Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Huqqe Walay Dost

Huqqe Walay Dost

حقے والے دوست

ہمارے اباجی مجاہد کشمیر لفٹیننٹ (ر) محمد ایا زخان مرحوم نے ایک بھر پور زندگی گزاری۔ افواج پاکستان میں تیس سال گزارے چار بڑی جنگوں میں حصہ لیا۔ انڈیا میں دوسال جنگی قیدی رہے کشمیر کی آزادی میں اہم کرداد ادا کیا اور دوسری جنگ عظیم سے لیکر جنگ مشرقی پاکستان تک بے شمار بہادرانہ جنگی اعزازت سے نوازےگئے۔ بے حد اہم عہدوں پر کام کیا اور فوج کی ملازمت سے رئٹائرمنٹ کے بعد بھی انکا شمار پاکستان کے بڑے سوشل ورکرز میں ہوتا تھا۔ وہ پاکستان سوشل ایسوسی ایشن کے تا حیات صدر رہے۔

نواب امیر آف بہاولپور کے سوشل سکریٹری کی حیثیت سے بے شمار فلاحی کام کرتے رہے۔ ان کا ایک بہت بڑا حلقہ احباب تھا۔ ان کے گرد لوگوں کا ہجوم رہتا تھا۔ ان سے ملنے والوں کی بھیڑ ہر وقت ان کے ہمراہ موجود رہتی تھی۔ پاکستان بھر میں انکے چاہنے والے ان سے ملنے کے خواہشمند ہوتے تھے۔ ان کے بے شمار دوستوں میں ملک کی نامور شخصیات شامل تھیں۔ پھر جب ان کی آنکھیں اور ٹانگیں جواب دے گئیں اور وہ چلنے پھرنے سے بھی قاصر ہو گئے۔ تو وہ اپنی آخری عمر ایک بستر پر گزارتے تھے۔

بیماری بڑھتی چلی گئی اور ان کا حلقہ احباب گھٹتا چلا گیا۔ لوگوں کی آمد ورفت کم ہوتے ہوتے نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ اب ان کا ساتھی ایک فلپس کا ریڈیو اور ایک ذاتی ملازم اسلم اللہ والا اور گھر کے چند افراد ساتھ رہ گئے تھے۔ البتہ کبھی کبھار کوئی خریت پوچھنے آجاتا لیکن وہ بھی چند منٹوں سے زیادہ نہ دے پاتا۔ مجھےکبھی کبھی محسوس ہوتا کہ وہ بے حد تنہائی محسوس کرتے ہیں۔ جس کا اظہار نہیں کر پاتے۔

ایک دن میں نے ان سے پوچھا اباجی آپ کے تو بے شمار چاہنے والے اور دوست تھے سب کہاں چلے گئے؟ تو مسکراے اور کہنے لگے وہ تو حقے والے دوست تھے۔ میں نے پوچھا یہ حقے والے دوست کیا ہوتے ہیں؟ تو انہوں نے ایک واقعہ سنایا۔ ان کی عادت تھی کہ وہ ہر دفعہ ہمیں بات سمجھانے کے لیے چھوٹی موٹی کہانیوں کا سہارا لیتے تھے۔ کہنے لگے ایک گاوں میں ایک بہت بڑا چوہدری ہوا کرتا تھا۔ جہاں اسکی چوپال پر ہر وقت حقے کا دور چلتا رہتا تھا۔ ساتھ ساتھ لسی، چاے، پانی بھی مل جاتا تھا۔ چوہدری صبح آکر چوپال میں براجمان ہوتا تو اس کا ہر دوست وہاں سے گزرتے ہوے حقے کے چند کش ضرور لگاتااور اس بہانے چوہدری صاحب سے گپ شپ ہو جاتی۔ یوں چوہدری کا بھی دن گزر جاتا اور دوستوں کا ہجوم بھی لگا رہتا۔

چوہدری کے ڈیرے پر گاوں کا واحد ایک ٹیلی فون لگا ہوا تھا۔ جو حقے ساتھ ساتھ تمام دوستوں کو پیغام رسانی کی سہولت فراہم کرتا تھا۔ لوگ گھنٹوں فون کال کے بہانے حقہ کی محفل جماے رکھتے۔ یوں بڑے عرصے سے ڈیرہ کی رونق قائم تھی۔ پھر ایک روز چوہدری صاحب کو شدید کھانسی ہوئی تو ڈاکٹر نے بتایا کہ پرانہ دمہ ہے اور فوری حقہ پر پابندی لگا دی اور اسکے بچوں نے حقہ اُٹھوا کر چھپا دیا۔ بھلا زندگی کسے پیاری نہیں ہوتی یوں ڈیرے پر لوگوں کی آمد رفت میں کمی ہونے لگی۔ بدقسمتی سے انہی دنوں گاوں کی ایکس چینج کی آپ گریڈیشن شروع ہونے سے ٹیلی فون بھی بند ہوگیا۔ وہ لوگ جو روز صبح سویرے ڈیرے پر آکر چوہدری صاحب کی زیارت کے بہانے بیٹھ جاتے تھے۔ اچانک غائب ہونے لگے۔

جن کو چوہدری صاحب اپنے قریبی دوست سمجھتے تھے۔ جو دور سے ہی چوہدری صاحب چوہدری صاحب کے نعرے لگاتے آتے تھے اور گھنٹوں اکھٹے ہوکر دائرے میں گھومنے اور بڑی نڑی والے فرشی رنگ برنگ حقے سے باری باری حقہ نوشی کرتے تھے۔ وہ سب غائب ہونے لگے اور ٹیلی فون کی بندش تو سونے پر سہاگہ ثابت ہوئی اور کچھ عرصہ بعد چوہدری صاحب ان لوگوں کی شکلیں تک بھول گئے۔ یوں چوپال بے رونق ہوکر رہ گیا کیونکہ حقہ اور چوپال لازم ملزوم ہیں حقہ نہ ہو تو چوپال اجڑ جاتی ہے۔ چوپالوں پر بیٹھنے کی وجہ نہ ہو لوگوں کا رش کیسا؟ پھر بھی کبھی کوئی بھولا بھٹکا دوست آجاتا۔ مگر چند منٹوں سے زیادہ نہ بیٹھ پاتا اسے حقے کے بغیر چوہدری کی باتیں کم اور کھانسی زیادہ سننے کو ملتی تو دوڑ جاتا۔ پھر اباجی نے مجھے غور سے دیکھا اور کہا تمہیں پتہ ہے ایسا کیوں ہوا؟ میں نے کہا نہیں آپ بتائیں تو بولے دراصل وہ لوگ چوہدری کے دوست نہیں تھے۔ وہ تو حقے اور ٹیلی فوں کے دوست تھے۔ حقہ بند ہوا ٹیلی فون کٹ گیا تو یہ لوگ بھی کٹ گئے۔ جس دن حقہ اور فون پھر سے موجود ہوگا یہ پھر آجائیں گے۔

اباجی کی آنکھوں میں موجود نمی کو محسوس کیا جاسکتا تھا پھر بولے یاد رکھو۔ اللہ جب کوئی نعمت دیتا ہے تو وہ نعمت اپنے ساتھ نئے دوست لے کر آتی ہے۔ لیکن ہم نعمت کے ان دوستوں کو اپنا دوست سمجھ لیتے ہیں اور یہی شاید ہماری بے وقوفی ہوتی ہے۔ اس لیے جب یہ نعمت چلی جاتی ہے تو یہ اپنے دوست بھی ساتھ لے جاتی ہے۔ ہمارا اصل کمال یہ ہے کہ ہم ان نعمتوں کے دوستوں کو ان نعمتوں کا ہی دوست رہنے دیں۔ ان کو کبھی اپنا دوست نہ بننے دیں تو زندگی میں کبھی مایوسی کا احساس نہیں ہوگا۔ یاد رکھو آپکے عہدے، آپکی دولت، آپکی کار، آپکے کاروبار اور اللہ کی بے شمار نعمتوں کی وجہ سے بننے والے دوست آپ کے نہیں بلکہ آپکو عطا کردہ نعمتوں کے دوست ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اپنے دلوں تک نہ پہنچنے دو تاکہ جب یہ چھوڑ جائیں تو آپ کو دکھ نہ ہو۔

میں نے غور سے اباجی کو دیکھا تو محسوس ہوا کہ انہیں دوستوں کی محرومی کا تو احساس ہے لیکن ان سے بچھڑنے کا دکھ نہیں ہے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حقے اور فون والے دوست دیر پا نہیں ہوتے۔ ابا جی تو یہ بات بتا کر خاموش ہو گئے۔ مگر سوچنے لگا کہ عہدوں اور رتبے کی وجہ سے عزت کرنے والے عہدوں اور رتبوں کے ساتھ ہی رخصت ہو جاتے ہیں۔ میرے ایک دوست تقریباََ چالیس سال سعودیہ میں رہے جب وہ کبھی چھٹی پر تشریف لاتے تو ان کا ستقبال دیدنی ہوتا۔ ان کی آمد کا اعلان ہوتا گھر گھر دعوت کا اہتمام کیا جاتا۔ ان کی زیارت کو ثواب سمجھا جاتا اور توقع کے مطابق اپنے اپنے تحائف بھی وصول کئے جاتے۔ پورا خاندان اور دوست پھولوں کے ہار اور محبتو ں کے گلاب نچھاور کرتے نظر آتے۔

جب وہ چھٹی گزار کر رخصت ہوتے تو پورا خاندان اور دوستوں کا ہجوم آنسووں سے انہیں رخصت کرنے ریلوے اسٹیشن یا بس اسٹینڈ پر جمع ہوتا اور بڑی حسرت سے جدائی کا صدمہ برداشت کرتے تھے۔ وہ موصوف بھی اپنے چاہنے والوں کی تعداد پر ناز کرتے تھے۔ پھر ایسا ہوا کہ ایک مرتبہ وہ رئٹائرمنٹ کے بعد مستقل واپس آئے تو حالات مختلف تھے اب نہ تو کوئی ملنے جاتا ہے اور موصوف بھی اپنے چاہنے والوں کے منتظر ہی رہے۔ نہ کوئی ان کی زیارت کو آتا ہے اور نہ دعوت کرتا ہے۔ اب وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گوشہ نشین ہیں۔ یہ سب سعودیہ کی برکات کی وجہ سے ان کے قریب تھے۔

میرے کئی بڑے بڑےرئٹائرڈ دوست افسران تو اس سلوک کی وجہ سے ڈئپریشن کا شکار ہو چکے ہیں کہ لوگ اب ان کو وہ اہمیت کیوں نہیں دیتے؟ کاش ان کو بتایا جا سکے کہ یہ حقے والے دوست تھے اور اب آپ کے پاس وہ حقہ نہیں رہا جو انہیں آپ کی جانب کھنچ رہا تھا۔ تنہائی یا اکیلا پن عجیب چیز ہے ہم سب بھی کبھی نہ کبھی اس کیفیت سے دوچار ہوں گے۔

آج دنیا بھر میں تنہائی بحث کا بڑا موضوع بن چکی ہے۔ تنہائی کا مطلب اکیلا پن محسوس کرنا نہیں بلکہ اس کا مطلب ہے دوسرے آپ سے تعلق اور ربط میں کمی کردیں اور آپکو یہ احساس دلائیں کہ اب آپ ان کے کام کے نہیں رہے۔ حالانکہ کہ وہ لوگ جو اپنی بھرپور زندگی گزار چکے ہیں۔ ہماری توجہ اور وقت کے بہت زیادہ مستحق ہوتے ہیں کیونکہ ان کے حقے والے دوست اب ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔

کیا کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ ہمارے یہ انفرادی اور اجتماعی سماجی رویے ہمیں اور ہمارے معاشرے کو کس قدر نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ہم میں خلوص، مروت، لحاظ، مدد کا جذبہ، نیکی کی خواہش، خدا کی رضا مندی اور انسانیت کا مقام سبھی کچھ حاصل کرنے کی تمنا ختم ہوتی جارہی ہے۔ اب ہم صرف اپنے لیے جینے لگے ہیں۔ اپنے مفادات تک تعلق رکھتے ہیں۔ ہم یہ نہیں سوچ رہے کہ اگر کبھی ہم اس مشکل میں ہوے اور پھر کسی ہم نفس انسان نے ہمارے ساتھ بھی یہ رویہ اختیار کیا۔ تو ہمارے دل پر کیا گزرے گی کیونکہ تنہائی اداسی کی وجہ بنتی ہے اور اداسی ڈیپریشن میں بدل جاتی ہے۔

معمر اور بوڑھے افراد بیماری اور عدم توجہی کے سبب تنہائی محسوس کرتے چلے جاتے ہیں آج کے دور میں بوڑھوں میں سماجی تنہائی کا ایک بڑا سبب عام لو گوں میں سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال بھی ہے جہاں نوجوانوں کی توجہ انسانوں سے زیادہ اپنے موبائل پر مرکوز ہو چکی ہے اور وہ الگ تھلگ رہنا پسند کرتے ہیں اور حقیقی زندگی سے دور ہوتے چلے جاتےہیں ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی ورنہ ہم سب نے بھی انہیں مراحل سے گزرنا ہےجب حقے والے دوست ہمارا ساتھ چھوڑ جائیں گے۔

Check Also

Bhai Sharam Se Mar Gaya

By Muhammad Yousaf