Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaara Mazhar/
  4. Bha Lodhi

Bha Lodhi

بَھا لَودِھی

ہمارے پرائمری سکول کی خوشگوار یادوں میں ایک ٹھنڈی ٹھار نہرِ کوثر جیسی شخصیت بھا لودھی کے نام سے ہے۔ ہمارے پرائمری سکول کے عین سامنے فائر بریگیڈ کا چھوٹا سا اسٹیشن تھا۔ جس میں چار یا چھ لال رنگ کی چمکتی دمکتی گاڑیاں کسی بریگیڈ ہی کی طرح ہمہ دم بڑے طمطراق سے کھڑی رہتی تھیں۔ اس وقت تو ہم کم تعلیمی استعداد رکھتے تھے نہ پاس الفاظ کا ذخیرہ تھا نہ برتنے کا ہنر اس لئے اسے " فائر بریگیڈ دا حاطہ " کہتے تھے۔

اسکولز میں عام بول چال کی آپسیں زبان صرف پنجابی تھی۔ البتہ ٹیچرز سے اور ٹیچرز کے سامنے اردو ہی بولی جاتی تھی۔ فائر اسٹیشن کی وہ گاڑیاں کبھی ہمارے لئے اہم نہیں رہی تھیں۔ کیونکہ انہیں روز دیکھنے کی عادت تھی، ایک سائیڈ پہ دو نیچی چھت کے کمرے بنے تھے، ایک یقیناً ورکرز کا ریسٹ روم ہوگا دوسرا ریکارڈ روم۔ پچھلی دیوار پہ پانی کے موٹے موٹے نل لگے تھے، جن کا پریشر کسی ٹـیوب ویل کی طرح پانی پھینکتا تھا۔

روز تو نہیں کبھی کبھار آگ بجھانے بھی جاتی تھیں، کئی بار تفریح کے وقت دیکھا کہ عملہ جلدی جلدی دو چار گاڑیاں نکال رہا ہوتا یا کبھی واپس آ رہا ہوتا چھ ایک ساتھ کبھی نہیں گئیں کبھی اپنے مشن سے واپسی بھی موٹے پائپ سے پریشر سے پانی بھرتے بھی دیکھا تب ہم سوچتے کہ اگر یہ پریشر کسی بچے پہ مارا جائے تو وہ پریشر کی رفتار سے سـڑک پہ پھسلتا ہوا دور نکل جائے گا۔

سکول کے آگے چپ چاپ کھڑی رہنے والی لال گاڑیوں کی وہ اہمیت نہ تھی۔ جو سڑک پہ چنگھاڑتی ہوٹر سے شور مچاتی اپنے لئے راستہ کاڑھتی گاڑیوں کی ہوتی ہے، یہ گاڑیاں گروپ میں چلتی ہیں۔ دو تین چار یا چھ سیچویشن کے مطابق سنا ہے۔ ایمرجنسی میں انہیں سات خون معاف ہوتے ہیں وللہ اعلم گھنٹہ گھر چوک کی طرف سے آئیں تو چوک نیائیں سے بائیں کو مڑنے پہ بیس پچیس قدم لینے پہ ہمارا پرائمری سکول اور فائر بریگیڈ کا اسٹیشن آمنے سامنے تھے۔

چوک نیائیں سے دائیں بائیں بوائز اور گرلز کی گورنمنٹ سکولز کی متعدد عمارتیں تھیں۔ جن سب کا سنگم یہ چوک تھا اور چند دائیں قدموں پہ نوشہرہ روڈ اور بائیں قدموں کے فاصلے پہ وسیع اردو بازار کے چوک، گلیاں، ذیلی گلیاں اور گلیارے نکلتے ہیں۔ اور چوک سے ایک سڑک شیرانوالہ باغ کو جاتی ہے تفصیل بیان کرنے کا مقصد یہ کہ کام کاج کے اوقات میں کھّوے سے کھّوا چِھلتا تھا۔

چھٹی کے وقت اتنا رش ہو جاتا کہ نیائیں چوک کا چورستہ بلاک ہوجاتا گرمیوں میں کھلی دھوپ میں کئی نازک مزاج بچے رش اور گرمی سے بیہوش بھی ہو جاتے۔ ہمارے سکول کے سامنے اگر میرا تخیل صحیح فاصلہ ماپ رہا ہے بمشکل بیس فٹ کی سڑک کراس کر کے یہ اسٹیشن تھا، اور سٹیشن کے عین سامنے بھا لودھی شربت، سکجبین والا۔

ہمارا موضوعِ سخن بھا لودھی پچاس یا پچپن سالہ بھاری جسامت کا شخص تھا، سر پہ ایک سفید ملگجا سا ٹویرے کا صافہ ایک صدری اور دھوتی پرائمری سکول کے تمام سالوں میں یہ تین کپڑے بھا لودھی کا لباس تھے۔ ریڑھی پہ ایک سرخ پلاسٹک کی صاف ستھری شیٹ صبح جب ہم سکول میں داخل ہوتے تو وہ جگہ خالی ہوتی، جانے بھا لودھی اس مخصوص جگہ پہ کس وقت آتا ہمیں کبھی علم نہیں ہوا۔

جب گیارہ بجے بریک ہوتی تو سکول کا بڑا گیٹ آدھے گھنٹے کے لئےکھول دیا جاتا متعدد خوانچے والوں کے ہجوم میں بھا لودھی اپنے تخت شاہی پہ متمکن ہوتا بچے کمان سے چُھوٹے تیر کی طرح سیدھا بھا لودھی کی ریڑھی پہ حملہ آور ہو جاتے وہاں ریڑھی پہ دو بڑے بڑے پتیلے ہلکی سی زرد رنگی شکنجبین سے لبریز ہوتے پتیلوں کے گرد لال موٹی ٹھنڈی کاٹن کا گردا گرد لپٹا ہوتا پتیلوں کی سطح پہ برف کے بلاک اور نچوڑے ہوئے لیموؤں کے چھلکے تیرتے رہتے۔

اور ارد گرد سکنجبین کی فرحت انگیز بلکہ پیاس انگیز خوشبو مشام جان کو معطر کرتی ریڑھی پہ لال رنگ کے پلاسٹک کی صاف ستھری شیٹ اور دو سے تین درجن شیشے کے اوندھے گلاس سجے ہوتے۔ فائیر بریگیڈ کی لال گاڑیاں اور بھا لودھی کی لال ریڑھی آپس میں اتنی گڈ مڈ تھیں، کہ ایک دوسرے کا اٹوٹ انگ لگتیں۔ اب سوچتے ہیں دونوں کا تال میل یکساں ہی تھا دونوں ہی بھڑکتی آگ اور بھڑکتی پیاس بجھاتے تھے۔

پیاسے بچے ریڑھی پہ دھاوا بول دیتے گلاس خود ہی اٹھا لیتے اور چنمناتی آوازوں میں پیاسا پیاسا سا شور کرتے بھا لودھی مینوں وی۔ بھا لودھی مینوں وی (یعنی بھا لودھی مجھے بھی)۔ بھا لودھی اپنے ملگجے تھری پیس سوٹ ملبوس میں ایک بادشاہ کی سی شان سے ٹھنڈی میٹھی مسکراہٹ کے ساتھ بڑھے ہوئے گلاس پوّے سے بھرے جاتا پاس ہی ایک تیسرا پانی سے بھرا پتیلہ جھوٹے گلاس رکھنے کے لئے تھا۔

ایک چھوٹا ڈبکی دے کے گلاس واپس اسی قطار میں سجاتا جاتا یہ تمام کام 440 وولٹ کی سی تیزی سے انجام پاتے جن بچوں کے پاس پیسے ہوتے وہ پیسوں سے پیتے جن کے پاس نہ ہوتے وہ بنا پیسوں کے داؤ لگا کے پیتے اس برق جیسے وقت میں بھا لودھی کے ہاتھ مسلسل مصروف ہوتے کہ پیسے پکڑنے یا گننے کی بھی فرصت نہ ہوتی پینے والا خود ہی ریڑھی پہ پھینک دیتا آدھے بچے داؤ بھی چلا لیتے لیکن بھا نے کبھی کسی بچے کو ڈانٹا نہ پکڑا۔

بس ایک دھیمی مسکراہٹ اس کے چہرے کا احاطہ کئے رکھتی جیسے زندگی کا مصرف پیاسوں کو سیراب کرنا ہو۔ گورنمنٹ سکولوں کے اس گڑھ میں تمام سکولز کے لڑکے چھٹی کے وقت بھی جمع ہوجاتے اور پڑھائی کی مشقت سے تھک کے سیراب ہوتے ہوئے اپنی اپنی سائیکلوں پہ یا پیدل ہی اپنے گھروں کو روانہ ہو جاتے۔ اس ہجوم میں اردو بازار کے کئی مزدور اور پیاسے راہگیر بھی شامل ہوجاتے ابھی زمانے کی رفتار میں وہ وقت چل رہا تھا۔

جس میں سکول وینز کا رواج نہیں تھا اور ہائی سکول کی لـڑکیوں کا ریڑھیوں پہ کھڑے ہو کے کھانا پینا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ لیکن پھر بھی ہمارے تمام بہن بھائیوں نے وہ مشروب پی رکھا ہے۔ اس شدت بھری دوپہر میں سنکجبین کی شدید پیاس جگی تو یہ ساقی شدت سے یاد آیا آج کا یہ جام اس مہربان کے نام یقیناً اب جنت میں مکین ہوگا اور حوضِ کوثر کے قریب کہیں ہمارا منتظر ہوگا رب مغفرت فرمائے۔۔

Check Also

Karachi Bacha Jail Mein Aik Din

By Muhammad Saqib