Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Farhat Abbas Shah
  3. Aeeni Tarmeem Naguzir Kyun?

Aeeni Tarmeem Naguzir Kyun?

آئینی ترامیم ناگزیر کیوں؟

پاکستان کے آئینی و دفاعی ڈھانچے پر ازسرِنو غور کا وقت آن پہنچا ہے۔ گزشتہ اٹھہتر برسوں میں قانون سازی کا عمل ہمیشہ تاخیر، ذاتی مفادات اور وقتی سیاسی ضرورتوں کا شکار رہا۔ بیشتر آئینی ترامیم بھی قومی مفاد کے بجائے اقتدار کی سیاست کے تابع رہیں۔ خواتین، اقلیتوں اور سماجی طبقات کے لیے ہونے والی اصلاحات بھی بین الاقوامی دباؤ کے بغیر ممکن نہ ہوئیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان نے بین الاقوامی تنازعات۔۔ ایران و عراق، شام، لیبیا، افغانستان اور روس-یوکرین جنگوں۔۔ سے کوئی عملی سبق حاصل نہیں کیا۔ دنیا کے عسکری و سیاسی منظرنامے میں تیزی سے آنے والی تبدیلیوں نے یہ حقیقت آشکار کر دی ہے کہ اب دفاع کے روایتی تصورات بوسیدہ ہو چکے ہیں۔

انسانی تاریخ گواہ ہے کہ زیادہ تر جنگیں معیشت، وسائل اور طاقت کے حصول کے لیے لڑی گئیں۔ آج بھی یہی حقیقت برقرار ہے۔ اکیسویں صدی کو بجا طور پر جنگوں کی صدی کہا جا سکتا ہے۔ اس عہد کی جنگیں صرف سرحدوں پر نہیں بلکہ سائبر اسپیس، ڈیجیٹل نظام، ابلاغ اور خلا تک پھیل چکی ہیں۔ پاکستان کے لیے اب لازم ہے کہ وہ جدید عسکری و تکنیکی تقاضوں سے ہم آہنگ آئینی و ادارہ جاتی اصلاحات نافذ کرے۔

دنیائے دفاع میں ملٹری پیراڈائم شفٹ واقع ہو چکا ہے۔ تلوار سے بندوق، توپ اور ٹینک تک اور اب مصنوعی ذہانت و سائبر وارفیئر تک کا سفر اس بات کا مظہر ہے کہ جنگ کی نوعیت مکمل طور پر بدل چکی ہے۔ اب جنگ کا میدان صرف زمین، سمندر یا فضا نہیں بلکہ ڈیجیٹل نیٹ ورکس اور سیٹلائٹس بھی ہیں۔ یہی وہ نئے محاذ ہیں جہاں مستقبل کی جنگیں لڑی جائیں گی۔ پاکستان کا موجودہ آئینی فریم ورک، بالخصوص آرٹیکل 243، پرانے طرز کی جنگ کے دور کی عسکری ساخت پر مبنی ہے، جب جنگیں خطے تک محدود اور روایتی نوعیت کی تھیں۔

صدر مملکت کو مسلح افواج کا سپریم کمانڈر قرار دینا اور وزیراعظم کی زیرِ قیادت قومی سلامتی کونسل کے ذریعے پالیسی سازی کرنا اُس دور کے لیے موزوں تھا، مگر آج یہ ڈھانچہ فرسودہ محسوس ہوتا ہے۔ جدید دور کی جنگوں میں انضمام، ہم آہنگی اور مشترکہ کمانڈ بنیادی تقاضے ہیں اور انہی کے فقدان نے قومی سلامتی کے ڈھانچے کو کمزور کر رکھا ہے۔ پاکستان کو روزانہ ہزاروں سائبر حملوں کا سامنا ہے۔ حکومتی ویب سائٹس، حساس دفاعی ڈیٹا اور تنصیبات پر دشمن کی آنکھ مسلسل مرکوز ہے۔ ایسی صورت میں علیحدہ قومی سائبر کمانڈ کا قیام فوری اور ناگزیر ہے جو تینوں مسلح افواج کے سائبر یونٹس کو ایک مربوط نظام میں جوڑ سکے۔

دوسری جانب مصنوعی ذہانت (AI) نے جنگ کے تصور کو انقلاب سے دوچار کر دیا ہے۔ چین اور امریکہ اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری سے اپنے دفاعی نظاموں کو AI سے لیس کر رہے ہیں۔ خودکار ڈرونز، پیشگی خطرے کی نشاندہی اور ڈیٹا انٹیلیجنس سسٹمز اب مستقبل کی افواج کا حصہ ہیں۔ پاکستان اگر اس دوڑ میں شامل نہیں ہوتا تو دفاعی لحاظ سے صدیوں پیچھے رہ جائے گا۔ ہائبرڈ وارفیئر کی شکل میں دشمن کی حکمت عملی مزید پیچیدہ ہو چکی ہے۔۔ جہاں جنگ صرف فوجی تصادم نہیں بلکہ معلوماتی پروپیگنڈہ، معاشی دباؤ، سائبر حملے اور پراکسی گروہوں کے ذریعے لڑی جاتی ہے۔

بھارت سے روایتی سرحدی جھڑپوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کو ان تمام غیر روائیتی محاذوں پر بھی نبرد آزما ہونا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح خلائی جنگ اب حقیقت بن چکی ہے۔ سیٹلائٹ ٹیکنالوجی نے جاسوسی، نشانہ بندی اور مواصلاتی نظام کو بنیادی حیثیت دے دی ہے۔ لہٰذا پاکستان کو ایک جامع اسپیس ڈیفنس پالیسی تشکیل دینی ہوگی تاکہ وہ مستقبل کے خلائی خطرات کا سامنا کر سکے۔

ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے آئینی و ادارہ جاتی سطح پر درج ذیل اصلاحات ناگزیر ہیں:

1۔ تینوں مسلح افواج کو مربوط کرنے والی مشترکہ کمانڈ اینڈ کنٹرول کا قیام۔ ایک قومی سائبر کمانڈ جو دفاعی و شہری انفراسٹرکچر کی ڈیجیٹل حفاظت کرے۔

2۔ مصنوعی ذہانت کو دفاعی منصوبہ بندی اور رسپانس کے نظام میں شامل کرنا

3۔ ایک خلائی دفاعی اتھارٹی کا قیام جو قومی سیٹلائٹ پروگرام کو عسکری و سائنسی ضرورتوں سے ہم آہنگ کرے۔

دفاعی اصلاحات کے لیے آئینی ترامیم اب محض انتخاب نہیں بلکہ قومی بقا کی شرط ہیں۔ دنیا کے بڑے ممالک امریکہ، چین اور بھارت اپنے دفاعی ڈھانچوں کو ازسرِنو تشکیل دے چکے ہیں۔ امریکہ نے اپنے تمام شعبہ جات کو ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس کے تحت متحد کیا، چین نے پیپلز لبریشن آرمی کی ری اسٹرکچرنگ کی اور AI میں بے پناہ سرمایہ کاری کی، جبکہ بھارت بھی اپنے چیف آف ڈیفنس اسٹاف سسٹم کے ذریعے مشترکہ عسکری پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔

پاکستان ان تجربات سے سیکھ کر ایک ایسا ماڈل اپنا سکتا ہے جو قومی سلامتی کے تقاضوں کے عین مطابق ہو۔ اس عمل میں یقیناً رکاوٹیں آئیں گی۔ ادارہ جاتی مزاحمت، تکنیکی کمزوری، مالی وسائل کی کمی، بیوروکریسی کا جمود، ساسی غیرسنجیدگی اور عاقبت نا اندیشی۔ مگر ان چیلنجز سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ پاکستان کے پاس نوجوانوں کی ایک بڑی اور باصلاحیت آبادی ہے جو ڈیجیٹل، ٹیکنالوجیکل اور انجینئرنگ مہارت رکھتی ہے۔ اگر یہی نسل قومی دفاع میں شامل کر لی جائے تو پاکستان اپنے وسائل سے ہی ایک جدید دفاعی انقلاب برپا کر سکتا ہے۔

عملی سطح پر حکومت کو چاہیے کہ:

1۔ ایک قومی دفاعی کمیشن تشکیل دے جو موجودہ ڈھانچے کا تجزیہ کرکے اصلاحات کی سفارشات پیش کرے۔

2۔ سائبر سکیورٹی کو قومی سلامتی کے فریم ورک کا باضابطہ حصہ قرار دے اور علیحدہ بجٹ مختص کرے۔

3۔ جدید ٹیکنالوجی، AI اور ڈیجیٹل وارفیئر کی تعلیم کو فوجی تربیت کا لازمی جزو بنائے۔

4۔ بین الاقوامی تعاون کے ذریعے جدید دفاعی ٹیکنالوجی کے حصول اور تحقیقاتی تبادلے کو فروغ دے۔

پاکستان کے دفاعی و آئینی اداروں میں اس تشکیلِ نو کی ضرورت اب التوا برداشت نہیں کر سکتی۔ آئینی ترامیم کے بغیر یہ ممکن نہیں کہ کمانڈ اینڈ کنٹرول کے نظام کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا جا سکے۔ اگر ہم نے یہ قدم نہ اٹھایا تو مستقبل کی جنگیں ہماری موجودہ تیاریوں کو بے معنی کر دیں گی۔ تاریخ کے اس نازک موڑ پر پاکستان کے لیے دو ہی راستے ہیں، یا تو وہ جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر اپنے دفاعی اداروں کو نئی زندگی دے، یا پھر ماضی کی طرح جمود اور نعرہ بازی میں کھو جائے۔

قومی قیادت کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ آنے والی نسلوں کو ایک محفوظ، مستحکم اور باوقار پاکستان دینا چاہتی ہے یا صرف روائیتی نعروں پر اکتفا۔ آئینی ترامیم اب سیاسی کھیل نہیں بلکہ قومی سلامتی کا سوال ہیں۔ یہ اصلاحات پاکستان کو نہ صرف مضبوط بلکہ خودمختار، متحد اور جدید ریاست میں تبدیل کر سکتی ہیں۔ اگر ہم نے یہ موقع ضائع کیا تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ یہی لمحہ فیصلہ کن لمحہ ہے پاکستان کے دفاع اور اس کی آئینی ساخت کی نئی تعبیر کا۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam