیصلوں کے امکانات بڑھ سکتے ہیں، جس سے عالمی قوانین اور اصولوں کی بالادستی کو تقویت ملے گی۔

خلاصہ یہ کہ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کیے جانے کا یہ سلسلہ نہ صرف مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کو نئے سرے سے مرتب کرے گا بلکہ عالمی طاقتوں کے درمیان تعلقات کے توازن کو بھی بدل دے گا۔ امریکہ کی اسرائیل نوازی اسے عالمی سطح پر تنہا کر سکتی ہے، جبکہ عرب دنیا اور پاکستان جیسے ممالک کو ایک نئے موقع پر لا کھڑا کرے گی جہاں وہ امن، انصاف اور ترقی کی بنیاد پر اپنی خارجہ پالیسی کو مزید مؤثر بنا سکیں۔ پاکستان کے لیے یہ ایک نادر موقع ہے کہ وہ اپنے تاریخی مؤقف کو عالمی سطح پر مزید مضبوطی سے پیش کرے اور ایک حقیقی امن کے ضامن ملک کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔

Check Also

Dil e Nadan Tujhe Hua Kya Hai

By Shair Khan