Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Zam Zam Therapy

Zam Zam Therapy

زم زم تھراپی

جاوید چودھری کو میں بارہ سال کی عمر سے پڑھ رہا ہوں، ہمارے گھر اخبار باقاعدگی سے آتا تھا، ابو جی اخبار شوق سے پڑھتے تھے اور اہم خبروں اور اخباری تراشوں کو الگ سے فائلوں میں محفوظ کرتے تھے اس کے ساتھ انھیں اچھے کالم جمع کرنے کا شوق تھا، اس کے لیئے کتابوں والی الماری کا ایک الگ خانہ مختص تھا جہاں سالانہ ترتیب کے حساب سے ہر سال کی الگ فائل اچھے کالموں پر مشتمل ہوتی۔ جب میری شعوری رسائی لفظوں تک ہوئی تو پہلا دھاوا ان کالموں والی فائلوں پر بولا تھا۔ ان کالموں کے مجموعے میں سب سے زیادہ جس کے کالم پڑے دیکھے وہ قبلہ چودھری صاحب کے تھے۔

ننھے منے ذہن کو چودھری صاحب کے کالم کافی بھائے۔ بعض باتیں سمجھ نہ آتیں تو چھوڑ دیتا۔ مگر چودھری صاحب کے لفظوں سے ایک رشتہِ برقرار رہا۔ چودھری صاحب خوب لکھتے ہیں کالم کی ابتداء ہمیشہ کسی سچے جھوٹے مگر دلچسپ واقعہ سے کرتے ہیں اور پھر زور زبردستی کالم کے موضوع کے ساتھ اس واقعے کو نتھی کر دیتے ہیں۔ ان کے کئی کالم بڑے یادگار تھے۔ میرا پسندیدہ کالم تھا "کھڑکی کے پردوں سے دستک دیتا وقت"۔ جب معمر قذافی کو عوام نے ہلاک کیا تھا تو اس کے بیٹے پر چودھری صاحب نے کالم لکھا تھا اور کمال کر ڈالا۔ مجھے وہ کالم حرف بہ حرف یاد تھا۔ خیر وقت کے ساتھ عمر بڑھتی گئی اور الماری میں پڑی کالموں والی فائلوں کی تعداد میں بھی اصافہ ہوتا گیا۔

وقت کی کمی کے باعث اب بہت کم چودھری صاحب کے کالم پڑھ پاتا ہوں مگر جب بھی پڑھتا ہوں تو پرانے والا جاوید چودھری نظر نہیں آتا۔ یہ نہیں چودھری صاحب پہلے نہیں چھوڑا کرتا تھا مگر اس وقت ان چھوڑی ہوئی باتوں کے سر پیر سمیت اعضائے رئیسہ بھی سلامت رہتے تھے مگر شاید وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی چھوڑی ہوئی باتیں ہلکی ہلکی سی "خصی" محسوس ہوتی ہیں۔

آج حادثاتی طور پر اتوار کے دن میں صبح جلدی اٹھ گیا جو ویسے اپنی عادت نہیں ہے۔ ناشتے کی میز کر رکھی فولڈ فولڈ کی ہوئی اخبار پر نظر پڑی تو۔ ایک کالم کا عنوان"زم زم تھراپی" کے نام سے نظر آیا۔ چھٹی حس نے کہا اس نوعیت کا عنوان صرف اپنے چودھری ہی کے قلم کا شاخسانہ ہو سکتا ہے۔ فولڈ کی ہوئی اخبار کو جب سیدھا کیا تو کاغذ نے انگڑائی لے کر چودھری صاحب کی تصویر مع کالم سامنے کر دی۔

کالم میں چودھری صاحب ایک ڈاکٹر کا قصہ بیان کرتے ہیں جو ان کے ساتھ آذربائجان کی سیاحت پر آئے ہیں اور حسب روایت چودھری کو ملنے والا ہر انسان اپنی فیلڈ کا لیجنڈ ہوتا ہے ٹھیک ویسے ہی یہ ڈاکٹر بھی "ٹاپ"کے ڈاکٹر تھے۔ جو نہ جانے کونسی کونسی طبی فلیڈ میں پاکستان کے پہلے سپیشلسٹ تھے۔ ڈاکٹر صاحب کو کوئی بیماری لگ گئی تھی جس کے باعث ان کے پورے جسم پر خارش نے حملہ کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے جب ٹیسٹ کروائے تو انکشاف ہوا کہ انھیں کینسر ہے۔

چودھری صاحب کو دنیا کے ہر کامیاب انسان کو لگنے والی بیماری "نایاب قسم" کی نظر آتی ہے ٹھیک ویسے ہی ڈاکٹر صاحب کو ہونے والا کینسر بھی "نایاب" قسم کا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے زمین آسمان ایک کر دیا، دنیا کے بڑے ڈاکٹروں سے علاج کروایا مگر شفاء نہ ملی، آخر کسی نے زم زم تھراپی کا مشورہ دیا۔ بقول چودھری کے پاکستان کے ٹاپ کا ڈاکٹر کیمو تھراپی چھوڑ کر زم زم تھراپی کروانے مکہ پہنچ گیا اور پھر جیسے ان کی ہر کہانی کے آخر میں راوی چین ہی لکھتا ہے ویسے ہی اس کہانی میں بھی ڈاکٹر صاحب ٹھیک ہو جاتے ہیں زم زم تھراپی سے۔

مگر رکیئے چودھری صاحب کے بقول جو ڈاکٹر پاکستان کا ٹاپ کا ڈاکٹر تھا اسے یہ نہیں پتہ تھا جس زم زم سے شفاء پانے کے لیئے ڈاکٹر صاحب کیمو تھراپی چھوڑ آئے تھے وہ اپنی صفائی کے لیئے جرمنی کے فلٹریشن پلانٹ کا محتاج ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو چائیے کہ اپنی ڈگریاں جلا کر صرف زم زم کی سپلائی کا ٹھیکہ لے لیں کیونکہ ان کی فلیڈ تو ان کا ساتھ بیماری میں چھوڑ گئی تھی۔

پاکستان کے تمام ڈاکٹروں کو چائیے کہ ہسپتال میں آپریشن تھیٹر بند کرکے وہاں زم زم کی سبیلیں لگا لیں اور مریضوں کو زم زم تھراپی کروائیں۔ میڈیکل سٹوروں پر ادوایات کی جگہ صرف زم زم کی بوتلیں ہی رکھیں تاکہ پورا ملک زم زم تھراپی سے شفایاب ہو سکے۔

چودھری نے کالم کے آخر میں سیاحتی گروپ کا اشتہار دیا ہے جو مراکو جا رہا ہے۔ چودھر صاحب کو مراکو کے بجائے جدے کی فلائیٹ کا اشتہار دینا چاہیے تھا تاکہ تمام بیماروں کو مکہ پہنچا کر زم زم تھراپی کروا سکیں۔

Check Also

Lucy

By Rauf Klasra