Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Wasim Qureshi
  4. Pakistani Siah Sat

Pakistani Siah Sat

پاکستانی سیاہ ست

یہ تقریباً چودہ پندرہ سال پہلے کی بات ہے۔ ایک شخص موٹر سائیکل پر سوار ہو کر اکیلا ہی اپنی الیکشن کمپین کیا کرتا تھا۔ اس کے پاس ایک عدد سپیکر ہوتا تھا اور تھوڑے سے اشتہار ہوتے تھے، موٹر سائیکل کے آگے چھوٹا سا بینر آویزاں کیے یہ شخص جگہ جگہ لوگوں کو کہتا تھا یہ سردار وڈیرے سب چور ہیں یہ اس ملک کو بھی لوٹ کر کھا گئے اور اس شہر کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ خود ہیں۔

ایم پی اے کا الیکشن لڑنے والے اس شخص کے پاس یہ موٹر سائیکل، ایک سپیکر اور کچھ اشتہار ہی کل اثاثہ تھے۔ سابق ایم پی اے کے بڑے دفتر کے سامنے اپنی موٹر سائیکل کھڑی کر کے سپیکر میں کہا کرتا تھا کہ انہوں نے آج تک ہمارے لیے کچھ نہیں کیا۔ یہ ہمیں انسان نہیں جانور اور کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں۔ سرداروں کے علاقے میں جا کر، پہاڑوں پر جا کر یہ شخص جراءت کے ساتھ اپنی بات کہتا تھا البتہ اسے سننے والا کوئی نہیں تھا مگر اس پر قہقہے لگانے والوں کی بہت بڑی تعداد تھی۔

کبھی سرداروں کے چمچے اس کی پٹائی لگاتے تھے تو کبھی طاقت ور سیاستدانوں کی ایک کال پر پولیس والے اسے گرفتار کر کے تھانے لے جاتے تھے۔ یہ رہا ہوتے ہی یا پٹائی کے بعد ہوش میں آتے ہی دوبارہ اپنی کمپین شروع کر دیا کرتا تھا۔ میں تب چھوٹا تھا لیکن یہ سب مجھے آج بھی یاد ہے۔ جب یہ ہماری سڑک پر آتا تو سارے بچے اس کے ارد گرد جمع ہو جاتے تھے اور نعرے لگاتے "آئی آئی بکری آئی"۔ بکری اس کا انتخابی نشان تھا۔

بچے اس پر مسکراتے تھے کیوں کہ یہ شخص توتلا تھا۔ لیکن پھر بھی بچوں کی موجودگی شاید اسے حوصلہ دیتی تھی کہ کوئی تو اسے سننے والا موجود ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں سیڑھیوں پر بیٹھا ہوا رو رہا تھا کہ اس انکل کے پاس یہ موٹر سائیکل، ایک عدد سپیکر اور چند اشتہار ہیں اس کے سوا کچھ نہیں اور سب لوگ اس پر ہنس رہے ہیں جب کہ دوسری جانب گاڑیوں کی لمبی قطاریں، لوگوں کا جم غفیر، کمپین کرنے والی ٹیمیں، بڑے بڑے دفتر، جلسے جلوس، چوبیس گھنٹے چائے اور لنگر کا اہتمام۔

ایک طرف وہ دفتر تھے جہاں الیکشن لڑنے والے صرف الیکشن کے دنوں میں نظر آتے تھے لیکن ان کی غیر موجودگی میں لوگ چوبیس گھنٹے ان کے آنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ دوسری جانب الیکشن لڑنے والا ایک غریب شخص خود چل کر گلی گلی اپنی کمپین کر رہا تھا۔ ترقی یافتہ ممالک میں لوگ اس شخص کو اہمیت دیتے اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج اس سطح پر کھڑے ہیں جہاں غریب کی نمائندگی بھی وہ امیر زادے کرتے ہیں جو ہمارے مسائل سے واقف نہیں ہیں۔

دوسرے ممالک میں اس شخص کی ہمت، حوصلہ، جراءت، خود داری، بہادری، محنت، جدوجہد اور عزائم دیکھ کر اس کا انتخاب کیا جاتا مگر کیوں کہ وہ پاکستان میں سانس لے رہا تھا اسے الیکشن میں صرف اور صرف تین ووٹ ملے تھے۔ نام بھول گیا ہوں شاید شیخ حکیم قریشی یا اسی طرح کا کوئی نام تھا۔ تب میرا ووٹ نہیں تھا اگر آج وہ شخص الیکشن لڑتا تو میں اسے ووٹ دیتا اور اس کے ساتھ کمپین بھی کرتا۔ کسی دوست سے پوچھا کہ تمہارے علاقے کا فلاں شخص تھا وہ کہاں گیا؟"وہ تو کئی سال پہلے وفات پا گیا"۔

ایسے لوگ مٹی کے نیچے ہی چلے جاتے ہیں کیوں کہ اس مٹی کے اوپر ان لوگوں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ آج میرا ووٹ ہے مگر نہ تو وہ شخص ہے نہ اس جیسا کوئی اور شخص میرے سامنے موجود ہے۔ ہم عام آدمی ہو کر بھی عام آدمی کا انتخاب نہیں کرتے، سب سے بڑے منافق تو ہم خود ہیں اور ہم آج جہاں کھڑے ہیں ہم اس کے حق دار ہیں۔ ہمیں اب اس سجاوٹ اور لنگر والی سیاست سے باہر آنا ہو گا۔ یہ الیکشن کے چند دنوں میں جو چائے اور کھانا آپ کو ملتا ہے اس کے بدلے اگلے پانچ سال تک آپ پر سانسیں تنگ کر دی جاتی ہیں۔ ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہو گی۔

Check Also

Lucy

By Rauf Klasra