Hamari Kainat, Heran Kun Sitare Aur Satellite Ka Qabristan (2)
ہماری کائنات، حیران کن ستارے اور سیٹلائٹس کا قبرستان(2)
یہ ستارے چونکہ اتنی زیادہ مضبوط مقناطیسی فیلڈ رکھتے ہیں، سو وہ اپنی انرجی الیکٹرومیگنیٹک ریڈی ایشن کے طور پہ ریلیز کرتے ہیں۔ ایک میگنیٹار، جس کا نام ہے وہ ایک سیکنڈ کے دسویں حصے میں اتنی زیادہ انرجی چھوڑتا ہے کہ اتنی انرجی ہمارا سورج پچھلے ایک لاکھ سال میں چھوڑ پایا ہے۔ ایک میگنیٹار میں ذرا سا کھرچنا بھی اربوں گنا انرجی خارج کر سکتا ہے۔
کائنات اور اور اسکے ان ستاروں کی تحقیق کا بڑا حصہ خلاء موجود سیٹلائٹس کی مدد سے ہوتا ہے۔ مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سیٹلائٹس جب ناکارہ ہو جاتی ہیں تو کہاں پہ جاتی ہیں؟ سیٹلائٹس کا قبرستان، سیٹلائٹ خلاء میں جب ناکارہ ہو جاتی ہے تو کہاں جاتی ہے؟ مشین چاہے جیسی مرضی ہی کیوں نا ہو اور جتنی مرضی مہنگی ہی کیوں نا ہو ایک نا ایک دن وہ خراب ضرور ہو جاتی ہے۔
اور پھر اس کو کہیں نا کہیں پھینک دیا جاتا ہے۔ تو سیٹلائٹس جب نا کارہ ہو جاتی ہیں وہ کہاں جاتی ہیں؟ سیٹلائٹس بھی ایک عام مشین کی طرح ہوتی ہیں، جو کہ ایک نا ایک دن کام کرنا چھوڑ جاتی ہیں۔ ان سیٹلائٹس کا کام موسم دیکھنے سے لیکر زمین سے پرے موجود ستاروں کو کھوجنے تک ہو سکتا ہے۔ مگر ایک نا ایک دن یہ مشین بھی کام کرنا چھوڑ جاتی ہیں اور تب یہ محض کباڑ کے ایک ڈھیڑ کے سوا کچھ نہیں رہتی۔
تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کباڑ کو کہاں پھینکا جاتا ہے؟ اس کباڑ کو پھینکنے کے دو آپشن ہیں اور یہ آپشن انکے زمین سے فاصلے پہ منحصر ہیں، وہ سیٹلائٹس جو زمین کے مدار کے نزدیک ہوتی ہیں، ان کو انجینئرز زمین کے مدار کے نزدیک لاتے ہیں اور پھر اٹموسفیر کی رگڑ کی وجہ سے وہ سیٹلائٹس زمین پہ پہنچنے سے پہلے ہی تباہ ہو کر راکھ بن جاتی ہیں۔ رات کو اکثر تارہ ٹوٹتا دیکھ کر سمجھ جائیں کہ کوئی سیٹلائٹ کباڑ کے ڈھیڑ سے نکال کر جلا دی گئی ہے۔
دوسری آپشن یہ ہے کہ وہ سیٹلائٹ جو زمین سے دور ہے، اس کو خلا میں ہی دھماکے سے اڑا دیا جائے، کیونکہ اس دھماکے پہ کم فیول خرچ ہوتا ہے۔ ایسے میں ان سیٹلائٹس کا قبرستان کہاں گیا؟ عموماً جو سیٹلائٹس چھوٹی ہوتی ہیں، ان کو تو اٹموسفئیر کی رگڑ کے ساتھ ہی تباہ کر دیا جاتا ہے۔ لیکن بڑی سیٹلائٹس جو زمین کے مدار کے پاس ہیں، ان کو ایسے مکمل تباہ کرنا خاصا مشکل ہو سکتا ہے۔
ایسے میں ایسی جگہ کا ہونا ضروری ہے، جہاں پہ اگر یہ سیٹلائٹ گرے تو کم سے کم نقصان ہو۔ بحر اوقیانوس دنیا کی ویران ترین جگہوں میں سے ایک جگہ ہے۔ ایسے میں انجینئرز ان سیٹلائٹس کی سمت بحر اوقیانوس میں موجود سیٹلائٹس کے قبرستان کی طرف سیٹ کر دیتے ہیں اور پھر یہ وہاں گر جاتی ہے۔ چونکہ بحر اوقیانوس کے نزدیک انسانی آبادی نا ہونے برابر ہے تو ایسے میں یہاں پہ ہم انسانی آبادی کو خطرے میں پہنچائے۔
بغیر وہاں گرا دیتے ہیں۔ قبرستان کا مدار زمین سے دو سو میل اوپر ایک مدار ایسا ہے، جسے ہم قبرستان کا مدار بھی کہہ سکتے ہیں بائیس ہزار چار سو میل اوپر موجود یہ مدار ان سیٹلائٹس کا مسکن ہوتا ہے۔ جنہیں بحر اوقیانوس کے قبرستان میں پھینکنا مقصود ہوتا ہے۔ مستقبل قریب میں ایسا بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ خلاء میں ایک کچرا اٹھانے والا جہاز بھیج کر اس کچرے کو اکھٹا کر لیا جائے۔
مگر تب تک کے لئے بحر اقیانوس کی یہ جگہ ہی سیٹلائٹس کا قبرستان رہے گی۔ بحر اوقیانوس کے وسط میں موجود صحرا اور اسکی مخلوق بحر اوقیانوس جسے ہم سیٹلائٹس کے قبرستان کے طور پہ بھی جانتے ہیں۔ دنیا کا ایک ایسا حصہ ہے، جہاں آپ کو تا حدِ نگاہ پانی ہی پانی نظر آتا ہے۔ یہاں پہ آپ کو ڈھونڈنے سے بھی سوائے پانی کے کچھ نظر نہیں آتا۔
لیکن سیٹلائٹس کے قبرستان سے ہٹ کر یہاں اور کیا موجود ہے اور ان پانیوں کے نیچے کیا موجود ہے؟ ان پانیوں کے نیچے کچھ زیادہ نہیں، بلکہ سائنسدانوں کے بقول یہاں پہ سمندر کی لہروں کی کے تیز کرنٹ ہونے کی وجہ سے کچھ بھی موجود نہیں ہے۔ اسی مفروضے کے تحت ابھی تک یہاں کوئی نہیں گیا تھا۔ لیکن یہاں کچھ کچھ زندگی کے موجود ہونے کے آثار مل سکتے تھے۔
اس بات کے حق میں دلائل تو تحے ہی لیکن یہ بھی واضح تھا کہ چونکہ یہ حصہ زمین سے میلوں دور ہے اور یہاں وسط میں پانی کا بہاؤ بھی شدید تر ہے اور تو اور یہاں بنفشی شعاؤں کی بھی ایک بڑی مقدار گرتی ہے۔ سو ایسے میں زندگی کے وجود پہ سوال اٹھ جاتے ہیں۔ انہی سوالوں کی وجہ سے یہاں پہ کسی نے جانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اور یہ سچ بھی ہے، اسی وجہ سے سمندر کے اس حصے کو صحرا کا نام دیا گیا ہے۔
کیونکہ اس حصے میں زندگی کا وجود ہونے کا امکان صفر ہے۔ لیکن، کچھ سر پھرے محقیقین نے یہ چیلج اپنے سر لے لیا اور فیصلہ کیا کہ اس صحرا کا اسٹیٹس تبدیل کروا لیتے ہیں۔ چھ ہفتوں پہ محیط اس جرمن مشن نے سمندر کے اس صحرا کے گرد چکر لگایا۔ اور یہاں سے خردبینی مخلوق کے نمونے لئے یہ انسانی تاریخ کا پہلا موقعہ تھا۔ اس سفر میں محقیقن نے ۰۲ سے لیکر ۵۰۰۰ میٹر گہرائی تک سے خردبینی آبادیوں کے نمونے لئے۔
اور ان کا مزید تجزیہ کیا۔ یہ تجزیہ کافی حیران کن ثابت ہوا، کیونکہ اس تجزیے سے یہ پتا چلا کہ اس جگہ پہ حیاتیاتی خلیوں کی تعداد عام جگہ سے تین گنا کم تھی۔ یہ مخلوق کافی عجیب واقع ہوئی، کیونکہ سمندر کے اس حصے میں غذائی اجزا نا ہونے کے برابر اور نمکیات حد سے زیادہ ہیں۔ سو یہ مخلوق اس قسم کی ایڈاپٹیشن رکھتی ہے، جس میں یہ زیادہ سے زیادہ انرجی کو محفوظ رکھ کے آگے چل سکے۔
اس تحقیق کے نتائج بھی بحر اوقیانوس کے وسط کو صحرا کے اسٹیٹس سے نا نکال سکے۔ اور یہ جگہ ہمیشہ کے لئے اب صحرا کے اسٹیٹس میں ہی رہے گی۔ اور یہی وجہ ہے کہ کائناتی مطالعے کے بعد جو ناکارہ سیٹلائٹس ہوتی ہیں، وہ یہاں پہ ڈمپ کر دی جاتی ہیں۔