امریکا، طالبان اورافغانستان
افغان طالبان نے استنبول افغان امن کانفرنس کا بائیکاٹ کردیا ہے، عبوری حکومت کے قیام اور عام انتخابات بارے تمام امریکی تجاویز یکسر مسترد کر دی ہیں اور دوحہ معاہدے کی روشنی میں تمام غیر ملکی افواج کے فوری اور بلا تاخیر انخلا کا مطالبہ کر دیا ہے۔
امریکی صدر جوبائیڈن کے تازہ اعلان پر طالبان نے باضابطہ اعلامیہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے، چونکہ فوجوں کے انخلا میں چند ماہ کی تاخیر اور 11 ستمبر 2021 تک اس کی تکمیل کا اعلان کیا گیا ہے، امریکا کا یہ فیصلہ دوحہ معاہدے کی کھلی خلاف ورزی اور عہد شکنی ہے۔ اس معاہدے پر اقوام متحدہ، متعدد ممالک اور تنظیموں کے نمائندوں کی موجودگی میں دستخط کیے گئے تھے، تمام گواہ ممالک اور تنظیموں کو چاہیے کہ وہ امریکا پر دباؤ ڈالیں، کہ وہ معاہدے پر عمل درآمد کرے اور بلاتاخیر اپنی تمام فوجوں کو افغانستان سے نکال لے۔
جوبائیڈن شروع دن سے افغانستان میں جاری جنگ سے جان چھڑاناچاہتے تھے لیکن اوباما دورمیں وہ امریکی انتظامیہ کو مکمل انخلا پر آمادہ نہ کرسکے تھے۔ جو بائیڈن اصرار کرتے ہیں کہ ہم اپنی آیندہ نسلوں کا مستقبل افغان جنگ کے لیے داؤ پر نہیں لگاسکتے۔
ہمیں سماجی تفریق ختم کرنے، غربت کی پیش قدمی روکنے، براڈبینڈ انٹرنیٹ اور 5جی ٹیکنالوجی کی فراہمی کے لیے کام کرنا ہوگا اورکلی یکسوئی سے اقتصادی صورت حال کو بہتر بناناہوگا۔ گزشتہ دودہائیوں سے جاری جنگ پر 2کھرب ڈالر ضایع ہوئے، تین ہزار فوجی مارے گئے، 20 ہزار ہمیشہ کے لیے معذور ہوگئے، لاکھوں افغان باشندے جنگ کی بھینٹ چڑھے جب کہ پاکستان میں اس جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں 70 ہزار افراد آئے۔
عالم یہ ہے کہ افغان صدر اشرف غنی کے ہاتھ سے اقتدار، اختیاراوراعتبار مٹھی میں بند ریت کی طرح تیزی سے پھسلتاجارہا ہے۔ 73ایکڑ پر پھیلے ہوئے افغان صدارتی محل کے سرسبز وشاداب سبزہ زار پر بہارکے موسم میں خزاں ڈیرے ڈال رہی ہے اگرچہ اشرف غنی اب بھی معمول کی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، پرجوش اورولولہ انگیز تقاریر کر رہے ہیں، مادروطن کے دفاع کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے کے دعوے بھی کیے جارہے ہیں لیکن صدرغنی کے اپنے مشیر وزیر یہ نعرے اوردعوے سن کر زیر لب طنزیہ مسکراتے ہیں۔
افغانستان کا سب سے اداس اورتنہا شخص اشرف غنی ہے۔ صدربائیڈن کے مشیر باور کرارہے ہیں کہ کابل سے غیر مشروط انخلا کے بعد اربوں کھربوں ڈالر خرچ کرکے تشکیل دی جانے والی افغان نیشنل آرمی ریت کی دیوار کی طرح بیٹھ جائے گی۔ 1975میں ویت نام سے انخلا کے نتیجے میں امریکا کو جو شکست ہوئی وہی تاریخ اب کابل میں دہرائی جائے گی۔
صدربائیڈن کہتے ہیں کہ جب ہم سے 20سال میں 2کھرب ڈالر خرچ کرکے اورہزاروں سپاہیوں کی قربانی دے کر کچھ حاصل نہیں کر سکے تو اب ایک دو سال میں مزید اربوں ڈالر خرچ کرکے کون سا تیر مار لیں گے، اس لیے لاحاصل جنگ کا یہ باب ہمیشہ کے لیے بند کرنا ہوگا۔ ہمیں چین کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیارکرناہے، اس لیے ہمیں افغانستان میں اپنی فوجی رسد کی سپلائی لائن کادفاع کرنے کے بجائے اقتصادی سپلائی لائن کے دفاع پرتوجہ دینا ہوگی اورجمہوری نظام کوقابل عمل ثابت کرنے کے لیے مضبوط معاشی بنیاد فراہم کرنا ہو گی۔
یہ چینی تھے جو امریکا کے افغانستان اورعراق کی دلدل میں پھنسنے پر سب سے زیادہ خوش تھے۔ امریکی حکمت کاروں کی رات کی نیند فوجیوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں پر حرام ہو رہی تھی یا پھر ہم افغان صوبوں پر اپنی عمل داری بحال کرنے پر ہلکان ہورہے تھے، عین اس وقت چینی دنیا کے مختلف علاقوں میں اپنا اثرورسوخ بڑھارہے تھے جہاں کبھی امریکی سپرپاور کے ڈنکے بجتے تھے۔ گذرے برسوں میں چینی کیمونسٹ پارٹی کے بیجنگ اسکول میں ایک ماہر حکمت کار نے برملا کہاتھا کہ ہم بہت خوش ہیں کہ امریکی اپنے بے پناہ وسائل عراق کے صحراؤں اورافغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں ضایع کررہے ہیں۔
حقیقت پسندانہ حکمت یہی ہے کہ 2021 کے مسائل اورچیلنج سے عہدہ برا ہونے کے لیے 2001والی کتاب بند کرکے آج کے زمینی حقائق سے نبردآزما ہواجائے۔ واشنگٹن میں بائیڈن مخالف رجعت پسند لابی بائیڈن کے فیصلے کوامریکی پسپائی اورشکست قرار دے رہی ہے۔ وہ دیدہ دانستہ اس حقیقت سے نگاہیں چرا رہے ہیں کہ فتنہ پرور ٹرمپ بھی2021دسمبر، کرسمس سے پہلے فوجی انخلا کی خوش خبری سناچکے تھے۔ امریکی شہ دماغ برملا اعتراف کرتے ہیں کہ ہم ایک ہی وقت میں مختلف محاذوں پر نہیں لڑسکتے۔ اس لیے افغانستان سے مکمل انخلا ہی بہترہوگا، صرف سفارت کاروں کے تحفظ کے لیے ضروری محافظ کابل میں رہیں گے۔
پینٹاگون کااصرارتھا کہ امریکی انخلا کو مشروط رکھاجائے کہ اگر کابل کی انتظامیہ کو تحلیل ہونے کے شدید خطرات درپیش ہوئے تو انخلا میں تاخیر کی جاسکتی ہے جسے صدر بائیدن نے سختی سے مسترد کردیا ہے۔ بائیڈن کھلے بندوں کہہ رہے ہیں کہ میرے لیے نیویارک کابل سے زیادہ اہم ہے۔ ہمیں سپیس کے ساتھ ساتھ سائیبر سپیس کے محاذ پر درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرناہے۔ ہمارے لیے کابل، قندھار اور مزار شریف میں کیارکھاہے۔
اشرف غنی افغاستان کے میدان جنگ میں مایوس، افسردہ اور تن تنہا کھڑے ہیں۔ ان کا علم و فضل اور جان ہاپکنز کی ڈگریاں، ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ میں کام کرنے کا تجربہ کسی کام نہیں آرہا۔ بظاہرنیم خواندہ طالبان ہر معاملے میں ان پر سبقت لیے جارہے ہیں یہاں تک کہ امریکی بھی انھیں اعتماد میں لیے بغیر طالبان سے براہ راست مذاکرات کررہے ہیں۔ کامل 4 دہائیوں بعد امن کی راہیں کشادہ ہو رہی ہیں، سوویت یونین کے بعد دنیا کی واحد سپر پاور امریکا بھی داغ ناکامی لیے پسپا ہورہی ہے۔ 11ستمبر 2021 کو نائن الیون حملوں کے 20 برس مکمل ہوں گے۔ اس عرصے میں دنیا بہت بدل گئی ہے۔ جو بائیڈن اس بدلی دنیا میں کیا فیصلے کرتے ہیں، اس کا پتہ بھی جلد چل جائے گا۔
حرف آخر یہ کہ گزشتہ ہفتے جناب آئی اے رحمن اور ضیا شاہد سفر آخرت کو روانہ ہوئے۔ دونوں بزرگ متضاد نظریات کے حامل رہے۔ جناب رحمن سیکولر جمہوریت اور انسانی حقوق کاعلم بلند کیے رہے، ان کی من موہنی مسکراہٹ اور دھیما لہجہ شجر سایہ دار رہا۔ آخری ملاقات گھنٹوں پر محیط تھی، اپنے سہیل احمد عزیزی کی مقبولیت اور ٹی وی اسکرین کی طاقت پر گفتگو کرتے رہے۔
جناب ضیا شاہد سے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتے رہے۔ دم آخر تو تعلقات تقریباً ختم ہوچکے تھے لیکن انتقال سے صرف چار چھ ہفتے پہلے اچانک ان کی کال آگئی۔ چند شکوے شکایات کے بعد وہی بزرگانہ پیار و محبت اور قصے کہانیاں تھیں۔ کانفرنس کال پر جناب اسد اللہ غالب کو بھی شامل حال کرلیا تھا۔ آخری کال میں لاہور آمد پر حاضری کا پکا وعدہ لیا تھا۔ اور خود سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔ جناب ضیا شاہد نے صحافت کو عوامی رنگ دیا۔ عالی شان ایوانوں سے نکال کر عام آدمی تک لے آئے، وہ سر تا پا عامل و کامل صحافی رہے۔ بے نواوں کی آواز بنے۔ ظلم اور ظالموں کا تعاقب کرتے رہے۔