ارشد رضوی ایک بڑا ناول نگار
جب میں یہ کہتا ہوں کہ پچھلے چالیس سالوں میں اردو ادب نے بہت تیزی سے ترقی کی ہے تو اس دعوے کے پیچھے گزشتہ چالیس سالوں کا محض جزوی ادب میری نظروں کے سامنے ہے اگر پورے کا پورا تخلیقی سرمایہ سامنے لایا جائے تو اردو کے ان چالیس پچاس سالوں کو تخلیقی لحاظ سے تاریخِ ادب میں زرخیز ترین عہد قرار دیا جاسکتا ہے۔
اگرچہ سرمایہ دارانہ اور سرکاری علمی و ادبی مراکز سے مسلسل یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اب کوئی بڑا شاعر ادیب نہیں رہ گیا یا یہ کہ ادب زوال کا شکار ہے لیکن حقیقت میں ایسا ہرگز نہیں۔ تحقیق تنقید سے لیکر تخلیق تک ہر شعبے میں ایسا ایسا کام سامنے آیا ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ ایسے ہی تخلیقی کارناموں میں ایک کارنامہ ارشد رضوی کا ناول "زرد موسم کی یاداشت" ہے۔
اگرچہ مصنف نے خود تو اسے علامتی خود نوشت قرار دیا ہے لیکن کتاب کے دیباچہ نگار زیب اذکار حسین نے اسے ناول قرار دینے میں ذرا ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی اور خود میں بھی اس کے مطالعے کے بعد اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ یہ ایک ایسا جدید ناول ہے جس نے اپنی ہئیت خود تلاش کی ہے اور ناک نقشہ خود ہی ترتیب دیا ہے۔ میں یہ بات اس لیے بھی پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اپنی خود نوشت لکھتے ہوئے میں پہلے تو آپ بیتی کی بجائے ناول لکھنے کا سوچا لیکن جب لکھنا شروع شروع کیا تو وہ ایک علامتی سوانحی نظم میں ڈھل گئی۔
میری اس طویل نثری نظم کا نام سرابی ہے جسے لاہور کے کثیر المطالعہ شاعر زاہد ڈار ہمیشہ ناول کہا کرتے تھے۔ "سرابی" اور "زرد موسم کی یاداشت" میں مماثلت یہ بھی ہے کہ یہ دونوں تخلیق پارے خودنوشت ہونے کے باوجود خارجی واقعات کے تسلسل کی بجائے داخلی احساسات کے تسلسل کے تانے بانے سے ارتباط پزیر ہوتے ہیں۔ زرد موسم کی یاداشت دل کی ایسی حالتوں کی کہانی ہے جن کا بیان خارجی مروجہ ذرائع سے بہت مشکل ہی ہوپاتا۔ یہی وجہ ہے کہ تخلیق کار کو اس کے لیے علامتوں، استعاروں اور زبان کے نئے اسلوب کی مدد اور سہارے کی ضروت پڑی اور اس طرح جیسے جیسے تحریر صفحہء قرطاس پر آتی چلی گئی زبان کو وسعت اور ادب کو رفعت حاصل ہوتی گئی۔
ہمارے ہاں تخلیقی طور پر بانجھ لیکن شاعر اور ناول نگار بننے کے شوقین جنہیں موسیقی کی زبان میں کُوڑ اور عطائی بھی کہا جاتا ہے، پچھلے کچھ عرصے سے مسلسل تخلیق کی نفی کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ اپنی اس مذموم اور رقیق سوچ کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے انوں نے یہ منصوبہ بنا رکھا ہے کہ بار بار یہ کہا جائے کہ تخلیق دراصل الہام نہیں ہنر ہے جو پریکٹس اور مشق سے آتی ہے۔ ایک انتہائی جاہل لیکن ہٹ دھرم مدرس نے تو اس تخلیقی عمل کی مثال کرکٹ کے کھلاڑی سے دی ہے جو مسلسل پریکٹس سے اس لیول پر پہنچ جاتا ہے کہ تیز ترین بال کو بھی بغیر سوچے کم سے کم وقت میں بلے سے روکنے میں کامیاب رہتا ہے۔
میں اس لیے بار بار کہتا ہوں کہ چالاک اور مکار آدمی اوسط درجے کے ذہین لوگوں کے سامنے اپنی چرب زبانی کی کامیابی کی وجہ سے اس زعم جسے نفسیات کی زبان میں اوور کانفیڈینس کہا جاتا ہے کا شکار ہو بیٹھتا ہے کہ خود کو حقیقی دانشور سمجھنا شروع کردیتا ہے اور بالکل نابالغوں والے خطبے دینے کو اپنے لیے فخر بنا لیتا ہے اور اسے یہ تک اندازہ نہیں ہوتا کہ پڑھے لکھے لوگ اس کی اول فول پر ہنسنے کے علاوہ تعلیمی اداروں کی بدنصیبی پر شدید افسردہ ہیں۔
آپ خود سوچیں جس شخص کو ریفلیکس ایکشن اور کرئیٹو پراسس کے فرق کا ہی پتہ نہ اسے کس طرح سمجھایا جاسکتا ہے کہ تخلیق ہنر پر فائق ہوتی ہے ہنر تخلیق پر فائق نہیں ہوتا۔ میں سمجھتا ہوں مدرسین کو کم از کم اتنی عقل تو ہونی چاہیے کہ انہیں لاعلمی کی بنیاد پر سنجیدہ موضوعات پر بےدھڑک گفتگو نہیں کرنی نہیں چاہئیے یا پہلے کچھ پڑھ یا پوچھ لینا چاہئیے۔
وہ کرکٹ میں کھلاڑی کی جس استعداد کی بات کر رہا ہے وہ بار بار کھیل کھیل کے پیدا ہوجانے والا تیز رفتار اعصابی ردعمل ہے نا کہ تخلیقی عمل۔ ریفلیکس ایکشن جسمانی مشق سے آتا ہے جب کہ تخلیقی عمل فطرت کی طرف سے ودعیت کے بعد احساس کی ریاضت سے آتا ہے۔ بلکہ میرا تو یہ بھی ماننا ہے کہ جسمانی خدوخال کی طرح انسان کا بنیادی لاشعور بھی بہت حدتک ماں کے پیٹ میں وضع ہوجاتا ہے۔
ارشد رضوی کا یہ ناول دراصل لاشعور تک رسائی کے بعد وہاں موجود ذہنی اعمال اور ان تمام کیفیات کو نئی زبان اور نئے اسلوب کی وضع قطع میں ڈھال کے متشکل کرتا ہے جن کا ایک عام آدمی کے لیے سمجھ لینا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سو میں سے پچانوے افراد کو اپنی ذہنی کیفیات کو کیفیات میں سے نکل کر سمجھنے کی اہلیت ہی حاصل نہیں ہوتی لیکن ارشد رضوی جیسا تخلیق کار نہ صرف ان کے وقوف کی صلاحیت سے نوازا گیا ہوتا ہے بلکہ اس کے تخلیقی و جمالیاتی اظہار کی طاقت بھی لیے ہوتا ہے۔
نیند اور خواب کی درمیانی حالت میں لکھی گئی یہ خودنوشت یا ناول جس طرح اپنے خدوخال کے حوالے سے بہت منفرد ہے اسی طرح احساس اور کیفیت کی شدت کے ایسے ارفع مقام پر فائز ہے جہاں اعلیٰ ادب ہی فائز ہوا کرتا ہے۔ میرے علم میں ہے کہ خبروں کو ناول اور لفظی بازیگری کو شاعری بنانے والے بدنصیب لوگوں کو یہ بات سمجھ میں کبھی نہیں آنی کہ تخلیق اور ہنر کی کیا ترتیب اور کیا تہذیب ہے۔ اگر ان کو یہ نظام سمجھ آتا تو آج یہ بیچارے خود تخلیقی طور پر بانجھ نہ ہوتے۔ لیکن آپ یہ دیکھیے کہ یہ کتنے سفاک ہیں کہ خود تخلیقی سطح پر بانجھ ہونے کو قدرت کا فصلہ سمجھنے ک بجائے تخلیق جیسی خدائی صفت ہی کی نفی پر اتر آئے ہیں اور ٹکریں مار مار کر لوگوں کو یقین دلاتے پھرتے ہیں کہ ہم واقعی شاعر بھی، ناول نگار بھی اور نقاد بھی۔
میں تخلیق اور کرافٹ کے فرق کو مزید واضح کرنے کے لیے ارشد رضوی کے ناول، "زرد موسم کی یاداشت" میں سے سب سے پہلا پیرا گراف یا باب پیش کرتا ہوں۔ آپ اسے پڑھیے اور محسوس کیجئیے کہ کیا یہ صرف بڑے بنے سنورے اور نپے تلے الفاظ ہیں یا کیفیات کی شدت کا شاندار جمالیاتی اظہار ہے؟
"تم آج تین مہینے کے ہوتے، یہ لکھتے ہوئے میں کتنا بے بس اور کمزور ہوں، میرے دل کے گلدان پر تمہاری یادوں کے گلاب کھل رہے ہیں، جنھیں آنکھوں کے آنسو دے کر سینچتا رہتا ہوں۔ تمہاری آنکھوں کے گلاب کھلے ہیں، تمہارے لبوں کے گلاب کھلے ہیں، تمہارے مہربان ہاتھ میرے دل پر رکھے ہیں، مجھے یاد ہے، تمہارے ہاتھ بہت نازک تھے اور انگلیاں کسی مصور کی انگلیاں، جو اُداس اور تجریدی تصویریں بناتی ہیں۔ ہم ان دنوں خوب ملتے رہتے تھے۔ میں نے تمہارے ہاتھوں کو چھو کر بھی دیکھا تھا، جو کسی موتیائی شاخ سے مشابہ تھے، اور جب تم مجھ سے جسمانی طور پر دور کر دیے گئے ہو، تو روحانی طور پر میں تمہیں اپنے بہت ہی قریب پاتا ہوں۔ تب میری آنکھوں میں نجانے کہاں سے پانی آجاتا ہے، اور یہ سنگ دل آنکھیں رونے لگتی ہیں۔ یہ آنکھیں جو کبھی نہیں روئی تھیں ہم نے انھیں رونا سکھا دیا ہے، یہ صرف تمہارے لیے روتی تھیں۔
تمہاری خوشبو شام کی ہوا کی طرح سرسراتی ہے، میں دیکھتا ہوں کہ تم میرے ساتھ ہو، اور تمہارے نہ ہونے کا دکھ میرے خون میں تیرتا ہے۔ کبھی کبھی دل کے پاس اٹک جاتا ہے، جب دل کسی خزاں آلود پتے کی طرح چر چراتا ہے، مجھے لگتا ہے میں بھی ختم ہوا لیکن تمہاری یاد کی مسیحائی خوشبو مجھے زندہ رکھتی ہے۔ کوئل کوکتی ہے، تو لگتا ہے تم ہو، شام آتی ہے تو لگتا ہے تم آئے ہو، رات کی نیند آنکھوں پر ہاتھ رکھتی ہے، تو لگتا ہے تم بھی سورہے ہو، صبح کا بےجا پن تمہارے نہ ہونے کی نوید لاتا ہے، پھر دوپہر کا جلتا ہوا سورج اور ایک لمبی تنہائی سب کچھ ویسا ہی ہے، جیسا تم چھوڑ گئے ہو۔ ہاں میں خود کو کچھ بوڑھا محسوس کرتا ہوں، سنو! مجھے تمہارا انتظار ہے تم آجاؤ پھر سے۔۔ تا کہ میں پھر سے تمہارے لیے خواب بنوں۔۔ پھر سے تمہارے لیے کہانیاں لکھوں"۔
یہاں پر میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ارشد رضوی کے ہاں موجود کرافٹ بھی وہ والا کرافٹ نہیں جو ایک ایک فقرے کو سوچ سوچ کے لکھنے اور بار بار سیدھا سُتھرا کرنے والا کرافٹ ہوتا ہے بلکہ یہ ایک بڑے تخلیق کار کا تخلیقی کرافٹ ہے جو کسی مشقت کے نتیجے میں حاصل ہونے کی بجائے تخلیقی نظام کی پیداوار کے طور پر وقوع پذیر ہوتا ہے اور اپنا احساس دلائے بغیر ابلاغ کو توانائی بخشتا ہے۔
ارشد رضوی کو پڑھتے ہوئے کہیں کہیں قاری کا دھیان فرانز کافکا کی طرف جاتا ہے۔ شاید اس لیے کہ دنیا میں اس طرح کی نثر، تحریر یا ناول زیادہ تعداد میں ہیں نہیں۔ اس لیے جب بھی کہیں دوجگہ پر لاشعوری اعمال کی خارجی جمالیاتی تشکیل کا عمل نظر آتا ہے ہمیں ان میں مماثلت کا احساس ہونے لگتا ہے۔ حالانکہ ارشد رضوی کافکا سے اگلے عہد کا رائیٹر ہے۔ جہاں جہاں کافکا داخلیت کے سامنے بے بس نظر آتا ہے وہاں وہاں ارشد رضوی داخلیت پر غالب اور حاوی نظر آتا ہے۔ ارشد رضوی خارج اور باطن کے درمیان تصادم سے پہلے اپنے داخلی تصادم کی کہانی لکھتے ہوئے بھی اسے کہیں لایعنی و بے معنی ہونے نہیں دیتا اور یہی خوبی اسے ایک نثر نگار سے بڑے نثر نگار کے سنگھاسن پر متمکن کراتی ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ادب میں ٹریش ہمیشہ زیادہ اور حقیقی اعلیٰ ادب کی مقدار کم ہوتی ہے لیکن آج ہمارے مفاد پرست مدرسین نے اور لٹریری فیسٹیول مافیاء کے مصنوعی ادیبوں نے ٹریش کو بڑا ادب اور بڑے ادب کو ٹریش کہنا شروع کردیا ہوا ہے۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ قانونِ قدرت نے ہمیشہ ان بدبختوں کے خلاف فیصلہ دیا ہے۔ میں یہ گزارش کروں گا کہ ادب کا قاری یا طالب علم ادبی بالشتیوں کی بات کو درست تسلیم کرنے سے پہلے ارشد رصوی، علی نواز شاہ، اسد محمود خان اور ریاظ احمد کے ناول ضرور پڑھ لیں۔
مجھے خوشی ہے کہ سرزمینِ کراچی نے جس طرح اردو کو ہمیشہ بڑے شعراء، بڑے محقیقین اور بڑے ادیبوں سے نوازا ہے آج ارشد رضوی کی شکل میں ایک بڑا ناول نگار بھی عطاء کیا ہے۔ کراچی زندہ باد۔۔