Khalai Shamsi Tawanai Ki Taskheer
خلائی شمسی توانائی کی تسخیر
ہم سے "سولر پینل" نہیں بن رہے اور یار لوگوں نے خلا سے شمسی توانائی زمین پر پہنچانا شروع کردی ہے۔ چند دن پہلے امریکیوں نے خلا سے پہلی شمسی بِیم (beam) زمین پر دے ماری ہے اور یہ کارنامہ سرانجام دینے والے آزمائشی پرواز "سپیس سولر پاور ڈیمونسٹریٹر (SSPD-1) "کے مشن میں شامل سائنسدان آج کل کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں اس کی کامیابی کا جشن منا رہے ہیں۔
خلا سے زمین پر شمسی توانائی بھیجنا انسان کا سوسالہ پرانا خواب تھا۔ کونسٹنٹس سیولکووسکی ایک روسی تھیورسٹ تھا جس نے 1923 خلا میں ایسے آئینوں کی تجویز دی جو سورج کی طاقتور شعاعوں کو مرکوز کرکے ایک طاقتور شعاع کی شکل میں زمین تک بھیجیں جسے گراونڈ اسٹیشن کے ذریعے پکڑ کر بجلی میں تبدیل کیا جاسکے۔ اس خیال سوسال بعد بالآخر 2023 میں امریکی سائنسدانوں نے عملی تعبیر دے دی۔
خلا میں سورج کی روشنی کی شدت زمین سے دس گنا زیادہ ہوتی ہے، کیونکہ اسے زمین کے گیسوں والے ماحول، بادلوں یا گرد میں سے نہیں گزرنا پڑتا۔ اسی طرح اگر خلائی سولر پاور اسٹیشن کو مناسب مدار میں رکھا جائے تو یہ تاعمر مسلسل سورج کے سامنے رہے گا اور بجلی بنانے کے لئے درکار حرارت دن رات زمین پر بھیجتا رہے گا۔ ایک سیٹلائٹ سے دس لاکھ تک گھروں کو بجلی فراہم کی جاسکے گی۔
ایس ایس پی ڈی۔ 1 نامی پرواز گزشتہ سال جنوری میں خلا میں بھیجی گئی تھی، جس نے پورا سال شمسی توانائی کے مختلف تجربوں میں گزارنے کے بعد بالآخر خلا سے تاریخِ انسانی کی سب سے پہلی شمسی توانائی کی طاقتور شعاع(beam) گزشتہ سال مارچ میں کامیابی سے زمین پر بھیج دی۔ امریکہ اس کھوج میں اکیلا نہیں بلکہ اس کے مقابلے میں چین، ہندوستان اور یوکے بھی خلا پر مبنی شمسی توانائی کی ٹیکنالوجی پر دھڑا دھڑ کام کررہے ہیں، کیونکہ یہ توانائی کی بھوکی ہے۔
سائنسدانوں کو خلائی سولر پاور اسٹیشن کا خیال تو سپیس پروگرام کے شروع میں آ گیا تھا۔ لیکن اس وقت خلا میں زمین سے مطلوبہ آلات اور سازوسامان لے جانے کے لئے جانے والے خلائی جہازوں پر آنے والا خرچ اس سے بننے والی بجلی سے کئی گنا زیادہ تھا تاہم اب Space-X جیسی کمپنیوں کے بننے کے بعد خلائی پروازوں کا خرچ بہت کم ہوچکا ہے اور کوئی بعید نہیں کہ خلائی سولر پاور اسٹیشنز جلد ہی ایک حقیقت بن جائیں۔ یہ خلائی اسٹیشن کئی کلومیٹر لمبے ہوسکتے ہیں (انٹرنیشنل سپیس اسٹیشن کا سائز ایک فٹبال گراونڈ جتنا ہے۔
آزمائشی خلائی پرواز سے چھوڑے جانے والے کالٹیک ڈیوائس کے ساتھ 1.8 میٹر لمبی سولر چٹائی لگائی گئی تھی۔ جس کے اندر 32 مختلف اقسام کے کم قیمت سولر سیل لگے ہوئے تھے۔ جن سے پکڑی گئی سورج کی روشنی کو الیکٹرونکس نے مائیکرو ویو میں تبدیل کیا جن کے دو ہلکے وزن کے مائیکروویو ٹرانسمیٹرز کے ذریعے زمین پر کامیابی سے سگنل بھیجے گئے۔
اگرچہ اس ٹیسٹ فلائٹ میں بہت سے مسائل بھی آئے لیکن انہیں زمین پر موجود کنٹرول روم سے ہی خلا میں ٹھیک کر لیا گیا۔ یہ کامیاب خلائی فلائٹ انسان کے صاف ستھری ذرائع توانائی کی طرف سفر کا ایک بہت بڑا مرحلہ تھا جوکہ کامیابی سے عبور ہوگیا، کیونکہ زمین پر انسان پہلے ہی تیل اور کوئلہ پھونک پھونک کر بجلی بنانے سے ماحول کو ناقابلِ واپسی نقصان پہنچا چکا ہے۔