Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zeeshan Noor Khilji/
  4. Muqaddas Auraq Ka Adab

Muqaddas Auraq Ka Adab

مقدس اوراق کا ادب

ان کا نام سہیل عطاری تھا۔ کوئی ڈیڑھ برس قبل ان سے ملاقات ہوئی۔ ہوا کچھ یوں کہ گلی کی نکڑ پہ جہاں کبھی لال رنگ کا لیٹر بکس ٹنگا ہوتا تھا، اس کی جگہ ایک سیاہ کنستر نے لے لی۔ کبھی کبھار میرا ادھر سے گزر ہوتا تو سوچتا کہ آخر اس کا کیا مقصد ہو سکتا ہے۔

پھر ایک دن صبح واک کرنے کے لئے وہاں سے گزر رہا تھا کہ پرنور سا چہرہ لئے ایک باریش نوجوان وہاں آیا جس کے کندھوں پر ایک بڑا سا بوری ٹائپ تھیلا بندھا ہوا تھا بالکل جیسے پیزا ڈیلیوری والوں نے پہنا ہوتا ہے۔ وہ اس کالے ٹین کے پاس آیا اور اس میں سے مختلف قسم کے پرانے کاغذات نکال کر تھیلے میں بھرنے لگا۔ میں متجسس سا اس کی جانب بڑھا کہ دیکھوں تو کیا چل رہا ہے۔ علیک سلیک ہوئی تو بتانے لگے یہ قرآن پاک کے بوسیدہ اوراق ہیں جو کہ لوگ اس ڈبے میں رکھ جاتے ہیں اور تھوڑے عرصے بعد جب یہ ڈبہ بھر جاتا ہے تو میں ان کاغذات کو اکٹھا کر کے قرآن محل میں لے جاتا ہوں۔

اب یہ قرآن محل کی اصطلاح میرے لئے بالکل نئی تھی۔ وہ بتانے لگے کہ مضافات میں ہم لوگوں نے باہمی تعاون سے کچھ جگہ خرید کر وہاں ایک عمارت تعمیر کر رکھی ہے اور یہی قرآن محل ہے اس میں ایک کنواں کھودا ہوا ہے جس میں قرآن پاک اور اسی نوع کے دوسرے مقدس بوسیدہ اوراق کو دفنا دیا جاتا ہے۔ مزید بتانے لگے کہ ہمارے قرآن محل میں اب اس طرح کا تیسرا کنواں کھودا جا چکا ہے جب کہ باقی دو کنویں بھر کر اوپر سے بند بھی کیے جا چکے ہیں۔ وہ انکشافات کیے جا رہے تھے اور میں حیران ہوا جا رہا تھا۔

بتانے لگے میں ایک نجی اسکول میں بطور ہیڈ کلرک فرائض انجام دیتا ہوں جب کہ یہ کام رضا کارانہ طور پر کر رہا ہوں۔ اس میں میرا کوئی مفاد نہیں۔ نہ ہی میں کسی مذہبی جماعت کا حصہ ہوں اور نہ ہی ہم کوئی فنڈ ریزنگ کرتے ہیں۔ بس اپنی مدد آپ کے تحت یہ کام مل جل کر سر انجام دے رہے ہیں۔ اور قرآن محل کے لئے جتنے لوگ بھی شہر بھر سے بوسیدہ اوراق کو اکٹھا کرتے ہیں وہ سب بھی بس ادب اور محبت کا جذبہ ہی لئے ہوئے ہیں۔

میں حیران ہوا کہنے لگا کہ ہم لوگوں نے تو کبھی اس طرف توجہ ہی نہیں دی۔ ہم نے تو کبھی سوچا ہی نہیں کہ ایک قرآن پاک کے صفحات جب اپنی مدت پوری کر چکنے کے بعد بوسیدہ ہو جاتے ہیں تو پھر ان کا کیا کیا جانا چاہئیے۔

میں سوالیہ انداز سے ان کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ کہنے لگے کہ صرف قرآن پاک ہی نہیں یہاں تو بہت سی کتابوں میں بھی مقدس نام اور قرآنی آیات درج ہوتی ہیں۔ لوگ تو اس کو بھی ایویں پھینک دیتے ہیں یا پھر ردی کے بھاؤ فروخت کر دیتے ہیں جہاں اس کاغذ کی ری سائیکلنگ کی جاتی ہے۔ لیکن چونکہ ہم اہل محبت ہیں اس لئے ہمیں یہ گوارا نہیں کہ جب ایک کاغذ کا عام سا ٹکڑا قرآن پاک کی وجہ سے معتبر ہو گیا تو پھر اسے دوسرے صفحات کے ساتھ ری سائیکل کیا جائے۔ اس حوالے سے مزید بتانے لگے کہ اس کا بہتر حل تو یہی ہے کہ اسے بہتے پانی کی نذر کر دیا جائے یعنی دریا میں بہا دیا جائے یا پھر قریبی قبرستان میں دفنا دیا جائے۔ لیکن دریا میں بہانے کا یہ نقصان سامنے آیا ہے کہ کہیں دور جا کر وہی اوراق پھر سے کنارے آ لگتے ہیں جس سے بے ادبی کا احتمال ہوتا ہے۔ جب کہ قبرستان میں دفنانے سے متعلق ان کا کہنا تھا آج کے دور میں لوگ اپنے پیاروں کی قبروں پر نہیں جاتے تو قرآن پاک کو دفنانے کون جائے گا۔ اس لئے ہم نے یہ ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے لی ہے اور اس حوالے سے ہم اس حد تک کامیاب ہوئے ہیں کہ اسی طرز کے قرآن محل اب پورے پاکستان میں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

وہ بتانے لگے کہ ارباب اختیار اور حکومت کو بھی اس حوالے سے مطلع کیا تھا اور انہوں نے تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی تھی لیکن وہی ہوا جو اکثر حکومتی کاموں میں ہوتا ہے، یعنی زبانی دعووں کے سوا کچھ نہ ہو سکا۔

میں سوچنے لگا حکومت سے ایسے کاموں کی امید بھی نہیں رکھنی چاہئیے لیکن کیا ہم خود سہیل عطاری نہیں بن سکتے؟ کیا ہم خود مقدس اوراق کے ادب کا اہتمام نہیں کر سکتے؟ اگر ہم خود قرآن پاک کو دفنانے کا انتظام نہیں کر سکتے تو کیا ہم اپنی خدمات بھی رضاکارانہ طور پر قرآن محل جیسی انجمنوں کو نہیں دے سکتے؟ کیا ہم مہینے میں ایک گھنٹے کا وقت نکال کر اپنے عزیز و اقارب کے گھروں سے مقدس اوراق اکٹھے کر کے انہیں قریبی قرآن محل میں نہیں پہنچا سکتے؟ اگر یہ بھی زیادہ ہے تو پھر ہم اپنی گلی کے باہر ٹنگے اس سیاہ ٹین کا استعمال تو کر ہی سکتے ہیں اب اس کو استعمال کرنے کے لئے تو ہمیں کسی حکومتی تعاون کی ضرورت نہیں ہے۔ سہیل عطاری اور ان جیسے دوسرے لوگ رضاکارانہ طور پر بارش کا پہلا قطرہ بن کر برس بھی چکے ہیں، اب کہ باری ہماری ہے۔

سوچ رہا ہوں واقعی ہمیں اپنے مقدسات کا اتنا ادب تو کرنا ہی چاہئیے کہ ادب ہی میں بندگی ہے۔

Check Also

Faizabad Ka Stop

By Naveed Khalid Tarar