Mere Dil Ki Baatein Suniye
میرے دل کی باتیں سنیے
اچھا لگتا ہے جب والدین اپنے بیٹے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ دو دن پہلے والد صاحب "قطرہ قطرہ قلزم" کی صدارتی کرسی پر تشریف فرما تھے تو کسی نے سوال پوچھا کہ قریشی صاحب مختصر وقت میں یہ سب؟ آپ کیا کہتے ہیں وسیم اس راہ میں یہاں تک کیسے؟ ابو نے کہا "پہلے تو اللہ تعالیٰ کا کرم ہے اور پھر دوسری بات کہ یہ جب کسی کام میں لگتا ہے تو دن رات ایک کر دیتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں پاگل اور جنونی شخص۔
ابھی اس کے منہ سے سن رہے ہوتے ہیں کہ فلاں کام بھی کریں گے ان شاءاللہ۔ اور تین دن بعد ہی اس کی ویڈیو آ رہی ہوتی ہے کہ وہ کام یہ ٹیم کر چکی ہے۔ نہ اسے کھانے پینے کا ہوش رہتا ہے نہ آج کل یہ اپنے کپڑوں پر توجہ دیتا ہے ورنہ ایک دن میں تین چار تو سوٹ تبدیل کرتا تھا۔ اتنی محنت جنون اور نیک نیتی کے بعد اللہ تعالٰی اسی طرح کامیابیاں عطا فرماتا ہے"۔ میں یہ سب سنتے ہوئے "الحمدللہ رب العالمین" کہہ رہا تھا۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا کرم ہے وہ محنت قبول کر رہا ہے وہ راہیں ہموار کرتا جا رہا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ لباس وغیرہ میں آج کل کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ ہاں صاف ستھرا لباس زیبِ تن کرنا الگ بات ہے مگر وہ آئے روز کی آؤٹنگ اور شاپنگ وہ کیے آٹھ ماہ گزر گئے ہیں۔ آپ دیکھیے نہ کہ میں صبح نو یا دس بجے پلیٹ فارم پر جاتا ہوں اور رات گیارہ، بارہ یا ایک بجے واپس آتا ہوں مگر الحمدللہ مجھے تھکاوٹ کا احساس تک نہیں ہوتا بلکہ آئے دن سب مجھے مزید انرجٹک دیکھتے ہیں۔
اس سے بڑھ کر اللہ کی عنایت یہ ہے کہ مجھے مجھ جیسے ہی سر پھرے جنونی ٹیم ممبرز سے نوازا ہے۔ اگر یہ کہوں کہ اس وقت ہم پندرہ لوگ وہ کام کر رہے ہیں جس کے لیے کم از کم 150 لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے تو یہ غلط نہ ہوگا۔ ہم اپنے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے چلتے رہتے ہیں۔ چغلی، غیبت، انا، تکبر، فساد اور لڑائی جھگڑے اللہ تعالیٰ نے سب سے محفوظ رکھا ہوا ہے۔ ہنستے مسکراتے ہوئے ہم سب ٹیم ممبرز لگے رہتے ہیں۔
اس سے بڑا کرم ایسے والدین اور بھائیوں کا ہونا ہے جن کی سپورٹ کے بغیر یہ سب کچھ ممکن ہی نہیں تھا۔ کئی لوگ کومنٹس میں سوال پوچھتے ہیں کہ آپ کا ذرائع آمدن کیا ہے؟ میں الحمد اللہ پلیٹ فارم پر ایک مزدور والینٹئر ہوں۔ آپ کے ذہن میں اگر یہ بات ہے کہ میرے اخراجات پلیٹ فارم برداشت کرتا ہے تو اس غلط فہمی کو دور کر لیجیے۔ اس وقت بہت سے ٹیم ممبرز کام کر رہے ہیں اور تقریباً سب کا کھانا میرے گھر سے آتا ہے۔ کبھی کبھار کوئی مجبوری ہو تو الگ بات ہے۔
ویسے جس فیملی سے باقاعدہ ایک پوری ٹیم کا کھانا آتا ہو اس فیملی کے ممبر سے یہ سوال پوچھنا کہ وہ روٹی کہاں سے کھاتا ہے؟ عجیب سی بات ہے۔ سیلاب زدگان کی مہم شروع کرتے وقت بھی میرے پاس ڈائپر کا بزنس تھا۔ عائزہ ہومفرٹ گرلز ہاسٹل بھی تھا جو میں نے تقریباً چار لاکھ روپے میں خریدا تھا۔ آن لائن اور فزیکل سیشنز میرا سب سے بڑا ذرائع آمدن تھا جو تب ختم ہوگیا لیکن اب آہستہ آہستہ پھر سے شروع ہوگیا ہے۔
لیکن خیر۔ ہمارے پاس اپنے شہر ڈیرہ غازی خان میں آٹھ پروڈکٹس کی ڈسٹری بیوشن ہے جس میں باقاعدہ شہزادی سیما کون مہندی میری ہے۔ مجھے بڑی سپورٹ یہ حاصل ہے کہ وہی گودام استعمال ہوتے ہیں وہی لڑکے اور وہی میرا بھائی یا والد صاحب اس کی بھی وصولی کر لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر یہ کہوں کہ اس شہر میں دوسرے نمبر پر چوڑیوں کا سب سے بڑا بزنس ہمارا ہے تو یہ بات غلط نہیں ہوگی۔
گھر کی تیسری منزل پر لاکھوں روپے کے پرندے ہیں۔ پہلے سے ایڈ اکثر لوگ اچھی طرح جانتے ہیں۔ میں اور میرا بھائی الحمدللہ قطرہ قطرہ قلزم کی باقاعدہ "پرماننٹ ڈونرز" کی لسٹ میں شامل ہیں۔ اس پلیٹ فارم پر اور بھی بہت کچھ ہے جو میری اور میری فیملی کی طرف سے ڈونیٹ کیا گیا ہے۔ سیلاب کے دنوں میں بھی سب سے پہلے ڈونرز ہم خود تھے اور جس دن رقم کم ہوتی تھی تو اپنی طرف سے رقم ایڈ کرکے گاڑی نکال دیتے تھے الحمدللہ۔
کھانے کے لیے کئی بار والدہ کو منع کیا ہے کہ پہلے ہی بہت سے لوگوں کا کھانا بنتا ہے ٹیم ممبرز کے لیے مت تھکائیں خود کو لیکن ان کا جواب تھا "اس طرح ہمارا یہ بھی حصہ ڈل جاتا ہے اور دستر خوان الحمدللہ مزید سے مزید وسیع ہو رہا ہے"۔ یہ میرے والدین کی تربیت اور قربانیوں کا ہی نتیجہ ہے۔ اس تحریر میں اپنے والدین اور بھائیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔