Sunday, 29 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Shiaism

Shiaism

شیعہ ازم

یہ قصہ شروع ہوتا ہے ثقیفہ بنی ساعدہ سے۔ حضور ﷺ کی وفات کے فوراً بعد ہی خلافت کا تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا۔ انصار خلافت کے لیئے اپنی دعویداری ظاہر کر رہے تھے اور مہاجرین اپنی۔ یہاں تک کہ حضرت عمر نے "الآئمۃ من القریش" کو بنیاد بنا کر ابوبکر صدیقؓ کو خلیفہ منتخب کر دیا۔ مسئلہ یہاں سے شروع ہوا کہ خلیفہ کے انتخاب کے وقت حضرت علی وہاں موجود نہیں تھے بلکہ حضور ﷺ کی تدفین کے معاملات میں مصروف تھے۔ ان سے مشورہ تک نہ لیا گیا۔ اس انتخاب خلیفہ نے مسلمانوں کو ابتداء سے ہی دو بنیادی جماعتوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ یہاں تک کہ حضرت علی نے بھی چھ ماہ بعد جاکر ابوبکر صدیق کی بیعت کی۔ مگر اختلاف کی آگ سلگتی رہی۔ اہل تشیع آج تک سمجھتے ہیں کہ نمبر صرف علی کا پہلا ہونا چاہیے تھا کیونکہ غدیر خم میں حضور نے علی کی ولایت کا اعلان کر دیا تھا۔

مگر اس تقسیم کو باقاعدہ شناخت اس وقت ملی جب حضرت علی خلیفہ چہارم بن گئے اور امیر معاویہ نے چوتھے خلیفہ کے خلاف تلوار اٹھا کر بغاوت کر دی۔ جنگ صفین ہوئی، جمل بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ ان جنگوں میں حضرت علی کے ساتھی خود کو شیعان علی کہنے لگے اور یہاں سے باقاعدہ مسلمانوں کے ہاں دو فرقوں کی ولادت ہوتی ہے۔

حضرت علی کے بیٹے کی شادی ایران کی شہزاد سے ہوجاتی ہے۔ جہاں سے اہل تشیع کا غیر شعوری مرکز ایران بنتا گیا۔ اس کے بعد کربلا ہوگئی، پھر واقعہ حرا پیش آیا۔ اس کے بعد بنو امیہ کے لشکر خانہ کعبہ پر چڑھ دوڑے۔ پھر حجاج نے آکر کمان سنبھالی۔ ان سب نے اہل تشیع کو مزید ایک مزاحمتی فرقے میں تبدیل کرکے نظریاتی طور پر مزید مضبوط کیا۔

نفس زکیہ علویوں کا بڑا نام تھا۔ اس نے بنو عباس کے ساتھ مل کر بنو امیہ کا تختہ پلٹنے کا پلان تیار کیا۔ مگر تختہ پلٹنے کے بعد بنو عباس اکیلے ہی تخت پر سوار ہوگئے اور علویوں کو کھڈے لائن لگا دیا۔ علویوں کے لیئے لوگوں کے دلوں ان کی مظلومیت کی وجہ سے ایک نرم گوشہ تو بہر حال تھا۔ جسے عباسی حکمران اپنے لیئے خطرہ سمجھتے۔

یہاں تک ایک اصطلاح اس دور میں وضع ہوئی رافضیت کی اور اسے ایک قسم کی شرعی گالی بنا دیا گیا۔ اہل بیعت کے محبین کے لیئے۔ اس دور کا ایک بڑا دلچسپ واقعہ ہے۔ جب امام شافعی کو اہل بیت کے حق میں بولنے پر رافضی کہا گیا تو انھوں نے ایک بڑا مشہور عربی شعر کہا۔۔

ان کان رفضا حبا آل محمد

فلیشھد ثقلان انی رافضی

(اگر اہل بیت سے محبت کرنا ہی رافضیت ہے

تو زمین و آسمان گواہ ہو جائیں میں رافضی ہوں)

اہل تشیع کو رگڑے بھی بہت لگے۔ امویوں نے بھی انھیں خوب مارا۔ عباسیوں نے بھی۔ یہاں تک عثمانیوں نے بھی انھیں نہ چھوڑا۔ جب عثمانی سلطان سلیم اول نے مصر پر لشکر کشی کی چالیس ہزار علویوں کا قتل عام کیا۔ جلال الاحمد لکھتے ہیں سلطان سلیم نے اعلان کیا تھا "ایک علوی کو مارنا ستر عیسائیوں کو قتل کرنے کے مترادف ہے"۔

بعد ازاں شیعہ اسلام کو بڑی سیاسی سرپرستی اس وقت ملی جب فاطمی سلطنت شمالی افریقہ میں قائم ہوئی۔ اس کے بعد بھی کئی چھوٹی بڑی ریاستیں اہل تشیع کی ریاستیں قائم ہوئیں جن میں زیدی حکومت موجودہ مراکش میں تھی۔ بنو عقیل کی ریاست کا مرکز موصل تھا۔ قرامطیوں کا مرکز بحرین تھا۔

مگر اہل تشیع کو صیح معنوں ریاستی سرپرستی صفویوں کے دور میں ملی۔ صفوی بڑے کٹر شیعہ تھے۔ انھوں نے جب ایران میں حکومت مستحکم کی تو شیعہ ازم کو سرکاری گود لے لیا۔ انہی کے دور میں دو بڑی تبدیلیاں مسلم دنیا میں آئیں۔

ایک تو شیعہ سنی کے درمیان جو رواداری کی دیوار قائم تھی وہ زمین بوس ہوگی۔

دوسرا صفویوں نے فارسی طرز کے تعلیمی ادارے بنائے اور عرب کے امامیہ شیعہ ازم کو ایران کا کلمہ پڑھوا کر باقاعدہ ایرانی کر دیا۔

یہ صفوی ہی تھے جنھوں نے شیعت کی تبلیغ کے لیئے کثیر تعداد میں سادات کو ایران میں امپورٹ کرنا شروع کر دیا تھا۔ صفویوں کا طرز حکومت خالصتا مذہبی تھا۔

اہل تشیع میں دو بڑے مکتبہ فکر تھے اس وقت ایک الاخباریہ اور دوسرے اصولی۔

الاخباریہ کو آپ اہل تشیع کا اہلحدیث سمجھ لیں یہ صرف قران حدیث کو ہی مصدر دین سمجھتے تھے فقہ کو نہیں۔ اس کے مدمقابل اصولی شیعہ فقہ کو زیادہ ترجیح دیتے۔ صفوی چونکہ الاخباریون کے زیادہ قریب تھے اس لیئے جونہی سترویں صدی میں صفویوں کو زوال آیا تو اصولی مکتبہ فکرنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے۔

اہل تشیع میں کئی مکاتب فکر ہیں۔ بنیادی عقیدہ امامت کا ہی ہے مگر انہی اماموں کے اختلاف پر نصیری، اسماعیلی یا زیدی فرقے وجود میں آئے ہیں۔

اہل تشیع بارہویں خفیہ امام کے انتظار کے عقیدے کی وجہ سے خاصے سیکولر تھے مگر بیسویں صدی کے شروع میں شیعہ اسلام ازم یا تشیع اخوانی کا سیلاب اس وقت آیا جب 1911 میں ایران میں آئینی انقلاب آیا۔ تشیعہ اخوانی کا تصور بھی خلافت سے ملتا جلتا ہے یہ بھی فلسفہ امہ کے داعی تھے اور اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے جو فقیہ شخصیات چلائیں گی اور اسلامی حکومت کا اصول ولایۃ الفقہ ہوگا۔ اہل تشیع میں اسلام کی سیاسی تعبیر کی ابتدا بھی انہوں نے کی۔ اسے ایران کی جماعت اسلامی سمجھ لیں مگر اس جماعت اسلامی کو مودودی جاکر ساٹھ ستر کی دھائی میں امام خمینی کی صورت میں ملا۔ مگر انقلاب ایران کی فضا خمینی سے پہلے استاد مطہری اور ڈاکٹر علی شریعتی جیسے لوگ تیار کر چکے تھے۔ ڈاکٹر علی شریعتی خمینی سے بڑے لیول کے دانشور اور قائد تھے۔

مختار مسعود نے اپنی کتاب لوح ایام میں ڈاکٹر علی شریعتی ہر ایک مضمون لکھا ہے۔ جس کمال سے مختار مسعود نے شریعتی کا خاکہ پیش کیا ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ڈاکٹر علی شریعتی کس درجے کا مفکر تھا اس کے لیئے صرف ایک ہلکا سا عکس پیش کر رہا ہوں۔

ختم نبوت کا مفہوم شاید ہی علی شریعتی کے علاؤہ کوئی اور اس انداز میں بیان کر سکا ہو۔ شریعتی کہتا ہے "ختم نبوت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اِنسانیت اس قابل نہیں رہی کہ خدا ان سے رابطہ برقرار نہ رکھے بلکہ ختم نبوت خدا کی طرف سے انسانیت کی تہذیبی بلوغت کا اعتراف ہے کہ اب انسان اتنا مہذب اور بالغ ہوگیا ہے اسے آسمانی راہنمائی کی ضرورت نہیں رہی"۔

ڈاکٹر علی شریعتی جیسے لوگوں کی فکر کو امام خمینی نے ہائی جیک کرکے اسے ایک متشدد رخ کی طرف موڑ دیا۔ امام خمینی فلسفہ امہ پر یقین رکھتے تھے۔ سیاسی اسلام زیادہ زور سے سنی اسلام سے ابھر رہا تھا۔ امام خمینی نے بھی سنی عالموں سے کافی اثرات قبول بھی کیئے۔ راشد رضا جو سلفیت کے بانیوں میں شمار ہوتے تھے انھوں نے خلافت پر مضامین کی ایک سیریز لکھی۔ بعدازاں امام خمینی کا اسلامی حکومت کا منشور راشد ردا کے ان مضامین سے متاثر تھا۔

اس کے علاؤہ امام خمینی نے مولانا مودودی اور خاص طور پر سید قطب کی کتاب جادہ منزل سے کافی متاثر تھے۔ علی خامنہ آئی جو بعدازاں ایران کے سپریم لیڈر بنے انھوں نے سید قطب اور مولانا مودودی کی کئی کتب کا ترجمہ فارسی میں کیا۔

ایران انقلاب نے مسلم دنیا میں کافی اتھل پتھل پیدا کردی تھی۔ اس نے عرب دنیا میں آمریت تلے رہنے والی عوام کو بغاوت کی امید بھی دے دی۔ دوسرا آل سعود پہلے مقدس مقامات کی وجہ سے مسلم دنیا کا اکیلا چودھری بنا تھا مگر ایران کی اسلامی حکومت نے اس کی چودھراہٹ کو للکارنا شروع کر دیا تھا۔ امام خمینی نے اپنا انقلاب باقی مسلم دنیا میں بھی امپورٹ کرنا شروع کر دیا تھا۔ جس نے مسلم دنیا میں سعودی کے اثرات کو چیلنج کیا۔

امام خمینی فلسطینی مسلئے کے حق میں آواز اٹھا کر مسلم دنیا کی ڈارلنگ بن رہے تھے۔ یاسر عرفات سے ان کے بڑے قریبی تعلقات تھے۔ لبنان میں مقیم فلسطینی پناہ گزینوں کو حزب اللہ کی شکل میں ایک عسکری ونگ بنانے کے پیچھے بھی ایران ہی تھا۔ ولی نصر نے اپنی کتاب The shia revival میں اس پر خوب روشنی ڈالی ہے۔

ادھر پاکستان میں بھی تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے بھی پر پرزے نکالنا شروع کر دیے تھے۔ جب ضیا الحق نے نظام مصطفی لاکر زکوۃ کی سرکاری کٹوتی شروع کی تو تحریک جعفریہ نے علامہ عارف حسین الحسینی کی قیادت میں اہل تشیع کا بڑا تگڑا مظاہرہ ہوا یہ اتنا پراثر مظاہرہ تھا کہ ضیا نے اہل تشیع کو سرکاری زکوٰۃ کٹوتی سے مثشنی قرار دیا۔ مگر جنرل ضیاء کو یہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کھٹکنے لگی کیونکہ اسے بھی امام خمینی کا آشیر باد حاصل تھا۔ بعدازاں جب ضیا کو پتہ چلا کہ امام صاحب انقلاب ایران پاکستان میں بھی ایکسپورٹ کرنا چاہ رہے ہیں۔ تو جنرل ضیاء نے ان کا مکو ٹھپنے کے لئے سپاہ صحابہ کو کھڑا کیا جس میں سعودیہ کا ہاتھ بھی تھا۔ جھنگ کا حق نواز جھنگوی کافر کافر کے نعرے لگانے لگا۔ بعدازاں علامہ عارف کو پشاور میں قتل کر دیا گیا اور الزام لگا سپاہ صحابہ پر۔ جواب میں اہل تشیع نے بھی سپاہ محمد کے نام سے ایک مسلح گروہ کھڑا کرکے سپاہ صحابہ کے لوگوں کا مارنا شروع کر دیا۔ انقلاب ایران کی برکت سے پاکستان میں قتل و غارتگری کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو آج تک نہیں تھما۔

پاسداران انقلاب کے جنرل قاسم سلیمانی نے شام یمن میں بے شمار انقلابی کانٹھ کرکے سعودیہ کی نیندیں اڑائیں۔ یہاں تک افغان جہاد میں بھی ایران کا کردار تھا۔ کریم الخلیلی نے ایران کی ایما پر ہزارہ قبائل کو جوڑ کے حزب وحدت کے نام سے تنظیم بنائی اور روس کے خلاف جہاد میں حصہ لیا۔ تہران ایٹ بھی ایران کا افغانستان میں پراجیکٹ تھا۔

اس کے باوجود بھی یہ بات ماننی پڑے گئی کہ شیعہ اسلام میں مزاحمت کا عنصر سنی اسلام سے زیادہ ہے۔ جہاں سنی علماء ہر سلطان، خلیفہ کے ٹٹو بن گئے تاریخ میں اہل تشیع نے زیادہ تر مزاحمت کا راستہ اختیار کرکے معتوب ہی ہوئے۔

Check Also

Zikr Phir Ganda Wish Ka

By Abdullah Tariq Sohail