Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. The Leadership of Muhammad

The Leadership of Muhammad

دی لیڈرشپ آف محمد ﷺ

جون اڈیر پچاس بہترین کتابوں کے مصنف، دنیا کے چند بہترین بزنس لیڈرشپ میں ایک نمایاں قابلِ اعتماد نام اور بزنس لیڈرشپ کے پہلے برطانوی پروفیسر ہیں۔ بزنس اور لیڈرشپ کے متعلق انہوں نے ایک ریسرچ شائع کی جس میں پیغمبرِ اسلام سیدنا محمد ﷺ کی حیات طیبہ سے بہترین و اعلیٰ قائدانہ صلاحیتوں کا چناؤ کیا، جن کا کسی بھی لیڈر میں ہر صورت ہونا ضروری ہے۔ پھر دنیا بھر کی بزنس لیڈرشپ کمیونٹی کو انہی خصوصیات کی روشنی میں لیڈر بننا سکھایا۔

جون اڈیر نے پہلے پچاس خصوصیات کو چھانٹی کرکے الگ کیا، پھر ان میں سے ٹاپ ٹین یعنی دس سب سے بہترین خصوصیات کو منتخب کرنا چاہا جو جدید دنیا کے تقاضوں کے عین مطابق ایک لیڈر میں ہونی چاہیے، اس نے دنیا بھر سے محمد ﷺ کی سیرت حسنہ کی کتابوں کے ساتھ تنقیدی کتابوں کو بھی پڑھا، ایک مشکل مرحلے سے گزر کر وہ آخر کار گیارہ نمایاں اور سب سے بہترین خصوصیات کو دیگر خصوصیات سے الگ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس نے لکھا کہ یہ گیارہ نکات اتنے اہم ہیں کہ ان کے بغیر ایک بہترین لیڈر کا تصور نامکمن ہے۔

ان گیارہ نکات کو اس نے "محمد ﷺ کی لیڈرشپ کوالٹیز فار آل ٹائمز کے نام سے شائع کیا اور بزنس لیڈر شپ کے نصاب کا حصہ بنایا۔

آئیے جون اڈیر کے منتخب کردہ گیارہ نکات پڑھتے ہیں۔

1۔ دیانت دار اور قابلِ بھروسہ

جون لکھتا ہے کہ انہوں نے کسی بھی منصب پر فائز ہونے سے قبل اور اعلان نبوت سے پہلے، عرب کے اس معاشرے میں آہستہ آہستہ خود کو آئیڈیل شخص بنا کر رول ماڈل کے طور پر پیش کیا۔ وہ دیانت داری، اور حق گوئی میں اس قدر بہترین شخصیت کے طور پر ابھرے کہ قبل از اسلام مخالف قبائل بھی ان کی دیانت داری کے متعرف اور قائل تھے، لوگ ان پر حد درجہ اعتماد اور بھروسہ کرتے تھے، انہوں نے اپنی شخصیت کو کسی بھی معاملے میں متنازعہ نہیں بننے دیا۔ انکی پہلی خاصیت ان کا ہر معاملے میں کھرا پن تھا۔

2۔ ویژن یا اولین مقصد

وہ ایسے شخص تھے جنہوں نے کسی بھی سمت، ہدف اور مقصد کو متعین کرتے وقت اگر مگر کا سہارا نہیں لیا۔ بہترین حکمت عملی والا ذہن رکھتے تھے اور ہمیشہ اپنے اندر سے راہنمائی لیتے تھے۔ وہ کوئی بھی مقصد اس وقت تک لوگوں کے سامنے ظاہر نہ کرتے تھے جب تک اس کے تمام مثبت و منفی پہلوؤں اور دیگر جزئیات سے اچھی طرح واقف اور مطمئن نہ ہو جاتے تھے۔

3۔ شجاعت

وہ ہر قسم کی مصیبتوں کا مقابلہ ناقابل یقین بہادری کے ساتھ ڈٹ کر کرتے تھے، بے خوف و خطر صلاحیت کا اعتراف ان کے دشمن بھی کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ آزمائشوں اور پریشانیوں سے وہ کبھی بھی کسی صورت گھبراتے نہیں تھے۔

4۔ لیاقت و قابلیت

وہ اپنی صلاحیتوں اور قابلیتوں میں انتہا درجے کے ماہر تھے کہ جس مقام پر کھڑے ہو جاتے، یا جو کام بھی کرتے تو اسے ہر پہلو سے بہترین طریقے سے مکمل سر انجام دیتے تھے، اسے کبھی بھی ادھورا نہ چھوڑتے تھے، اس کام کرنے کی صلاحیت میں ان کا کوئی بھی ثانی یا مدمقابل نہ رہتا تھا۔ دیکھنے والوں پر اس چیز کا ایک گہرا اثر ہوتا تھا۔

5۔ منصفانہ اور عادلانہ رویہ

بات چیت اور دیگر معاملات میں مسلم اور غیر مسلم، اپنے یا پرائے کے درمیان فرق کرنے کے قائل نہ تھے، یعنی اگر مسلم اور غیر مسلم میں کوئی واقعہ رونما ہو جاتا تو فیصلہ حق اور انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق کرتے نہ کہ جانبداری سے کام لینے والے تھے۔

6۔ فیصلہ کن شخصیت

وہ فیصلہ کرتے ہوئے کبھی بھی گومگو کیفیت یا ادھورے فیصلے کرنے کے قائل نہیں تھے، نہ ہی دو کشتیوں کے سوار ہوتے تھے۔ وہ ہمیشہ واضح اور ٹھوس فیصلہ کرتے اور اپنے فیصلوں کو اپنے اصحاب کی مشاورت سے مستحکم کرتے تھے۔

7۔ منفرد عملی قیادت

وہ قول و فعل میں اس درجہ تک پکے اور باعمل تھے کہ جو کہتے تھے اس پر پہلے خود عمل پیرا ہو کر مثال قائم کرتے تھے۔ وہ مزدوروں اور آزاد کردہ غلاموں کے شانہ بشانہ کام کرتے تھے۔ وہ عمل کے بغیر صرف لفظی تقریروں کے کبھی بھی قائل نہیں رہے تھے۔ کردار کے بغیر گفتار ان کے نزدیک عیب تھا۔

8۔ حکمت و دانائی

وہ اپنے گہرے مشاہدے، علم اور تجربے کی بنیاد پر کسی بھی منظر کو آخری حد تک واضح دیکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ وہ کسی بھی آنے والی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ہمیشہ پہلے سے طویل مدتی منصوبہ بندی کر لیتے تھے۔

9۔ صبر و درگزر

وہ انتہائی لچکدار اور صابر شخص تھے، انتقام لینے کی بجائے معاف کرنے پر یقین رکھتے تھے۔ صبر کرنے کی صلاحیت کے باعث وہ ہر طرح کے ماحول کے مطابق خود کو ڈھال لیتے تھے۔

10۔ ہمدرد اور گرم جوش رویہ

لطیف دل، نرم و حلم گفتگو، دوسروں کی باتوں کو سراہنے اور کھل کر تعریف کرنے والے، ملتے وقت مسکراہٹ کے ساتھ گرم جوشی کا اظہار کرتے۔ اپنے مقابل کو غور اور توجہ سے سنتے تھے۔ اور اپنی بات دوسروں پر واضح کرنے پر حد درجہ قادر تھے۔

11۔ روحانی و جذباتی ذہانت

ہمیشہ روحانی و جذباتی ذہانت کے تحت عقلی دلائل کے ساتھ معاملات کو حل کرنے، امید جگانے، اور بامعنی و بامقصد زندگی گزارنے کے لیے لوگوں کو متاثر کن حد تک قائل کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔

Check Also

Ghair Yahudion Ko Jakarne Wale Israeli Qawaneen (1)

By Wusat Ullah Khan