ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات، کورونا وبا نے اس حقیقت کو عیاں کردیا ہے۔ کورونا وائرس نے امیر غریب، ترقی یافتہ اور پسماندہ کی تفریق نہیں کی مگر اب خدشات ہیں کہ دولت مند اور ترقی یافتہ ممالک پسماندہ اور غریب ممالک کو جرم ضعیفی کی سزا دیں گے۔ انہی خدشات کا اظہار عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ایڈنانوم نے کورونا ویکسین کی مختلف ممالک میں غیر مساوی تقسیم اور ترجیحات کے حوالے سے کہا کہ دنیا ویکسینیشن کی وجہ سے ایک تباہ کن اخلاقی پستی و ناکامی کے لیے تیار ہے جس کی قیمت غریب ترین ممالک میں انسانی جانوں کے ضیاع اور روزگار و معیشت کی تباہی کی صورت میں ادا کرنی پڑے گی۔ ان کے مطابق اب تک تقریباً 49 ترقی یافتہ ممالک میں 30 ملین سے زائد ویکسین ڈوز دی گئی ہیں اور مقابلتاً ایک غریب ملک میں صرف 25 خوراکیں دی گئی ہیں۔ غریب ملک کے شہری ہونے کے ناطے ہم یہ بات بہتر طور سمجھ سکتے ہیں کہ یہ 25 خوراکیں بھی کن خوش نصیب لوگوں کے حصے میں آتی ہیں۔ وسائل اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم پر آکسفیم نے اپنی رپورٹ، وائرس کی تفریق، جوکہ ورلڈ اکنامک فورم کے افتتاحی اور ڈیووس ایجنڈے میں شائع ہو گی، میں بتایا ہے کہ دنیا کے ایک ہزار ارب پتی سفید فام امیر ترین افراد کورونا کی وجہ سے اپنے نقصانات کو نو ماہ میں ہی پورا کر چکے ہیں جبکہ دنیا کے غریب ترین لوگوں کو اپنے معاشی نقصان کو پورا کرنے میں ایک دہائی لگ جائے گی۔ اس رپورٹ کے مطابق اس وبا سے ہر ملک میں معاشی عدم مساوات بڑھے گا۔ اس وبا کے آغاز سے اب تک دنیا کے دس امیر ترین افراد کی دولت میں مشترکہ طور پر نصف کھرب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے اور اگر وہ اس پیسے کو صرف کریں تو پوری دنیا میں غریبوں کو ویکسین کی مفت فراہمی اور غربت کا شکار ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے غریب ترین خطے میں 101 ارب پتی افراد کی آمدنی میں مارچ سے اب تک 174 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے جو اگر غریبوں پر خرچ کئے جائیں تو اسی وبا کی وجہ سے غربت کے مارے نو کروڑ 30 لاکھ غریب افراد کو فی کس تقریباً 2000 ڈالر فراہم کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہی امیر اور کاروباری حضرات قرض اور سبسڈی کے ذریعے خود کو نقصان سے بچانے کے لیے حکومتوں پر دبائو ڈال کر اپنے موافق فیصلہ اور پالیسی سازی کرواتے ہیں لیکن غریب کو مزید غریب تر ہونے سے بچانے کے لیے کوئی بھی کچھ کرنے کوتیار نہیں۔ یہ ایک معاشرتی و اخلاقی بحران نہیں تو اور کیا ہے۔ انٹرنیشنل چیمبر آف کامرس کی ایک تحقیق کے مطابق اگر تمام ترقی یافتہ ممالک 2021ء کے وسط تک مکمل ویکسین لگا لیں اور غریب ممالک سے رابطہ منقطع کرلیں تو بھی عالمی معیشت کو 9 ٹریلین ڈالر کا نقصان ہو گا جوکہ جاپان اور جرمنی جیسی معاشی طاقتوں کی سالانہ آمدنی کے برابر ہے اور اگر غریب ممالک 2021ء کے آخر تک اپنی آدھی آبادی کو ویکسین لگانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو بھی عالمی معیشت کو تقریباً 3.8ٹریلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑے گا جس کا زیادہ تر حصہ امیر ممالک کو ہی ادا کرنا ہوگا۔ اس لیے محققین کے مطابق کوئی معیشت اس وقت تک اس وبا کے نقصان سے مکمل طور پر نہیں بچ سکتی جب تک ہم سب مجموعی طور پر اس وبا کا مقابلہ نہ کریں۔ استنبول کی KDC یونیورسٹی کے مسٹر سلوا دمیرالپ کے مطابق ACT اب تک غریب ممالک کے لیے 11 بلین ڈالر سے کم رقم جمع کر پایا ہے جبکہ اس کا ہدف 38 بلین ڈالر اکٹھا کرنا ہے۔ بقیہ 27 بلین ڈالر اس نقصان سے بہت کم ہے جو ویکسین کی غیر مساوی تقسیم کے نتیجے میں عالمی معیشت اور دنیا کو پہنچے گا لیکن اس ادراک و آگہی کے باوجود ACT 27 بلین ڈالر اکٹھا نہیں کرپارہا۔ یہ اخلاقی بحران نہیں تو اور کیا ہے۔
اخلاقی بحران تو یہ بھی ہے کہ اسرائیل جیسا ملک جو اپنی طاقت اختیار اور وسائل کے ساتھ بزور طاقت فلسطینیوں کی سرزمین پر قابض ہے وہاں بسنے والے لاکھوں فلسطینیوں کو کورونا ویکسین فراہم کرنے سے انکاری ہے جبکہ دنیا کے امیر ترین افراد میں سے کچھ کا تعلق اسرائیل سے بھی ہے اور یہی صورتحال بھارت میں تشدد پرست بی جے پی کی مودی سرکار میں بھی دکھائی دیتی ہے جو کشمیری لیڈر محبوبہ مفتی کے مطابق اسرائیل کی ظالمانہ پالیسیوں کو اپناتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں تساہل سے کام لے رہی ہے۔
پاکستان کے لیے اس صورتحال کا ایک دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ بھارت جو کتے اور سانپ کے کاٹنے کی ویکسین برآمد کرنے والا ملک تھا، آج انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ کے تعاون سے بھارت بائیوٹیک میں ایک مکمل لوکل اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی آسٹرازنیکا کا لائسنس حاصل کرنے کے بعد کامیابی سے ویکسین بنا چکا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کے مطابق پہلی کھیپ بھوٹان اور مالدیپ پہنچ گئی ہے جبکہ بنگلہ دیش، نیپال، میانمار اور جزائر سیچلس کے بعد سری لنکا، افغانستان اور ماریشئس کوبھی جلد روانہ کردی جائے گی جبکہ پاکستان میں ابھی تک ویکسین کی فراہمی کی حتمی تاریخوں کا اعلان ہی نہیں کیا جا سکا۔ حال ہی میں دوست ملک چین نے جنوری کے اختتام تک 5 لاکھ مفت ویکسین خوراکوں کی فراہمی کا" تحفہ" دیا ہے اور عالمی ادارہ صحت نے کورونا وبا کے خلاف عالمی اشتراک کے تحت دنیا کے 92 غریب ممالک سمیت پاکستان کی بیس فیصد آبادی کو ویکسین کی مفت فراہمی کا وعدہ کیا ہے، اسی بنا پر حکومت پاکستان نے ابھی تک صرف بیس فیصد آبادی کو ویکسین کی فراہمی کی بات کی ہے لیکن یہ کب تک ممکن ہوگا۔
معاشی مسائل سے دوچار پاکستان کی حکومت نے کورونا ویکسین کے لیے محض 15.0 ملین ڈالر مختص کئے ہیں جوکہ صرف 0.2 فیصد آبادی کو ویکسین فراہم کرنے کے لیے کام دے سکتے ہیں جبکہ اجتماعی مدافعت کے لیے کم از کم ملک کی ستر فیصد آبادی کو ویکسین لگنا ضروری ہے تاکہ اس کے پھیلائو اور نقصان کو روکا جا سکے اور زندگی، روزگار اورملکی معیشت دوبارہ بحال ہو سکے۔ اس لیے پاکستان نے پرائیویٹ سیکٹر کو ویکسین درآمد کرنے کی اجازت بھی دے دی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ بائیس کروڑ افراد میں سے سینکڑوں امیر ترین افراد کیا اپنی اخلاقی ذمہ داری پوری کریں گے اور اپنے غریب ہم وطنوں کو ویکسین کی مفت فراہمی میں حکومت کا ساتھ دیں گے؟ یا سب سے پہلے ہم اس کاروبار سے مزید منافع کمائیں گے یا پھر کورونا کی پہلی لہر کی طرح مفت ملنے والے حفاظتی ماسک اور لباس کی طرح ویکسین بھی غرباء اور پیرامیڈیکل سٹاف کو دینے کے بجائے خود اور اپنے اہل خانہ کو لگوالیں گے۔ حکومت کو یہ اپیل کرنی چاہیے کہ ہم اپنے صدقات و زکوٰۃ و خیرات کو اس سال کورونا ویکسین کے لیے خرچ کریں لیکن عوام کو یہ اعتماد کون دے گا کہ اس طرح حاصل شدہ رقم براڈشیٹ ہرجانے اور پی آئی اے طیارے کی لیز جیسے معاملات میں نہیں دے دی جائے گی۔
وزیراعظم عمران خان نے وبا کے خاتمے تک معاشی مشکلا ت سے دوچار ملکوں کے قرضوں کی واپسی کو موخر کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے لیکن ہمیں تیزی سے بڑھتے ہوئے قرضوں کے بارے میں فیصلہ کرنا ہے کہ آخر کب تک ہم اثاثے گروی رکھ کر ملک چلا سکیں گے اور جب گروی رکھے جانے کے لیے اثاثے بچے اور نہ قرض کی ادائیگی ممکن ہوئی تو کیا کریں گے؟ ہمیں یہ بھی سوچنا ہے کہ آج اگر بھارت سانپ و کتے کے کاٹنے کی ویکسین کے بعد کورونا ویکسین خود بنانے کے قابل ہے تو ہمارے ایف ایس سی میں 999/1000 نمبر لینے والے طلباء و طالبات کیوں اس قابل نہیں کہ سائنسی تر قی اورٹیکنالوجی کی اس دنیا میں پاکستان کو دوسرے ملکوں کے ہم پلہ رہنے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ ہمیں نہ صرف اس بار ے میں سوچنا ہو گا بلکہ بہت جلد اس کا حل بھی نکالنا ہوگا کیونکہ۔
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات