Wednesday, 15 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Xaha Islam/
  4. America Mein Juram Aur Aqoobat Khane

America Mein Juram Aur Aqoobat Khane

امریکہ میں جرائم اور عقوبت خانے

ریاستہاۓمتحدہ میں 1600 کے آغاز سے جرائم رپورٹ ہونا شروع ہوچکے تھے اور انکی شرح وقت کے ساتھ کم و بیش ہوتی رہی ہے تاہم انکی شرح میں ایک معمولی اور سنگین اضافہ 1900 اور 1970 کی دہائیوں میں دیکھنے کو ملا جبکہ 1991 کے بعد یہ شرح ہر سال کم ہوتی گئ البتہ جرائم کی شرح میں یہ کمی 2015 تک امریکہ کی تاریخ کا خاصہ رہی مگر اسکے بعد جرائم میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور 2018 سے 2019 میں یہ اضافہ شدت اختیار کر گیا۔ سنگین نوعیت کے کرائمز جیسا کہ قتل و غارت، ریپ، حملے اور لوٹ مار 2020 میں غیرمعمولی حد تک رپورٹ ہوۓ۔

فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن کے سالانہ یونیفارم کرائم رپورٹ اور بیورو آف جسٹس سٹیٹکٹس کے سالانہ نیشنل کرائم وکٹیمائزیشن سروے کے مطابق 2020 میں سنگین نوعیت کے جرائمز جیسا کہ قتل کی شرح 6۔ 5، ریپ 38۔ 4، رابری 73۔ 9 اور حملوں کی شرح 279۔ 7 ریکارڈ کی گئی جبکہ پراپرٹی کرائمز کی شرح 1958۔ 2 رپورٹ ہوئی۔

امریکہ میں ایف بی آئی کے مطابق کرائمز کی فہرست میں دو طرح کے وائیلنٹ اور پراپرٹی جرائمز آتے ہیں جیسے ہی ایک جرم سرزد ہوتا ہے تولاء انفورسمنٹ ایجنسی اس کی تفتیش کے مراحل میں سب سے پہلے مجرم، مظلوم، جرم، جرم کی نوعیت اور شدت وہ جگہ جہاں جرم سرزد ہوا سے متعلق معلومات اکٹھی کرتی ہے اور یہ معلومات انسیڈنٹ رپورٹ کہ لاتی ہے جسے پولیس اپنی اریسٹ رپورٹ میں ریکارڈ کرتی ہے اور پھر گورنمنٹ کو جرم کی صورتحال سے آگاہ کرنے کے لئے اس رپورٹ کو بھیج دیا جاتا ہے تاکہ سر زد ہونے والا جرم باقاعدہ طور پر ایک سسٹم میں درج ہو جائے اور قانون ساز ادارے اس پر مزید کام کرکے اس کے خلاف ایک مضبوط لائحہ عمل کو تشکیل دے دیں۔

ریاست ہائے متحدہ میں دنیا کے سب سے زیادہ عقوبت خانے ہیں جہاں ملزم اور مجرم دو طرح کے قیدی شامل ہیں یہ عقوبت خانے مجرموں کو پابند سلاسل کر کے سزا یافتہ کرتے ہیں اور مجرموں کو آئندہ کے لئے جرم کا ارتکاب کرنے سے روکنے کا ذریعہ ہیں ریاست ہائے متحدہ میں دنیا کے سب سے زیادہ قیدی پائے جاتے ہیں اور اسی لیے یہاں جیلوں کی تعداد زیادہ ہے امریکہ میں ہر پانچ میں سے ایک شخص قیدی ہے اور یہاں جیلوں اور متعلقہ اداروں سے سالانہ 81 بلین ڈالر اکٹھا کیا جاتا ہے جب کہ پولیس، کورٹ فیس، ضمانت اور ٹیلی فونک وصولی چارجز وغیرہ سو بلین ڈالر کی لاگت کے واجبات گورنمنٹ کی آمدن کا ذریعہ ہیں۔

ریاست ہائے متحدہ میں کریمنل لاء بیک وقت ایک فرض اور حکمت عملی ہے ایسے افراد جو علاقائی یا اسٹیٹ کے خلاف آرڈرز کی رو گردانی کرتے ہیں انہیں اسٹیٹ یا پھر ٹیریٹوریل جیل خانوں میں بند کردیا جاتا ہے اور دوسرے وہ لوگ جو یونائیٹڈ سٹیٹ فیڈرل لاء کی خلاف ورزی کرتے ہیں انہیں فیڈرل کی جیلوں میں رکھا جاتا ہے جو فیڈرل بیورو آف پرائزن آپریٹ کرتی ہے۔ فیڈرل کورٹ جب سزا کا تعین کرتی ہے تو ججزمجرموں کے لئے جیل میں قید خانوں کی برانچ منتخب کرتے ہیں کہ کونسا قیدی کس برانچ کے جیل خانے میں جائے گا اور یہ طریقہ کار فیڈرل کے ورکرز کے لیے سہولت پیدا کرتا ہے کہ کس کے قیدی کو کون سی سہولتیں میسر ہونگی اور کس سزا والے یونٹ اس کو بھیجنا ہوگا۔

یہاں ایک قیدی کو کسی ایک جیل کے لئے منتخب کرنے میں ایڈمیشن کمیٹیز کا طریقہ کار بھی متعارف کرایا جاتا ہے جو کہ ایک دوسرا طریقہ کار ہے اس طریقے میں جیلوں میں بہت سے شعبہ جات کے افراد کے طلب کیۓ جاتے ہیں جو کہ ایک قیدی کیلئے بطور کیس مینیجر، سائیکالوجسٹ اور سوشل ورکر کے طور پر تعاون فراہم کرتے ہیں اور اس قیدی کی ہسٹری کو سامنے رکھتے ہوئے کسی ایک عقوبت خانے کے سیل، یونٹ یا ہاؤس کو منتخب کرتے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ اس حقیقت کی ترجمانی کرتا ہے کہ ریاست ہائے متحدہ میں جیلوں کی بڑی تعداد افراد، فیملی سسٹم اور معاشرے کو بغاوت پر اکساتی ہے اور لوگوں کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ عدالتی انصاف کے طریقے کار کا یہ نظام بھی بیشتر دیگر وجوہات کی بنا پر تنقید کی زد میں ہے۔

امریکی جرنلسٹ نے اپنی بک دی ڈیوائیڈ:امریکن ان جسٹس ان دی ایج آف دی ویلتھ گیپ میں دلائل دیے تھے کہ بڑھتی ہوئی غربت اور غربت کا شکار ہونے والے مجرم امریکا میں بڑھتے ہوئے قیدخانوں کی تعداد میں ایک عندیہ ہیں اور سکالر مائیکل میرنزے نے ان دی ہسٹری آف سیویلائزیشن میں کہا کہ ایک ایسی ریاست جو بڑی تعداد میں عقوبت خانے قائم کرتی ہے جو جمہوریت کو مسخ معاشرے کی اقدار کو ختم اور مجرمانہ سزا کے بامقصد تصور کو تباہ کر دیتی ہے جبکہ بہت سے دوسرے مفکرین اور جرنلسٹ نے امریکا کے ان لا تعدادعقوبت خانوں پر مزید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا جیل کا یہ نظام عامرانہ ریاست کی متعصب سوچ کو ظاہر کرتا ہے۔

Check Also

Bilawal Bhutto Ki Baaten To Durust Hain Magar?

By Haider Javed Syed