Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Wajid Bhatti/
  4. Maseehi Taleemi Idaron Ki Islahat

Maseehi Taleemi Idaron Ki Islahat

مسیحی تعلیمی داروں کی اصلاحات

آج ہم بات کریں گے اس مُلک کی سیمنریز اور فیس بُک پر موجود ڈاکٹرز کی جو کہ ایک وبا کی طرح وسعت اور تیزی سے پھیلتے نظر آتے ہیں۔ آپ کو فیس بُک اور حقیقی زندگی میں بہت سے ڈاکٹر ملیں گے۔ بُہت سے خدا کے نام پر دھوکے دینے والے ملیں گے جن کے پاس نہ مذہبی تعلیم ہے اور نہ دُنیاوی تاہم وہ پھر بھی اپنے نام کے ساتھ پاسٹر یا ڈاکٹر لکھتے اور استعمال کرتے نظر آئیں گے۔ اگر آپ اُن ڈاکٹرز سے صرف اتنا پُوچھ لیں کہ ایک اچھی تحقیق کے لیے کونسی چیزیں ضروری ہوتی ہیں تو حقیقت کھُل کر سامنے آ جائے گی۔ مُجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے پاس حقیقتاً بھیڑ کی کھال میں بھیڑیے موجود ہیں اور نا جانے ہمارے لوگ بھی ان بھیڑیوں سے کیوں دھوکہ کھا جاتے ہیں جبکہ ان کو پہچاننا اتنا مُشکل امر نہیں۔ آج اس طرف بھی غور کر لیجیے کہ پاکستانی سیمنریز کی اتنی بُری حالت کیوں ہے۔ اس کی عام مثال یہ ہے کہ یہاں چائے کے کپ کی بدولت بھی ڈگری مل جاتی ہے۔ یہ مسیحی تعلیمی ادارے HEC سے الحاق شُدہ نہیں ہیں اور نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کیوں کہ اس کے آپ کو اپنی قدر کے ساتھ ساتھ اعلیٰ پائے کی ریسرچ شو کرنے کی ضرورت پڑتی ہے، اس کے علاوہ اچھی یونیورسٹی کی ضرورت پڑتی ہے جہاں آپ کا کوئی جرنل ہو جس میں آپ اپنے مذہب کے بارے میں اچھی تحقیق اور منطقی بنیادوں پر بولتے نظر آئیں۔

ساتھ ہی ساتھ جن جرنلز میں ریسرچ شائع کی جائے اُن کی ریٹنگ سے معلوم ہو کہ وہ تعلیمی ادارہ کتنے معیاری ریسرچ پیپرز مُلکی سطح پر دیتا نظر آتا ہے۔ اس سے یہ امر سامنے آئے گا کہ پاکستان کی سیمنریز میں ریسرچ کا کیا پیمانہ ہے۔ پھر ان جرنلز کو مُخلتف اقسام کے لحاظ سے پرکھا جائے گا کہ آیا یہ w، y یا z کی category میں آتا ہے۔

اگریہ نہیں کر سکتےتو اپنے مسیحی تعلیمی اداروں میں ہی اپنی مذہبی تعلیم کی ڈگری کو متعارف کروا دیں جہاں سے یہ پاسٹرز اپنی ڈگری لیتے نظر آئیں۔ پر افسوس کی بات یہ ہے کہ شاید ایک بھی مسیحی سیمنری آج رجسٹر نہیں ہے۔ نا جانے یا کمیاں ہیں یا شاید ہم خود ہی انہیں رجسٹر کروانا نہیں چاہتے ہیں۔

آخر کیوں پاکستانی حکومتی ادارے اور اعوانوں میں بیٹھے وہ وزیر ایسے حساس معاملوں پر بات کرتے نظر نہیں آتے۔

افسوس کے ساتھ ہم آج تک ایک اچھا اور معیاری جرنل نہیں دے سکے جہاں پاکستانی مسیحی ریسرچ کو عالمی سطح پر متعارف کرایا جا سکے۔

یہ قوم تواس بات سے بھی نا واقف ہے کہ اگر آپ اپنی آواز اُٹھانا چاہتے ہیں تو اُس جرنل میں اپنے قلم کے ذریعے آپ اپنی مجبوریوں اور اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کو معاشرے تک پُہنچا سکتے ہیں۔ اس طرح پڑھے لکھے طبقے کو موقع ملے گا کہ وہ بھی اپنے دل کی بات اور جو اپنی کمیونٹی میں موجود محرومیاں اور خامیاں اُس جرنل میں بیان کر سکے۔ پر افسوس کا عالم یہ ہے کہ لوگ اُن پڑھے لکھے لوگوں کی بجائے اُن جھوٹے پادریوں اور ڈاکٹرز کا زیادہ یقین کرتے ہیں کہ جن کا مذہبی تعلیم کی ریسرچ سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے کیوں کہ زیادہ تر ناانصافیوں کو ہم مُسلمان کمیونٹی سے منسوب کرتےرہتے ہیں۔ ہمیں تعلیم حاصل کرنے سے تو کبھی مُسلمان بھائیوں نے منع نہیں کیا ہے۔ ہماری جگہیں بیچنے کا کبھی کسی مُسلم بھائی نے تو نہیں کہا کہ یہ چرچ بیچ دو۔ جبکہ ایسے سوداگر تو ہمارے ہی اندر موجود ہیں۔ ہم خود ہی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے نظر آتے ہیں۔ مسیحی قوم کی بدحالی کا سبب بھی اپنی تاریخ سے ناواقفیت ہے۔

شاید ان تلخ حقائق کی بنا پر میرے اپنے مُجھ سے خفا ہوں ہر یہ ایک اٹل حقیقت ہے آج ہمارے لوگوں کو سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ تعلیم پر دھیان دینے کے ساتھ ساتھ ریسرچ فیلڈ میں بھی قدم بڑھائیں اور چیزوں کو سمجھ کر اُلجھنوں کو سُلجھائیں۔ آج ہم اپنے ہی لوگوں کو سہی معنوں میں تعلیم نہیں دے پا رہے تو باہر جا کر کیا خاک بتائیں گے اور وہ بھی اُن لوگوں کو جو کبھی خود یہاں آ کر ہمیں تعلیم دیتے تھے۔ اگر بیرون مُلک جائیں بھی تو تبلیغ کرنے کے لیے نہ تو اتنا مواد اور ریسرچ ہے کہ ہم باہر والوں کو کُچھ اپنا یا اپنی کمیونٹی کا پیش کر سکیں۔

یہاں پر تو مسیحی بچوں کی تعلیم اور پرسیکیوشن کے نام پر گوروں سے فنڈز لیے جاتے ہیں اور جو کرنے والا کام ہے وہ یہ سیمنریز اور ڈاکٹرز کر نہیں رہے کیوں کہ جلدی امیر ہونے کا یہ ایک بہتریں شارٹ کٹ ہے۔

مُجھے پاکستان سے مُحبت ہے پر ہمارا معاشرہ جھوٹ پر ہی چلنے کا عادی ہے۔ افسوس یہ کہ لوگ پھر بھی سچ کو دیکھ کر مُنہ چھپاتے اور جھوٹ پر ہی اکتفا کرتےہیں۔ ان سب میں مَیں بھی اُتنا ہی شریک ہوں کہ جتنا آپ سب ہیں۔

Check Also

Ghalati Kis Ki?

By Hamza Bhatti