Murtakiz Shamsi Tawanai Ka Jadu
مرتکز شمسی توانائی کا جادو
کیا آپ یقین کریں گے کہ شمسی توانائی سے رات کو بھی بجلی بنانا ممکن ہے؟ سولر پینلز پر سورج کی روشنی پڑتی ہے تو براہِ راست بجلی پیدا ہوتی ہے اور یہ سورج کے بغیر بجلی نہیں پیدا کر سکتے، لیکن مرتکز شمسی توانائی کے پلانٹ کی مدد سے دن اور رات کے کسی بھی وقت بجلی بنانا ممکن ہے۔ جس کا پاکستان میں بے انتہا پوٹینشئئل ہے۔
کہا جاتا ہے کہ 212 قبل مسیح میں ارشمیدس نے ایک بہت بڑے آئینے سے سورج کی روشنی کو حملہ آور رومن بحری بیڑے پر مرتکز کرکے اسے آگ لگا کر سیرا کیوز (Syracuse) شہر سے پسپائی پر مجبور کردیا تھا۔
اس افسانے کی سچائی کو چانچنے کے لئے کہ واقعی ارشمیدس ایک آئینے کی طاقت سے رومی بحری بیڑے کو تباہ کر سکتا تھا سنہ 1973 میں ایک متجسس یونانی سائنسدان ڈاکٹر لوآنس سکاس (Dr. Loannis Sakkas) نے 60 یونانی ملاحوں کو ایک قطار میں کھڑا کر دیا۔ جن میں سے ہر ایک ملاح نے ایک لمبا آئینہ پکڑا ہوا تھا، جو کہ سورج کی شعاعوں کو 160 فٹ دور کھڑے ایک بحری جہاز پر مرتکز کررہا تھا۔ اس جہاز نے چند منٹوں کے اندر ہی آگ پکڑ لی۔ یہ مرتکز شمسی توانائی کی دُنیا میں ایک بڑی دریافت تھی۔
مرتکز شمسی توانائی کے پلانٹ سولر پینلز کے برعکس تھرمل پاور پلانٹ کے اصول پر کام کرتے ہیں۔ انہیں ہم سولر تھرمل پاور پلانٹ (CSP)بھی کہہ سکتے ہیں۔ مرتکز شمسی توانائی کے پلانٹ سے بننے والی بجلی کا ہر 1 میگاواٹ ہمیں 6,000 بیرل سے زیادہ تیل کی درآمد بچا سکتا ہے۔ پاکستان کی وزارتِ توانائی کے مطابق پاکستان میں 60 فی صد بجلی تیل، کوئلہ اور گیس سے پیدا ہوتی ہے۔ تیل اور کوئلہ نہ صرف ڈالر کھاتے ہیں بلکہ پاور پلانٹ کا دھواں ماحول کو بھی تباہ کرتا ہے۔
پاکستان دنیا کی "سن بیلٹ " پر واقع ہے۔ جہاں سال میں 300 دن بھرپور سورج چمکتا ہے۔ جس سے USAID کی ایک اسٹڈی کے مطابق ہم 2.9 ملیئن میگاواٹ بجلی بنا سکتے ہیں۔ پاکستان کے ہر مربع میٹر پر اوسطاً 5kWh کی شدت سے شمسی توانائی (DNI) روزانہ پڑتی ہے۔ جو کہ عالمی اوسط 3.5 kWh سے بہت زیادہ ہے۔
دنیا میں کئی ممالک میں سولر تھرمل پاور پلانٹ پچھلی دو دہائیوں سے کامیابی سے چل رہے ہیں۔ ہمارے پڑوس میں انڈیا نے بھی 100Gw تک سولر تھرمل پاور پلانٹ لگانے پر اس سال کام شروع کردیا ہے۔ دبئی میں DEWA پہلے ہی 700MW کیپیسٹی کا سولر تھرمل پاور پلانٹ چلا رہا ہے۔
پاکستان میں بلوچستان کا علاقہ تو شمسی توانائی کی سمندر ہے۔ جہاں ہر مربع میٹر پر توانائی کی شدت 7kWh روزانہ ہے۔ یہ سولر تھرمل پاور پلانٹ لگانے کے لیے آئیڈیل ہے۔ اس کے علاوہ جنوبی پنجاب اور بالائی سندھ کے علاقے بھی بہت زیادہ موزوں ہیں۔ صادق آباد، نواب شاہ اور کوئٹہ شہر سولر تھرمل پاور پلانٹ لگانے کے لئے سب سے موزوں ہیں۔ جو نہ صرف نیشنل گرڈ سے منسلک ہیں، بلکہ سڑک کے ذریعے بھی رسائی آسان ہے۔ گوادر کے اندھیرے بھی ایسا ہی پلانٹ لگا کر دور کئے جاسکتے ہیں۔
سولر تھرمل پاور پلانٹ سورج کی روشنی/ توانائی کو ایک ریسیور پر مرکوز کرنے کے لیے آئینے کا استعمال کرتے ہیں۔ مرتکز توانائی کا استعمال ایک سیال مادے (HTF)کو گرم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے، جو بجلی پیدا کرنے والی ٹربائن کو چلانے کے لیے بھاپ پیدا کرتا ہے۔ یہ سیال مادہ عام طور پر پگھلا ہوا نمک (نائٹریٹ) ہوتا ہے۔ جس کو حرارت برقرار رکھنے والے کنٹینرز میں رکھا جاتا ہے تاکہ بلا تردد دن رات ٹربائن چلا کر بجلی پیدا کرنے کے لئے بھاپ پیدا کی جاسکے۔ یہ کنٹینر دراصل وہ دیوہیکل بیٹریاں ہیں۔ جن سے ہم کسی بھی وقت بجلی حاصل کرسکتے ہیں۔
پاکستان میں ابھی تک کوئی سولر تھرمل پاور پلانٹ نہیں لگا۔ لیکن کئی منصوبوں کی ابتدائی فیزیبیلٹی ہو چکی ہے۔ جیسا کہ نواب شاہ میں 50MW کا پلانٹ 2014 میں تجویز کیا گیا تھا۔ جس نے سالانہ 54GWh بجلی پیدا کرنا تھی۔ دیکھیں اس ماحول دوست ذریعہ توانائی پر کب کام شروع ہوتا ہے۔