Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaigham Qadeer/
  4. Mere Dhol Sipahiya

Mere Dhol Sipahiya

میرے ڈھول سپاہیا

ضیغم کو اب رونا نہیں آتا، شائد ضیغم بڑا ہو گیا ہے، نہیں، بڑا تو ضیغم اب آ کر ہوا ہے مگر اس کو رونا تو کافی عرصہ سے نہیں آتا وہ اب راشد منہاس کی فلم کو جب لگا ہوا دیکھتا ہے تو کہیں جلدی میں چینل بدل لیتا ہے وہ میجر عزیز بھٹی سے نظریں نہیں ملاتا اسے شبیر شہید کو سامنے دیکھتے ہی عجیب سے احساسات آنے لگ جاتے ہیں۔

ایک دور وہ تھا جب راشد منہاس کو اس کا فلائنگ افسر جب رینچ کیساتھ مارتا تھا تو رینچ کا وہ وار جو مدہوش راشد کے لگتا تھا وہ ضیغم کے دل کو چیرتا تھا، عزیز بھٹی کو لگنے والا گولہ ہر بار اس کے سینے پہ وار کرتا تھا تو وہیں ہر سپاہی کا غم اس کو رلا دیتا تھا۔ سب اس کو کہتے تھے جھلیا ایہہ سب ڈرامہ اے حالانکہ ان سب کی اپنی آنکھیں بھی تو نم ہوتی تھی۔

پھر وقت بدلا، ضیغم بڑا ہوا، اس دوران تاریخ کا بہت کچھ پڑھا، لیکن یک رخی تاریخ کا آپ جو کچھ پڑھتے ہیں وہ ہمیشہ سینہ ہی چوڑا کرتی ہے۔ اسکا سینہ چوڑا ہوتا گیا، اس کو ہر سال چودہ اگست اور چھ ستمبر کا عید سے زیادہ انتظار ہوا کرتا تھا کہ اس دن پریڈ لگے گی۔ وہ غوری، وہ ابدالی، وہ شاہین، وہ سب نظر آئیں گے۔ پیرا ٹروپر آئیں گے، مارشل آرٹس آئے گی، ایس ایس جی کے کمانڈو آئیں گے۔

مگر اب وہ نہیں دیکھ رہا۔

وقت نے مزید ترقی کی، سوشل میڈیا آ گیا تو زبانیں کھل گئی پہلی بار میں نے بلیک ویگو کی کوئی تصویر دیکھی اور لوگ اس پر غصہ کر رہے تھے۔ مجھے نہیں علم تھا، پھر ایک تصویر دیکھی جس میں سیاسی کردار پر بات ہوئی تھی مجھے پھر سمجھ نا آئی، آتی بھی تو کیسے؟ میں تو ایوب خان کے دور کو جب بھی مطالعہ پاکستان میں پڑھ چکا تھا ہر بار فخر سے پڑھتا تھا کہ سیاستدانوں نے جہاں ملک بیچا وہیں ایوب خان اور ضیا کے بہترین پانچ سالہ ادوار کی پالیسیوں نے ملک کو مضبوط بنایا۔ ملک ایشین ٹائیگر بنا تو ان کی ترقی پسندانہ سوچ سے ورنہ سیاستدانوں نے ادارے بیچے، ملک بیچا اور پتا نہیں کیا کیا بیچا؟

میں تب الجھ پڑتا تھا۔

کوئی میرے راشد منہاس کی فوج کو برا کہے میں الجھتا تھا، میں لڑتا تھا کہ وہ عزیز بھٹی جس نے سینے پہ گولا کھایا اس کی روح یہ سن کر چھلنی نا ہو کہ لوگ یہ جو، ہے اس کے پیچھے وردی ہے کے نعرے لگائیں۔ میں گالیاں بھی دیتا تھا ان کو جو ویگو کی تصویر لگا کر بہانے سے بدتمیزی کرتے تھے۔

مگر تب میں چھوٹا تھا۔

میں بہت تیزی سے بڑا ہو گیا۔ اس ایک سال کی لڑائی میں میں نے ہر ممکن لحاظ سے دفاع کیا اپنی نظریاتی سرحدوں کا دفاع، مگر مجھے معلوم نہیں تھا جب میں سوتا ہوں تو یہ فقط میرا دفاع نہیں کر رہے بلکہ، بلکہ، بلکہ کچھ نہیں، مجھے پھر خود ویگو سے ڈر لگنے لگ پڑا، میں سیاسی کردار کو جب سمجھا تو اس سوچ کو لفظوں میں ڈھالتے ہاتھ کانپتے کہ مبادا وہ ضیغم جو کبھی ان کے لئے روتا تھا اب انکی وجہ سے نا رونے لگ جائے۔ مجھے جب سوفٹ وئیر اپڈیٹ کا پتا چلا تو ہنستا تھا مگر جب سوچ بدلی تو اب رونا آتا ہے۔ ہم کتنے آرام سے اپنے گرد ہونے والے جبر کو سوفٹ وئیر اپڈیٹ بول کر پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں۔

آج صبح جب اٹھا تو تاریخ دیکھی تو آج چھ ستمبر تھا۔ میرے ذہن میں میرے ڈھول سپاہیا چل پڑا، میری نظروں کے سامنے راشد منہاس آ گیا، عزیز بھٹی کی روح آئی، وہ آنسو آئے جو ان گنت مرتبہ ان شہیدوں کو شہید ہوتے دیکھ کر، انکی کہانی سنتے ہوئے، ان کی جان کی امان کی دعاؤں کیساتھ نکلے تھے مگر آج میری آنکھوں میں آنسو نہیں تھے۔ نا ہی آج کسی روتے ضیغم کو یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ جھلیا سب ڈرامہ ایہہ، مت رو۔ کیونکہ یہ جنریشن ہم سے بھی تیز ہے یہ آنسو بہانے سے پہلے ہی اس کی سائنس سمجھ جاتی ہے۔ یہ سمجھے سمجھائے ہیں۔

اب تو مجھے بولتے ڈر لگتا ہے یہ تحریر لکھتے ڈر لگ رہا ہے، یہ تحریر لگاتے ڈر لگے گا کہ مبادا وہ آنکھیں جو ان کے لئے آنسو بہاتی رہی ہیں وہ ان کی وجہ سے آنسو مت بہائیں۔ اگر بہہ بھی گئے تو پھر بھی میں گنگناؤں گا میں اپنے راشد منہاس کے لئے گنگناؤں گا، عزیز بھٹی اور شبیر شہید کے لئے گنگناؤں گا، میں اپنے ہر شہید کے لئے گنگناؤں گا اور اپنے ہر سپاہی کے لئے گنگناؤں گا جو اس وطن کی سرحدوں کیساتھ مخلص ہے جو غیر سیاسی ہو کر ادارے کیساتھ مخلص ہے میں اس کے لئے گنگناؤں گا۔

میرے ڈھول سپاہیا

تینوں ربّ دیاں راکھاں۔

Check Also

Karakti Bijliyan

By Zafar Iqbal Wattoo