Badalon Ke Qazaq
بادلوں کے قزاق
کیا انڈیا پاکستان پر اپنے بادلوں کی چوری کا الزام تو نہیں لگا دے گا؟ یہ سوال مجھ سے اس وقت پوچھا گیا جب میں نے پچھلے سال لاہور میں پہلی مصنوعی بارش کے موقع پر اس موضوع پر آرٹیکل لکھا تھا۔ تاہم اب سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصاویر نے ترکی اور ایران کے درمیان ایک نیا تنازع کھڑا کر دیا ہے کہ ترکی ایران کے بادل چوری کررہا ہے؟
ایرانی عوام اب سوال کر رہے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ ترکی کی طرف تو آسمان پر بادل بھی ہیں اور پہاڑوں پر برف بھی لیکن جیسے ہی یہی پہاڑی سلسلہ ایران میں داخل ہوتا ہے تو پہاڑ یکدم خشک اور آسمان بادلوں سے صاف؟ اس سے پہلے ایران متحدہ عرب امارات پر بھی بادل چوری کے الزامات لگاتا رہا ہے جہاں کثرت سے مصنوعی بارش برسائی جاتی ہے۔
اس سے پہلے سنہ 2018 میں بھی ایران کے ایک سینیئر فوجی افسر کی طرف سے xiرائیل اور متحدہ عرب امارات پر مشترکہ طور پر ایران کے بادل چوری کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ سنہ 2016 میں بھی ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے بھی ایسے ہی تبصرے کیے تھے جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ "دشمن" کسی ناپاک ایجنڈے کے تحت بارش کے بادلوں میں سے ایران کے حصے کو تباہ کر رہے ہیں۔
ایران، ترکی، سعودی عرب، اxرائیل اور متحدہ عرب امارات جیسی حکومتوں نے مقابلے کی فضا میں موسمی تبدیلی کے پروگرام شروع کردئیے ہیں، جس سے پہلے ہی کشیدگی سے بھرے خطے میں ماحولیاتی دشمنی کے مزید الزامات کے لیے دروازے کھل گئے ہیں۔
دُنیا کے ملکوں کے درمیان مستقبل میں شدت سے پانی پر کنٹرول کے لئے "آبی جنگیں" شروع ہو سکتی ہیں۔ ہوا کے بعد پانی دوسری سب سے اہم چیز ہے جس پر انسانی زندگی کا دارومدار ہے۔ پانی کے لئے انسان مرنے اور مارنے پر تیار ہوجاتا ہے۔ سوڈان کا مسلم آبادی والا علاقہ عظیم تر دارفور اس کی ایک مثال ہے جو پچھلے چالیس سال سے خشک سالی سے جنم لینے والی خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے۔
تیل کے برعکس پانی کا کوئی متبادل بھی نہیں۔ جس طرح پچھلی صدی تیل کی صدی تھی اسی طرح موجودہ صدی پانی کی صدی ہے۔ پانی نے ہی اس صدی میں قوموں کے باہمی تعلقات کی نہج طے کرنی ہے۔ اس صدی کی بڑی سپر طاقتیں آبی طاقتیں ہی ہوں گی جو کہ بلحاظ پانی کی دستیابی کے برازیل، روس، امریکہ، کینیڈا اور چین ہیں۔
پاکستان کی پوزیشن اس لحاظ سے نازک ہے کہ ہماری معیشت کا سارا دارومدار ہی دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں پر ہے۔ جن میں تین مشرقی دریاؤں کو انڈیا خشک کر چکا اور اب وہ دو مغربی دریاؤں سے چھڑ چھاڑ کررہا ہے۔ لہٰذا پاکستان میں اب یہ باتیں شروع ہورہی ہیں کہ اپنے مشرقی دریاوں کے پانی روکنے کا بدلہ لینے کے لئے پاکستان سرحد کے پاس کلاؤڈ سیڈنگ کرکے ہندوستانی بادل چرا لیا کرے۔ لاہور میں کی گئی مصنوعی بارش نے انڈیا کے بھی کان کھڑے کردیے ہیں۔ لیکن جواباً انڈیا بھی زیادہ شدت کے ساتھ ہمارے بادل چرا سکتا ہے۔
موسمی ماہرین کے درمیان یہ تشویش زیادہ بڑھ گئی ہے کہ سوشل میڈیا تک آسان رسائی اور اس پر بنا تصدیق الزامات و پراپیگنڈہ کے کھلم کھلا اظہار کی وجہ سے انڈیا اور پاکستان جیسے ملکوں کا ایک دوسرے کے بارے میں اب زیادہ جلدی غلط فہمی کا شکار ہونے کا امکان ہے جو بڑھ کر جنگ کی صورت اختیار کرسکتی ہے۔
افسانوی کہانیوں سے عوام کی توجہ تھوڑی دیر کے لیے ہٹانا تو آسان ہے۔ لیکن پانی کا اصل مسئلہ اس طرح حل نہیں ہوگا۔ اب عملی اقدامات لینا ہوں گے۔ انڈیا نے اپنی واٹر پالیسی 1978ء میں ہی بنا لی تھی اور ہم نے 2018ء میں مجبوراً پاکستان کی پہلی واٹر پالیسی بنائی۔ زراعت پر ملکی معیشت کی بنیاد ہونے کے باوجود ہم اتنا عرصہ خواب غفلت میں سوئے رہے اور دنیا کہاں سے کہاں نکل گئی۔ پچھلی دوتین دہائیوں میں ہم سے پانی کو محفوظ کرنے کے معاملے پر سنگین کوتاہیاں ہوئی ہیں۔
پاکستان میں اس وقت صرف 30 دن تک کی ملکی ضروریات کا پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش موجود ہے جب کہ انڈیا کے پاس 180 دن کی گنجائش ہے۔ یہ بات اس لئے بھی اہم ہے کہ انڈیا کی ضروریات ہم سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ چین نے 1,000 دن کی ملکی ضروریات کے لئے پانی ذخیرہ کیا ہوا ہے۔ دہائیوں سے قحط سالی کا شکار افریقی ملک ایتھوپیا بھی دریائے نیل پر گرینڈ رینائیسینس ڈیم بنا کر اپنا پانی ہمیشہ کے لئے محفوظ کرچکا۔
کسی ملک میں بارش یا برفباری سے حاصل ہونے والے پانی کے کل حجم کا 40 فیصد تک ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہونی چاہئے جب کہ ہمارے ہاں یہ گنجائش بھی ابھی 10 فیصد تک نہیں پہنچی تو ہم کیسے پانی کی قلت والے دنوں میں اپنی ضروریات کو پورا کرسکیں گے۔ ہمارے ہاں سال کا 80 فیصد سے زیادہ پانی تو موسم برسات کے دوتین مہینوں میں ہی برس جاتا ہے۔
پاکستان کو دستیاب سالانہ پانی کا 92 فیصد تک زراعت کے لئے استعمال ہوجاتا ہے۔ کھیتوں میں ہم ابھی تک ڈیڑھ دوسو سال پرانے فلڈ اری گیشن کے نظام سے آب پاشی کررہے ہیں جب کہ دنیا اعلیٰ افادیت والے نظامِ آب پاشی (HEIS)کو اپنا چکی بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر "مائیکرو" ار یگیشن تک پہنچ چکی ہے جس میں ہر پودے کی انفرادی ضرورت کا پانی ڈیجیٹل طریقے سےبقدر ضرورت صرف اس وقت ڈرپ کردیا جاتا ہے جب اسے ضرورت ہو۔
ہمارے ملک میں زیرزمین پانی کی سطح بھی تیزی سے نیچے جا رہی ہے۔ شہری علاقوں میں آبادی کے دباؤ کی وجہ سے اور زیادہ ابتر صورت حال ہے۔ کوئٹہ شہر اپنی بقا کی آخری جنگ لڑ رہا ہے۔ جہاں سے ماہرین کے مطابق پانی کی کمی کی وجہ سے بڑی نقل مکانی شروع ہوسکتی ہے۔ کراچی میں ٹینکر مافیا کا راج ہے اور آپ کا لاہور، پشاور اور راولپنڈی اسلام آباد تیزی سے کوئٹہ بننے کی جانب گامزن ہیں۔ اندرون لاہور کے علاقوں میں زیرزمین پانی تقریباً پانچ چھ سو فٹ سے بھی زیادہ نیچے جاچکا۔
صنعتی علاقوں میں پانی کا بے تحاشا غیر ضروری استعمال جاری ہے اور آلودہ صنعتی پانی کو بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے نالوں یا جوہڑوں میں پھینکنے یا زیرِ زمین واپس بھیجنے کا گھناؤنا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ جس سے صحت کے کئی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ قصور اور سیالکوٹ کا زیرزمین پانی کافی حد تک خراب ہوچکا ہے۔
آبی جنگیں اگلا موڑ مڑ رہی ہیں۔ عملی اقدامات کا وقت ہے۔ اپنے آپ کو بچانے کا وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ ملک میں واٹر ایمرجنسی نافذ کی جائے۔ ہر سطح پر واٹر مینیجمنٹ کروائی جائے اور واٹر گورننس بہتر کی جائے۔ نیشنل واٹر پالیسی پر عملی اقدامات کے لئے جنگی کی بجائے جسم جان بچانے والے جذبے سے کام لینا ہوگا ورنہ پانی کی کمی تمام تر وسائل اور طاقت کے باوجود ہماری کمر توڑ سکتی ہے۔
ہمیں پہلا خطرہ اپنے آپ سے ہی ہے۔ ہم بڑھتی ہوئی آبادی اور ضائع یا برباد ہوتے پانی کے وسائل کی وجہ سے کتنی دیر تک زراعت میں خودکفیل رہ کر معیشت سنبھال سکیں گے۔