Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaara Mazhar/
  4. Meena, Geena (1)

Meena, Geena (1)

مینا، گینا (1)

سوسن کے برابر میں ایک جوڑا آباد تھا وہ لوگ چودہ برس ایک ساتھ رہے۔ جب سوسن کے شوہر کی وہاں پہلی پوسٹنگ ہوئی تو اس کی گود میں چند ماہ کی ایک گڑیا تھی اور پڑوسی جوڑے کے ساتھ ان کی دو ننھی منی بیٹیاں۔ ابھی پہلا آزمائشی پاور پلانٹ نصب ہوا تھا جس کا انتظام و انصرام چائنہ کے ہاتھ میں تھا۔ نیو کالونی کی بنیاد رکھی جا چکی تھی۔ تمام دن رہائشی پلاٹس پہ کنسٹرکشن ہوتی رہتی۔ درختوں پہ کھدے نمبر اور چلتے برقی آرے بتاتے تھے کہ جنگلات کا ٹھیکہ بھی ہو چکا ہے۔

جون کا مہینہ تھا حدِ نگاہ پیلی دھوپ تک تھی اتنی کہ زیادہ دیر دیکھتے رہنے سے جلن آنکھوں میں گھس جاتی۔ صبح پارکنگ میں سے شٹل سروس چلتیں، تمام ایمپلائز کو قیدیوں کی طرح پِک کرتیں اور پلانٹ کے ایریا میں چھوڑ آتیں جہاں ایمپلائز کو پلانٹ کے مختلف پارٹس وزٹ کروائے جاتے۔ ان کی حساسیت اور ورکنگ کے بارے میں جانکاری دی جاتی اور چائنیز زبان سکھانے کے لئے باقاعدہ کلاسز دی جاتیں۔ شام کو پھر شٹلز میں بھر کے ڈور ٹو ڈور ڈراپ کر دیا جاتا جہاں بڑے بڑے سرکاری گھروں میں ڈھلتے سایوں کی ردا اوڑھے ایک بیوی ایک یا دو بچے اور گہرے سناٹے سو رہے ہوتے۔

سامان سیٹ ہو گیا تو سوسن بھی قدرے سیٹ ہوئی۔ انسان معاشرت کا بندہ ہے گھر میں طمانیت ہو جائے تو ادھر ادھر تاک جھانک کرتا ہے، ایک دوسرے سے مل کے خوش ہوتا ہے، اس طرح کی کالونیز میں رواج ہے کہ پہلے سے رہنے والا نئے آنے والوں کو خوش آمدید کہتا ہے۔ طیب صاحب اور ان کی فیملی شفٹنگ میں سوسن سے ایک مہینہ سینئر تھے سو ان کی بیگم سوسن کو ملنے آئیں۔ ملنے کیا آئیں چپ چاپ بیٹھنے آئیں۔

سوسن نے جھٹ ٹھنڈا شربت پیش کیا۔ احوال پرسی کی، بچیوں کے نام پوچھے۔ آپ کب شفٹ ہوئے، کہاں کے آبائی ہیں وغیرہ وغیرہ؟ وہ مختصر جواب دیتی رہیں جیسے سوسن کو انٹرویو ہی دینے آئی تھیں۔ سوسن سے جوٹھے منہ بھی نہ پوچھا بی بی کون ہو تم کہاں سے آئی ہو؟ بچیاں بھی اتنی چپ جیسے گونگی ہوں۔

سوسن اور امینہ کے کچن گارڈن چار انچ کی ایک دیوار کے ساتھ جڑے ہوئے تھے جہاں سوسن نے ٹیبل کرسیاں رکھ لیں اور گھاس لگا کے چھوٹے سے لان کا درجہ دے دیا۔ کیاریوں میں بھنڈی، لہسن، پیاز، پودینہ اور سیم لگا لئے سائیڈ کے گلیارے میں مالٹے، موسمی اور کینو کے پودے لگائے۔ ان سبزیوں، پھلوں اور لان کی ہریالی کو دیکھنا دل کو تسکین اور آنکھوں کو ٹھنڈک دیتا۔ اپنے گھر کی آرزو ایک عورت کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔ سوسن کولگتا بیٹھے بٹھائے جنت مل گئی ہے۔

ادھر پتّا بھی کھڑکتا تو ادھر ضرور آواز جاتی یہاں تو سوسن کے گلے میں لاؤڈ سپیکر فٹ تھا جب کہ ادھر سے کبھی کوئی آواز نہیں آئی۔ نہ کبھی طیب صاحب اونچا بولے نہ مینا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پچاس ساٹھ گھر آباد ہو گئے۔ سب کے میل ملاپ سے پتہ چلا طیب اور امینہ آپس میں ماموں، پھپھی زاد کزن ہیں طیب صاحب عمر میں کوئی دس سال بڑے تھے امینہ چھ سات سال کی اور بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی۔

ماں ایکدم شدید بیمار ہو گئی کہ بستر سے جا لگی۔ اماں ابا سکول ہی نہیں بھیج سکے مینا گھر میں رہ کے چھوٹے بہن بھائیوں کو دیکھ لیتی اور ماں کے بھی چھوٹے چھوٹے کام کر دیتی۔ پچھلی گلی میں پھپھی رہتی تھیں وہ دن میں ایک دو چکر لگا لیتیں جہاں کچھ مشکل پـڑتی مدد کر دیتیں۔ مینا سولہ سترہ کی ہوئی تو اچھی گھرداری کرنے لگی پھپھی کو اپنا جوان برسرِ روزگار بیٹا بیاہنا تھا تو نظر انتخاب امینہ پہ ٹہری۔ دو ڈھائی سال قبل شادی ہوئی تھی دو بیٹیاں گود میں تھیں اور آپس میں اچھی نبھ رہی تھی۔

دو سال اور بیتے اب سوسن اور مینا کی بچیوں نے سکول جانا تھا اور ایڈمیشن کے لئے ٹیسٹ پاس کرنا لازمی تھا جس کا ایک باقاعدہ سلیبس تھا کہ بچوں کو اپنا اور پیرینٹس کا نام آتا ہو، گھر کا نمبر اور پتہ معلوم ہو، کلرز کی پہچان ہو، ون ٹو ٹین ڈیجٹ لکھنے آتے ہوں، ABC اور اردو کے دس دس حروفِ تہجی لکھنے اور بولنے آتے ہوں، چھوٹے بڑے ہندسے اور اشکال کی کراس میچنگ آتی ہوں اور کلرِنگ بھی آتی ہو، سیب اور کیلے کے خاکے میں رنگ بھرنا وغیرہ وغیرہ۔

سوسن پڑھی لکھی تھی پھر گھر میں کاموں کا کوئی جھنجھٹ بھی نہیں تھا منے کو جھولا جھلاتے مزے سے بیٹی کو ٹیسٹ تیار کرواتی رہتی بلکہ اپنی اولاد کو سکھانے کے لئے اس نے کئی جدید طریقے بھی اختیار کئے، اے بی سی سانگ کی طرز پہ الف بے اور ون ٹو کے گیت بھی بنا لئے اور پریپ کا سال بھر کا سلیبس تیار کروا لیا تاکہ بچی کا ذہن وسیع ہو بچی کلاس میں نمایاں رہے۔ ٹیسٹ کے سلیبس جتنا تو مینا کو بھی آتا ہی تھا تیاری کروا لی اور ٹیسٹ اور سلیکشن کے بعد بچیاں سکول جانے لگیں۔

آکسفورڈ سلیبس تھا بچی کے ساتھ سوسن بھی پڑھنے لگی تعلیمی سیشن کے اختتام پر سوسن نے بھی پریپ کا سلیبس پاس کر لیا۔ مینا کی بیٹی نے %70 نمبر لئے اور سوسن کی بیٹی نے 99%۔ آگے ون میں سلیبس ایکدم بھاری ہو گیا مینا سے نہیں سنبھل سکتا تھا سو طیب صاحب شام کو آفس سے آ کے خود پڑھاتے۔ مینا کے ہاں بچے کی پیدائش متوقع تھی مینا کی چھوٹی بہن نگینہ اس کی مدد کے لئے بھیجی گئی۔

گینا ایک زندگی سے بھرپور لڑکی تھی پاؤں کی ٹھوکر پہ تمام کام کر کے یہ جا وہ جا۔ کالونی کی خواتین کو چائے پہ بھی بلا لیتی تب سب کو پتہ چل جاتا گینا آئی ہوئی ہے۔ ان کی تمام گھریلو سرگرمیوں کا مرکز وہی پچھلا صحن تھا جسے سوسن ناز سے اپنا کچن گارڈن کہتی تھی، پڑھی لکھی نہ ہونے سے قطعٔ نظر مینا بے حد سلیقہ مند خاتون تھی صاف ستھرے بچے، گھر ہر وقت چمکتا رہتا، کچن میں پتیلیاں بھی چمکتیں اور برتن بھانڈے بھی۔

بستر پہ سفید سندھی کڑھت کی چادریں بھی اس کی نفاست کا منہ بدلتا ثبوت تھیں لیکن یہ سب نفاست اور صفائی مردہ مردہ سی اور بے جان لگتی جب تک کہ گینا نہ آ جاتی۔ گینا کے آنے سے ہر بیڈ شیٹ پہ، بستر پہ اور کچن کے برتنوں کی کھنک میں ایک سر خوشی جاگ جاتی۔ گینا بے حد گُنی تھی اس کے گلے میں بھی سوسن کی طرح لاؤڈ سپیکر فٹ تھا اور والیوم ہائی ہی رہتا۔

Check Also

Karachi Bacha Jail Mein Aik Din

By Muhammad Saqib