1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. Tange Wala Khair Mangda

Tange Wala Khair Mangda

ٹانگے والا خیر منگدا

بوسکی رنگ کے ٹوپی والے برقعے میں ملبوس دلہن کو ٹانگے کی پچھلی سیٹ پر بٹھا دیا گیا اور اس کے دائیں بائیں دلہا کی ماں اور بڑی بہن بیٹھ گئیں۔ اگلی سیٹ پر طلائی سہرا باندھے بوزکی کی قمیض اور سفید لٹھے کی شلوار پہنے دلہا اپنے ناک پر سرخ رومال رکھے بیٹھا ہوا تھا جب کے اس کے ساتھ اس کے دو بھانجے بھتیجے بیٹھ گئے۔ کوچوان اگلے پائیدان پر تن کر کھڑا ہوگیا اور گھوڑے کی باگیں ہلائیں۔ گھوڑا تانگے کو لے کر چل پڑا۔

سفید براق گھوڑے کے سر پر سرخ رنگ کی اون کا پھمن لگا ہوا تھا اور اس کی پیٹھ پر بھی سرخ رنگ کے پھولوں کی ڈوریاں لپیٹی ہوئی تھیں۔ کوچوان کی چابک بھی خوب صورت سوتی پھولوں اور رنگ برنگے دھاگوں سے بنی ہوئی تھی۔ ڈولی روانہ ہوئی اور اس ٹانگے کے پیچھے محلے کے سارے بچے بھی دوڑنے لگے۔ زیادہ شرارتی بچے دوڑ کر ٹانگے کے ہائیدان پر چڑھنے کی کوشش کرتے جنہیں ٹانگے کے پیچھے دوڑتا دلہا کا بڑا بھائی پکڑ پکڑ کر نیچے کھینچ لیتا۔ آج کافی دنوں بعد محلے میں ٹانگہ آیا تھا اور بچوں کی اس میں دلچسپی بجا تھی۔

پورے قصبے میں صرف دو ٹانگے تھے جو کہ مریض کو ہسپتال پہنچانے، دلہن کی ڈولی پہنچانے یا مالدار سواریوں کو موٹر کے اڈے یا ریلوے اسٹیشن سے قصبے تک لاتے۔ کبھی کبھار قصبے کے سینما میں اگر کوئی نئی فلم چڑھتی تو اس کا بڑا سا اشتہار کپڑے کے فریم پر چسپاں کر کے ٹانگے پر پورے قصبے میں مشہوری کے لئے گھماتے۔ اس ٹانگے کی پچھلی سیٹ پر ایک ڈھول والا بیٹھا ہوتا جو زور زور سے ڈھول بجا کر لوگوں کو ٹانگے اور فلم کے اشتہار کی طرف متوجہ کرتا۔ بچے اس کے پیچھے بھی محلے کے اختتام تک دوڑے چلے جاتے۔ کبھی کبھار وکیل صاحب ٹانگے پر موٹر اڈے سے گھر کی طرف جاتے تو بھی بچوں کا اچھا شغلَ لگ جاتا۔

قصبے سے لوگ سال میں ایک بار لہور داتا دربار کے میلے پر جاتے جہاں وہ لہور ریلوے اسٹیشن سے اتر کر ٹانگے پر لنڈا بازار سے ہوتے ہوئے دربار تک پہنچتے۔ سرکلر روڈ پر اکثر ٹانگے رواں دواں نظر آتے۔ سنگھ پورہ اور گھوڑے شاہ کی آبادیوں سے بھی اکثر ٹانگے ہی اسٹیشن تک لے جاتے۔ ریلوے اسٹیشن پر ٹانگوں کا ایک بہت بڑا اسٹینڈ تھا اور قصبے کے لوگ اتنے زیادہ ٹانگے ایک ساتھ ایک جگہ پر کھڑے دیکھ کر حیران ہوتے۔ اس وقت فضا میں سموگ تو نہ تھی مگر لہور اسٹیشن اور سرکلر روڈ پر گھوڑوں کی لید کی بساند ہر طرف پھیلی ہوتی۔

برا ہو چنگچی رکشا ایجاد کرنے والوں کا کہ جن کے آنے کے بعد یہ شاہی سواری ہمارے ماحول سے آہستہ آہستہ ناپید ہوگئی۔ قصبے کے رنگین ٹانگے پہلے تو بے رنگ ہوئے اور پھر ان کے پہئے لڑکھڑانے لگے۔ تندرست گھوڑے مریل ہوئے اور پھر کچھ وقت بعد کئی دہائیوں سے چلنے والے ٹانگے قصبے سے غائب ہو گئے۔

Check Also

Hamare Ewan Aur Hum

By Qasim Asif Jami