Sudhaye Hue Ghore
سدھائے ہوئے گھوڑے
گئے وقتوں کی بات ہے کہ جب پہلی دفعہ کراچی، کلفٹن کے ساحل پر گھومنے کی غرض سے گیا، تو ساحل پر چند لوگ دیکھے جن کے ہاتھ میں سجے سنورے، گھوڑوں کی باگیں اور اونٹوں کی نکیلیں تھی۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ چند روپوں میں ساحل پر گھڑ سواری یا اونٹ سواری کرواتے ہیں۔ سوچا کہ چلو جب کلفٹن آ ہی گئے ہیں تو کیوں نہ گھوڑے یا اونٹ پر سواری کا مزہ لیا جائے۔
خیر قرعہ گھوڑے کے نام نکلا، تو گھوڑے والے سے معاملات طے کیے، اس نے بتایا کہ گھوڑا یہاں سے وہاں مخصوص ایک جگہ تک لے کر جائے گا اور واپس لائے، گا شرطیہ گھوڑا آپ کو گرائے گا نہیں، بلکہ اس سواری سے آپ لطف اٹھائیں گے۔
میں دل ہی دل میں اس شخص کی بیوقوفی پر ہنسا کہ دیکھو گھوڑے کی باگ میرے ہاتھ میں دے کر کہہ رہا ہے کہ وہاں مخصوص جگہ تک جا کر گھوڑا واپس آجائے گا، میں تو بیٹھتے ہی ایسی ایڑ لگاؤں گا کہ گھوڑا ہوا سے باتیں کرتا ہوا اتنی دور نکل جائے گا کہ مالک اور لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل ہوجائے گا۔
خیر باگ کو ہاتھوں میں تھاما، پاؤں رکاب میں جمائے اور کاٹھی پر بیٹھ کر جیسے ہی ایڑ لگائی تو گھوڑا اپنی مرضی کی سست سی چال میں چلنے لگا۔
میں نے بہتیری کوشش کی مگر وہ مریل سی چال میں چلتا ہوا اسی مخصوص مقام تک پہنچ کر رک گیا جہاں کا اشارہ گھوڑے کے مالک نے کیا تھا۔ اس جگہ پر پہنچ کر وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوا بلکہ واپسی کے لیے اپنا پورا زور لگانے لگا۔ اور بالآخر گھوڑے نے وہیں سے پلٹ کر واپس چلنا شروع کر دیا۔
جیسے ہی گھوڑا واپس مالک کے پاس پہنچا تو میں نے اترتے ہوئے کہا "جناب گھوڑا نہ تو تیز بھاگا اور نہ ہی آپ کی بتائی ہوئی جگہ سے ایک انچ بھی آگے بڑھا، حالانکہ آپ ساتھ بھی نہیں تھے، یہ کیا ماجرا ہے؟"۔
وہ شخص کہنے لگا "سائیں یہ گھوڑا جب چھوٹا سا تھا تب سے میں نے سدھایا ہوا ہے، یہ روزانہ اپنے سوار بدلتا ہے مگر مالک اس کا میں ہی رہتا ہوں، چارہ اس نے مجھ سے ہی کھانا ہوتا ہے تو پھر بھلا کیسے یہ میری مرضی کے خلاف جاسکتا ہے؟"۔
ٹیلی ویژن پر جب بھی میں دیکھتا ہوں کہ سیاستدان کسی کے اشارے پر کسی پارٹی کو چھوڑ کر دوسری پارٹی میں شامل ہوتے ہیں اور پھر کسی کے اشارے پر واپس آجاتے ہیں، تو مجھے وہ سدھایا ہوا گھوڑا یاد آجاتا ہے جو سوار بدل کر چلتا تو ہے مگر مالک کی منشاء کے بغیر ایک مخصوص حد سے آگے نہیں جاتا۔