Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaigham Qadeer/
  4. Irteqa Ka Aghaz

Irteqa Ka Aghaz

ارتقاء کا آغاز

ارتقائی تھیوری میں اینڈوسمبائیوسس کو ریڑھ کی ہڈی کا کردار حاصل ہے اور آج زمین پر موجود ہر طرح کی سیلولر زندگی کو ہم تین ڈومینز میں تقسیم کر سکتے ہیں: بیکٹیریا، آرکیا اور یوکرائٹس۔ ان میں بیکٹیریا اور آرکیا، یک خلوی جبکہ یوکاریوٹکس کثیر خلوی جاندار ہیں۔ اس خلوی ساخت کو بنیاد بنا کر ارتقائی سائنس دانوں کا یہ خیال ہے کہ ان میں سے سب سے قدیم جاندار آرکیا ہیں۔ ان تینوں ڈومینز میں خلوی ساخت کا فرق ہے۔

آرکیا اور بیکٹیریا خلوی ساخت کے اعتبار سے پروکیریوٹس ہیں۔ لیکن آرکیا کی بہت سی خصوصیات یوکیریا سے ملتی ہیں۔ (اس بات کو اگلے حصوں میں ڈسکس کیا گیا ہے) بیکٹیریا اور آرکیا کے خلیے چھوٹے اور نسبتاََ بہت سادہ ہوتے ہیں، لیکن یوکرائیوٹس کے خلیے عموماََ بڑے اور پیچیدہ ہوتے ہیں، جس میں ایک نیوکلئس ہوتا ہے جس میں ڈی این اے شامل ہوتا ہے، اور خلیوں کے دیگر ذیلی حصوں کو ارگنیلز کہا جاتا ہے۔ اسکے مقابلے میں اول الذکر دونوں میں ارگینیلیز نہیں موجود ہوتیں۔

پروکیریوٹس سے یوکیریوٹس کا ارتقائی تصور۔

پروکیریوٹس سے یوکیریوٹس کے ارتقاء اور یوکیریوٹس کے اندر عضویوں کے بننے سے متعلق دو ارتقائی مفروضے پائے جاتے ہیں۔

1۔ خلوی جھلی کا اندر دھنس کر عضویے بنانا

Membrane invagination Hypothesis

2۔ اینڈو سمبائیونٹ مفروضہ

Endosymbiont Hypothesis

اس میں پہلا مفروضہ اب مسترد کر دیا گیا ہے اور ارتقائی سائینس دان اب صرف دوسرے مفروضے کو مانتے ہیں۔ اینڈو سمبائیونٹ مفروضے کے مطابق ایک پروکیریوٹ نے کسی دوسرے پروکیریوٹ کو سالم نگل لیا لیکن نگلنے کے بعد دونوں بیکٹیریا میں دوستانہ تعلق بن گیا اور جس بیکٹیریا کو نگلا کیا وہ بیکٹیریا مائیٹوکانڈریا میں تبدیل ہو گیا۔ اسی طرح ایک دفعہ پھر اس بیکٹیریا نے کوئی فوٹو سنتھیٹک پروکیریوٹ کو نگل لیا اور دوستی کے بعد وہ پروکیریوٹ کلوروپلاسٹ میں تبدیل ہو گیا۔ اسی طرح دوسرے عضویے بھی وجود میں آئے۔

اور اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ اینڈوسمبائیوسس نامی ایک عمل کے ذریعہ، کم پیچیدہ خلیوں کے انضمام سے ارتقاء کے دوران یوکاریوٹک خلیے پیدا ہوئے تھے۔ حالیہ تحقیق نے اس اہم مظہر کے بارے میں بہت خاص تحقیق کی ہے جو ہمارے سیارے پر زندگی کے تمام پیچیدہ شکلوں کے ظہور کا ذمہ دار تھا۔ اس تحقیق سے ہمیں اینڈو سمبائیوسس کے حق میں کافی دلائیل ملتے ہیں جن کو ہم نیچے ڈسکس کریں گے لیکن اس سے پہلے آپ کا کچھ پس منظر کو جاننا بنتا ہے۔

بیکٹیریا اور آرکیا کو اجتماعی طور پر، پراکریٹوس (یونانی سے: پرو = پہلے، کیریون = نیوکلئس) کے نام سے جانا جاتا ہے، کیونکہ ان کے جینیاتی مادے کسی نیوکلئیر جھلی سے بند نہیں ہوتے ہیں۔ (سیل یا خلیئے کے مرکزے کو ہم نیوکلیس کہتے ہیں اور اسکی جھلی کو نیوکلئیر جھلی) اس کے علاوہ، پروکیریٹک خلیات عام طور پر سادہ، ہوتے ہیں۔ یہ یک خلوی جاندار عام طور پر 0۔ 5 سے 5 مائکرون قطر کے درمیان ہوتے ہیں۔

دوسری طرف Eukaryotic خلیات (یونانی سے: eu = true، karyon = nucleus) ایک مکسچر کی طرح ہوتے ہیں، یہ بہت زیادہ تعداد میں ہو سکتے ہیں (عام طور پر 10 اور 500 مائکروسن کے درمیان)، اور ان میں متعدد حصوں کا تنوع ہوتا ہے، اسکے مختلف حصوں میں سے ایک نیوکلئس (مرکزہ) ہوتا ہے جو کہ اپنے اندر جینومک ڈی این اے کو رکھتا ہے۔

اس کے علاوہ دوسرے حصوں میں، مثال کے طور پر، مائٹوکونڈریا (خلیے کا "پاور ہاؤس" جہاں انرجی کی پیداوار ہوتی ہے)، اور ایک اینڈومیمبرن سسٹم شامل ہیں یہ سب ایک یوکاریوٹک خلئے میں ہوتے ہیں۔ ارتقائی حیاتیات کے ماہرین میں، یہ سوال کہ یہ یوکریاٹک خلیات اور ان کی پیچیدہ خصوصیات کا ارتقاء کس طرح کئی دہائیوں سے گرما گرم بحث کا موضوع رہا ہے۔

کیا اینڈوسمبائیوسس ہی ہوا؟

یہ بات ہم کافی عرصے سے جانتے ہیں کہ یوکریاٹک خلئے مختلف حصوں میں بٹے ہوتے ہیں۔ کونسٹنٹین میرشکووسکی (1855 سے 1921) نے پودوں کے کلوروپلاسٹ (وہ خلئےجن میں فوٹوسینتھیسس ہوتا ہے) اور یونیسیلولر سیانو بیکٹیریا، جو فوٹوسینتھیٹک بیکٹیریا کا ایک گروپ ہے ان دونوں کے درمیان کچھ ساختی مماثلتوں کو مشاہدے میں پایا۔

1910 میں، اس نے تجویز پیش کی کہ اینڈوسیموبیوسس کے نتیجے میں پودوں کے کلوروپلاسٹ ان میں سے مؤخر الذکر سے بنے۔ اس سے مراد وہ عمل ہوتا ہے جس کے ذریعے ایک خلیہ ایک دوسرے خلیئے کے اندر داخل ہو جانے کے بعد رہنا شروع کر دیتا ہے اور اپنے میزبان کے ساتھ طویل مدتی تعلق قائم کرتا ہے۔ کونٹسٹین کی اس تجویز کو وقت کے اوراق میں نیچے دبا دیا گیا لیکن 1960 کی دہائی میں دوبارہ سے، یہ خیال کہ اینڈو سیمبیوسس نے یوکرائٹک ارتقا میں ایک اہم کردار ادا کیا ہو گا منطر نامے پہ آنا شروع ہو گیا۔ اس بار اسے لن مارگولس نے آگے پیش کیا۔

اس نے تجویز پیش کی کہ کلوروپلاسٹوں کے علاوہ، مائیٹوکونڈریا بھی انہی کی طرح آزاد جاندار بیکٹیریا میں پھنسنے سے تیار ہوئی۔ سائنسی کمیونٹی نے ابتداء میں مارگولس کے خیالات کو مسترد کر دیا۔ لیکن جب یہ دریافت ہوا کہ مائٹوکونڈریا اور کلوروپلاسٹوں میں اپنا جینیاتی مواد موجود ہے جو بیکٹیریا سے ملتا جلتا ہے تو، اینڈوسیبیوسس تھیوری نے ایک نئی رفتار حاصل کر لی اس بار اسکے پاس اپنے حق میں مزید دلائل موجود تھے۔

خاص طور پر، مائٹوکونڈریا کا بیکٹیریا کے گروپ سے التفات پایا جاتا ہے جسے الفا پروٹو بیکٹیریا کہا جاتا ہے۔ یہ بیکٹیریا عام طور پر آزاد زندہ رہتے ہیں، لیکن کچھ یوکریاٹک حیاتیات کے ساتھ سمبائیوسس کے عمل میں مشغول ہو سکتے ہیں۔ (ایک ساتھ مل کر رہنے کو سمبائیوسس کہتے ہیں) خوردبینی دنیا میں سمبیوٹک رشتہ داری ایک عام رواج ہے، لیکن الفا پروٹو بیکٹیریا خاص طور پر اس میں ماہر ہیں۔ اس کی روشنی میں، یہ شاید زیادہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ مائٹوکونڈریا میں الفا پروٹو باکٹیریل کی وراثت موجود ہے اور انکے جد یہی الفا پروٹو بیکٹریا ہی تھے۔

ایک بیکٹریا کا یوں نگل جانا ایک مفروضہ ہی تو ہے؟

اگرچہ1980 کی دہائی سے ہم یہ جان چکے تھے کہ مائٹوکونڈریا کے آباؤ اجداد کا الفا پروٹو بیکٹیریا سے ہے، لیکن اس خلیئے کی نوعیت جس نے انہیں (میزبان سیل) کو گھیرے میں لیا تھا وہ اب بھی راز ہی ہے۔ کارل ووئس اور ساتھی سائنسدانوں نے سن 1970 کی دہائی میں آرکیا کا پتہ لگایا تھا، تب سے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ میزبان سیل کسی نہ کسی طرح ان جانداروں سے وابستہ تھے۔ لیکن کس حد تک؟ یہ واضح نہیں تھا۔

اس ڈاٹا کے مطابق جو سن 2000 کی دہائی تک موجود تھا، آرکیا اور یوکرائیوٹس ایک دوسرے کے رشتہ داروں کی شکل میں ہمارے سامنے موجود تھے لیکن ان کے باہم شجرہ نسب مختلف ہو گئے تھے۔ یہ ڈاٹا ہمیں یہ بتاتا ہے کہ بہت سی سیلولر خصوصیات جو مائٹو کوانڈریل اینڈوسیمبیوسس سے پہلے ہی یوکرائٹس میں آ چکی تھیں۔ میزبان سیل، ان منظر ناموں میں، اس طرح ایک پیچیدہ، پروٹو یوکرائٹ تھا جس نے فائیگوسیٹوسس (نگل جانے کے عمل) کا استعمال کرتے ہوئے مائٹوکونڈریل اینڈو سیمبینٹ کو اپنی اندر نگل لیا تھا۔

ایسے میں پھر ہمارے اجداد کا کیا بنے گا؟

اس کے برعکس، مزید ملنے والے جدید ڈاٹا نے الفا پروٹو بیکٹیریم کے ساتھ ایک عام، آرکیا کے منسلک ہونے کے شواہد فراہم کئے۔ در حقیقت، اس ڈاٹا نے یہ تجویز پیش کی کہ مائیٹوکونڈریئل اینڈوسیموبیوسیس، یوکریاٹک خلیوں کی ابتدائی زندگی میں ہونا پہلا واقعہ ہے، جس میں مائٹوکونڈریا کے ذریعہ فراہم کردہ اضافی توانائی نے ان خلیوں میں بہت سی پیچیدہ خصوصیات کی توسیع کی اجازت دی جن میں یوکرائٹس باہر سے کوئی بھی خوراک یا پارٹیکل فیگوسائٹوسس کے عمل سے اندر لیتے ہیں، کے جیسی خصوصیات بھی تھیں۔

اس ڈاٹا پہ بنے ماڈلز نے پیش کیا کہ آرکیئیل پارٹنر اور مائٹوکونڈریل اجداد سنٹرافک تعلق جو کہ متناسب غذائی اجزاء کے تبادلے پر مبنی ہے میں رہنا شروع ہو گئے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ، سنٹرافک تعلق ہمیشہ کے تعلق میں تبدیل ہو گیا، جس کا نتیجہ میزبان سیل کے ذریعہ مائٹوکنڈریل جد کو خود میں ہضم کر جانے کی صورت میں سامنے آیا۔ پھر بھی، یوکرائیوٹس کی ابتدا کے لئے ان نام نہاد سمبائیوٹک ماڈلز نے متعدد سوالات پیدا کیے۔

پہلا یہ کہ، انھوں نے یہ اشارہ دیا تھا کہ یوکیریوٹس نفع بخش آرکیا سے تعلق بنانے کے بعد وجود میں آئے جو کہ ٹری آف لائف سے میچ نہیں کھاتا۔

دوسرا یہ کہ، اگر فیگوسائٹوسس کا عمل بعد میں ارتقائی پذیر ہوا تو اینڈو سیمبائیونٹ مائیٹوکانڈیا کس طرح آرکیئل ہوسٹ سیل کے اندر داخل ہوا؟

آخر میں، ایک تیسرا مسئلہ خلیوں کی جھلیوں کا ہے۔ یوکرائیوٹک جھلی آرکیا کی جھلی سے یکسر مختلف ہے، درحقیقت یہ بیکٹیریائی جھلیوں سے زیادہ ملتے جلتے ہیں۔ مزید برآں آرکیال سیل کی جھلیاں isoprene پر مبنی لپڈ سے بنی ہوتی ہیں، لیکن یوکرائیوٹک جھلی بیکٹیریا کی طرح ہی ہوتی ہیں، جو فیٹی ایسڈ چینز کے ساتھ لپڈز سے بنتی ہیں۔ لہٰذا، اگر یوکرائیوٹس آرکیا سے وجود میں آئے تو، ان کی جھلیوں میں بیکٹیریائی قسم کے لپڈز کیسے ہو سکتے ہیں؟

پانسہ پلٹ گیا۔

ایک طویل عرصے سے، یوکرائیوٹس کے اصل اجداد کے بارے میں قیاس آرائیاں زیادہ تر سائٹولوجیکل (ظاہری) مشاہدات پر مبنی تھیں، اسکے بعد، 1980 سے 90 کے دہائیوں میں یہ، محدود مالیکیولر مشاہدات کے ڈاٹا پہ مبنی تھیں۔ لیکن یہ سب جینومک دور میں تبدیل ہونا شروع ہوا، جب نئی ترقی یافتہ جینوم سیکوینسنگ ٹیکنالوجیز نے یوکرائیوٹک تعلق سے متعلق تحقیقات کے لئے وسیع جینیاتی مطالعے کو ممکن بنایا۔ حیرت انگیز طور پر، اس طرح کے مطالعے نے پانسہ ہی پلٹ کر رکھ دیا۔

زندگی کے شجرے کی تشکیل نو کی کوششوں نے ایک ایسی تصویر سامنے لانا شروع کر دی جس میں یوکرائیوٹس آرکیئیل ڈومین سے وجود میں آئے۔ خاص طور پر، یوکرائیوٹس کو، TACK، آرکیا نامی گروہ کے ساتھ مل کر رہتے ہوئے پایا گیا، جو متنوع سپی شیز کا ایک گروپ ہے، جس میں وہ بہت سارے جین رکھتے ہیں جنھیں اب وہ یوکرائٹس کے ساتھ شئیر کرتے ہیں۔

یہ مشاہدات یوکرائیوٹس کی ابتداء کے لئے پیش کردہ کچھ سمبائیوٹک ماڈلز کی حمایت میں تھے، جنہوں نے TACK سے وابستہ آرکیئل ہوسٹ سیل اور الفا پروٹو بیکٹیرل کی انڈوسائیمبوسس میں مدد کی تھی۔ تاہم ابھی تک، TACK آرکیا کے درمیان، سائنسدانوں نے ایک ایسے مخصوص نسب کی نشاندہی نہیں کی جو کہ دوسروں کے مقابلے میں یوکرائٹس سے زیادہ قریبی تعلق رکھتا ہے۔

ہمارے خوردبینی اجداد کا کیا بنا؟

حال ہی میں، اس کہانی کو ایک غیر متوقع موڑ ملا ہے۔ سن 2015 میں، وسط بحر اوقیانوس کے کنارے کے گہری سمندری فرش کے تلچھٹ میں سے آرکیا کا ایک نیا گروہ دریافت ہوا، جس کو اب، لوکی، کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ گروہ ایک ہائیڈرو تھرمل وینٹ سسٹم کے قریب سے ملا ہے۔ ڈی این اے کے سامپلز کی بنیاد پہ ان کو ترتیب دیتے ہوئے، ہم نے ایک نئے آرکیئل گروپ کا جینومک ڈیٹا حاصل کیا، جس کا نام ہم نے "لوکی آرکیاٹا" یا مختصر طور پر، لوکی، رکھا۔

اتفاق سے، نہ صرف لوکی زندگی کے درخت میں یوکرائیوٹس کا سب سے قریبی رشتہ دار ظاہر ہوا، بلکہ اس کے جینوم میں بہت سارے جین موجود تھے جو صرف یوکرائٹس میں موجود تھے۔ ان جینز میں وہی تھے جو یوکریوٹک سیل کی حیاتیات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ جین جو کہ اسے ایک طرح سے، یوکرائٹ بناتے ہیں ان کے باوجود پھر بھی، لوکی ایک عام آرکیا لگتا ہے۔

درحقیقت، لوکی میں ان جینوں کا کردار اب بھی ایک معمہ ہے۔ ابھی حال ہی میں، ہم نے لوکی کے رشتہ دار دیگر آرکیا دریافت کئے اور ان کا نام دوسرے نورس دیوتاؤں (تھور، ہیمڈال اور اوڈین) کے نام پر رکھا۔ ان سب میں بڑی تعداد میں یوکریاٹک، جین موجود ہیں۔ ان دریافتوں سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ یوکرائیوٹس کے پاس ایک قدیم نسب ہے، اور یہ کہ ان اجداد نے شاید پیچیدہ بننے کے لئے پرائمڈ، تھے۔

مستقبل کے مطالعے جو ہمارے قریب ترین پروکریوٹک رشتہ داروں کی سیل بائیولوجی اور فزیولوجی کو واضح کرنے پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں اس سے اس کے بارے میں اہم سراغوں کا انکشاف ہو گا کہ اربوں سال پہلے، پیچیدہ یوکریاٹک خلیات بہت آسان آرکیا خلیوں سے تیار ہوئے اور ان میں سے بہت سے آرکیا اس ارتقائی دوڑ میں آگے نہ بڑھ سکے اور آج وہ لوکی آرکیاٹا کی شکل میں اس دنیا میں موجود ہیں۔

Check Also

Apna Ghar

By Javed Ayaz Khan