بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کا خطرہ
بھارتی حکومت اکثریتی ہندوؤں اور اقلیتی مسلمانوں کے مابین کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے اور بھارت میں مسلمانوں کے لیے صورت حال نسل کشی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں پھیل چکی کورونا وائرس کی وبا کے تناظر میں بھارت میں اس وبائی مرض کی آڑ میں جو صورت حال پیدا ہو رہی ہے، اس پر پوری دنیا کو نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
بھارت میں کووِڈ انیس کا مرض اب تک کسی حقیقی بحران کی وجہ نہیں بنا۔ اصل بحران تو نفرت اور بھوک کا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ایک بحران ہے، جس سے قبل دہلی میں قتل عام بھی ہوا تھا۔ قتل عام، جو اس بات کا نتیجہ تھا کہ لوگ شہریت سے متعلق ایک مسلم مخالف قانون کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ اس وقت بھی جب ہم یہ گفتگو ر ہے ہیں، کورونا وائرس کی وبا کی آڑ میں بھارتی حکومت نوجوان طلبہ کو گرفتار کرنے میں لگی ہے۔ وکلا، سینئرمدیران، سیاسی اور سماجی کارکنوں اور دانشوروں کے خلاف مقدمات قائم کیے جا چکے ہیں اور ان میں سے کچھ کو تو حال ہی میں جیلوں میں بند بھی کیا جا چکا ہے۔
ان کامقصد ہی یہی ہے۔ آر ایس ایس نامی وہ پوری تنظیم جس سے وزیر اعظم مودی کا بھی تعلق ہے اور جو حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی )کے پیچھے فعال اصل طاقت ہے، وہ تو عرصے سے یہ کہتی رہی ہے کہ بھارت کو ایک ہندو ریاست ہونا چاہیے۔ اس کے نظریہ ساز بھارتی مسلمانوں کو ماضی کے جرمنی میں یہودیوں سے تشبیہ دے چکے ہیں۔ جس طرح بھارت میں کووِڈ انیس نامی بیماری کو استعمال کیا جا رہا ہے، وہ طریقہ کافی حد تک ٹائیفائیڈ کے اس مرض جیسا ہے، جسے استعمال کرتے ہوئے نازیوں نے یہودیوں کو ان کے مخصوص رہائشی علاقوں میں ہی رہنے پر مجبور کیا تھا۔ میں بھارت میں عام لوگوں اور دنیا بھر کے انسانوں کو یہی کہوں گی کہ وہ اس صورت حال کو بہت ہلکے پھلکے انداز میں نہ لیں۔
بھارت میں اس وقت صورت حال نسل کشی کی طرف جا رہی ہے، کیونکہ حکومت کا ایجنڈا یہی رہا ہے۔ جب سے موجودہ حکومت اقتدار میں آئی ہے، مسلمانوں کو جلایا گیا اور ان کا شکار کیا گیا۔ لیکن اب مسلمانوں کے اس وبا کے ساتھ نتھی کیے جانے سے حکومتی پالیسیاں کھل کر سڑکوں تک آ گئی ہیں۔ آپ ہر جگہ ان کی بازگشت سن سکتے ہیں۔ اس بات کے ساتھ شدید تشدد اور خونریزی کا خطرہ بھی جڑا ہوا ہے۔ اب تو اسی شہریت ترمیمی قانون کا نام لے کر حراستی مراکز کی تعمیر بھی شروع ہو چکی ہے۔ اب اس صورت حال کو بے ضرر سا بنا کر اور کورونا وائرس کی وبا سے منسوب کر کے ایسا کچھ کرنے کی کوشش کی جائے گی، جس پر دنیا کو اچھی طرح نظر رکھنا چاہیے۔ اس سے زیادہ اس خطرے کی نشاندہی میں نہیں کر سکتی۔
بھارت کے موجودہ حالات ایک ایسا المیہ ہیں، جو بہت بڑا اور حقیقی تو ہے لیکن نیا نہیں ہے۔
دنیا کی آنکھیں بند ہیں۔ ہر بین الاقوامی رہنما وزیر اعظم (نریندر مودی ) کا خیر مقدم کرتا اور گلے ملتا نظر آتا ہے، حالانکہ وہ بھی تو خود اس پورے ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ جب پرتشدد واقعات شروع ہوتے ہیں، تو مودی خاموش رہتے ہیں۔ دہلی میں جو گزشتہ قتل عام ہوا، وہ وہی وقت تھا جب امریکی صدر ٹرمپ بھی بھارت کے دورے پر تھے۔ لیکن ٹرمپ نے بھی کچھ نہ کہا۔ کوئی بھی کچھ نہیں کہتا۔ اسی طرح بھارتی میڈیا بھی، سارا نہیں لیکن اس کا ایک حصہ، آج کل ایک نسل کش میڈیا بنا ہوا ہے، ان جذبات کی وجہ سے جن کو ابھارنے کا وہ کام کر رہا ہے۔ بھوک کے اس بحران کی تو میں نے ابھی بات ہی نہیں کی، جس کا کئی ملین بھارتی باشندوں کو سامنا ہے۔