Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. Hazri Aur Hazuri

Hazri Aur Hazuri

حاضری اور حضوری

عیدالفطر کی چھٹیوں کا شیڈول، سیکجوئل جاری ہو چکا تھا۔ ان چھٹیوں میں چند ملاقاتوں اور چند معمولی کاموں کے علاوہ میرے پاس کرنے کے لیے کوئی ایسا خاص کام کاج نہیں تھا جس کو چھوڑ دینے سے یا التواء میں ڈالنے سے کوئی حرج ہونا تھا۔ سعودی عرب کا ملٹیپل انٹری انویسٹر ویزہ میرے پاس تھا، اور اس پر عمرہ کرنے کا مجاز بھی تھا۔ دل میں خواہش نے انگڑائی لی کہ کیوں نہ اس بار عید دونوں گھروں میں سے کسی بھی ایک گھر میں ادا کی جائے بلکہ منائی جائے۔ خواہش کو دعا بنایا اور کسی کو بتائے بغیر اکیلے جانے کا ارادہ کر لیا۔

پھر ایسا ہوا کہ چند دوستوں سے بات چیت کی تو وہ بھی ساتھ جانے کے لیے تیار ہوگئے۔ مگر عین وقت پر ان کو کوئی مجبوری پیش آ گئی اور انہوں نے ساتھ جانے سے معذرت کر لی۔ میرے گھر سے مکہ مکرمہ تک تقریباً 1350 کلومیٹر کا یکطرفہ سفر تھا، بچے پاکستان گئے ہوئے تھے، میں اکیلا تھا اور اس بار ارادہ تھا کہ سفر اپنی گاڑی پر کروں گا، اس لیے دل کے کسی کونے کھدرے میں موہوم سا خیال جاگزیں تو تھا کہ گر اس سفر میں کوئی ساتھ ہو تو اچھا ہوگا۔

خیر 29 رمضان المبارک کو تمام کام کاج نمٹا کر، گاڑی کو مکینک کے پاس لے گیا اور اسے بتایا کم و بیش 5000 کلومیٹر تک سفر نصیب میں ہوسکتا ہے، اس لیے اسی حساب سے گاڑی کو تیار کر دو۔ اتفاق دیکھیے کہ وہ مکینک اسی دن ہی عمرے کے سفر سے لوٹا تھا، اور وہ گیا بھی اپنی کار پر تھا۔ اس سے مجھے بہتر معلومات اور راہنمائی بھی مل گئی۔ اس نے تیل اور فلٹر وغیرہ تبدیل کرتے ہوئے، گپ شپ کے دوران پوچھ لیا کہ کب جا رہے ہو، اور ساتھ کتنے بندے ہیں وغیرہ وغیرہ؟

میں نے جب بتایا کہ آج ہی عصر کے وقت یا مغرب سے پہلے اور اکیلے نکلنے کا ارادہ ہے، افطاری، خبر یا دمام (سعودی شہروں کے نام) میں ہو جائے تو اچھا رہے گا۔ جب یہ بات چیت ہو رہی تھی اس وقت ظہر کی نماز کا وقت تھا۔ اور تھوڑی دیر قبل ہی ہم نمازِ ظہر ادا کر چکے تھے۔ مکینک سے میری دوستی بھی تھی، تو وہ کہنے لگا، اکیلے سفر مناسب نہیں ہے، کوئی ایسا ہمسفر جو گاڑی چلانا جانتا ہو، وہ ساتھ ہو تو سفر آرام دہ رہے گا۔

کیونکہ سفر طویل ہے اور سعودی ہائی وے کے اطراف میں یا تو صحرا ہے یا پھر جلے ہوئے کالے پہاڑ، ایسے میں دونوں رخ پر کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے جو نظر کو تسکین دے اور دل کو لبھائے، ایسے میں بندہ تھک جاتا ہے اور اونگھنے لگ جاتا ہے، جس سے خدانخواستہ کوئی حادثہ پیش آ سکتا ہے۔ میں نے کہا یار، بات تو تمہاری ٹھیک ہے، مگر نہ تو مجھے کوئی ساتھ جانے والا ملا ہے، اور نہ ہی میں نے کسی سے کوئی خاص ذکر کیا ہے یا کوئی ساتھ جانے والا ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے، کیونکہ عید ہر شخص اپنے اہل و عیال کے ساتھ منانا چاہتا ہے، ایسے میں کسی سے ایسا سوال بھی کرنا مناسب نہیں لگتا۔

بہرحال مکینک کہنے لگا، دو چار روز قبل میرے پاس ایک شخص آیا تھا، وہ اپنے استعمال کے لیے سستی سی سیکنڈ ہینڈ گاڑی تلاش کر رہا تھا، اور بتا رہا تھا کہ عمرے پر جانا چاہتا ہوں، مگر کوئی بندوبست نہیں ہو رہا، وہ شخص مجھے اپنا فون نمبر دے گیا تھا، اگر تم چاہو تو اس سے پوچھ لیتے ہیں اور اگر وہ حامی بھر لے تو اسے ساتھ لے چلو، دونوں کا بھلا ہو جائے گا۔ کوئی وقت کوئی گھڑی ایسی بھی ہوتی ہے، جس میں کیا گیا کوئی کلام ایسا بھی ہوتا ہے جو سیدھا روح پر وارد ہوتا ہے، اور دل پر ثبت ہو جاتا ہے۔

مکینک کی وہ بات بھی ایسی ہی تھی، میں نے کہا تم مجھے اس شخص کا فون نمبر دو، پہلے تو میں اس سے بات کرکے تمہاری بات کی تصدیق کروں گا، پھر اگلی بات دیکھتے ہیں۔ اس کا نمبر ڈائل کیا، پہلی ہی بیل پر اس نے کال کے جواب میں السلامُ علیکم کہا، میں نے جواب دے کر بغیر کسی تمہید کے اس سے وہ بات پوچھی جو مجھے مکینک نے بتائی تھی، اس نے کہا ہاں یہ بات بالکل درست ہے، میں یہاں پر نیا آیا ہوں، ابھی شاید دو یا تین ماہ ہی ہوئے ہیں، اس لیے میرے پاس وہاں جانے کے لیے نہ ہی زیادہ رقم ہے اور نہ ہی کوئی متبادل بندوبست ہے۔

میں نے دوسری بات پوچھی کہ سچ سچ بتاؤ جب میری کال آئی تو اس وقت کیا کر رہے تھے؟

کہنے لگا، جناب میں نے ابھی ظہر کی نماز ادا کی ہے، اور جب آپ کی کال آئی تھی اس وقت مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر جوتے پہن رہا تھا۔

میں نے پھر زور دیتے ہوئے پوچھا کہ اس کے علاوہ کسی سے کوئی بات چیت یا کوئی اور ایسا کام جو معمول کے مطابق نہ ہو؟

کہنے لگا کچھ خاص یاد نہیں، مگر سچ بتاؤں تو مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر دل میں بار بار یہی بات چل رہی تھی، کہ "اے خدا میری عید مکے یا مدینے میں کروا دے۔ "

یہ بات سن کر جو میری کیفیت تھی اسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے، مگر میں نے سنبھلتے ہوئے کہا، اگر عصر کی نماز ادا کرکے نکلیں اور افطاری سعودی عرب میں ہو تو آپ کا کیا خیال ہے، آپ تیار ہیں، وہ یقین اور بے یقینی کی حالت میں یکدم رونے لگا اور کہنے لگا میرے پاس تو زاد راہ بھی نہیں ہے، پھر بار بار پوچھتا رہا، کیا یہ سچ ہے، کیا ایسا ہو سکتا ہے، کیا آپ مجھے اپنے ساتھ لے کر جائیں گے؟ نہ میں نے اس کا نام پوچھا اور نہ اس نے میرے متعلق جاننے کی کوشش کی۔ میں نے فقط اتنا کہا، اپنے گھر کی لوکیشن بھیج دو، عصر کے وقت تیار رہنا، انشاءاللہ عید کا دن وہاں ہی گزرے گا جہاں کی دل رو سیہ میں خواہش مچل اٹھی ہے۔

اس دنیا میں جہاں کچھ بھی نہ تو حادثاتی ہے اور نہ ہی اتفاقی، بلکہ پردے کے پیچھے کوئی تو ایسا طاقتور ترین ہے جو ذرے ذرے کو اس کی درست جگہ پر رکھ کر پھر ہر ذرے کا پورا پورا حساب رکھتا ہے، پھر کس ذرے نے کب کسی دوسرے ذرے سے ملنا ہے یا بچھڑنا اسے ترتیب دیتا ہے، اور پھر ملاتا ہے، جدا کرتا ہے، توڑ دیتا ہے، اور مردہ ذرے سے نئے ذرے کو زندہ وجود بخشتا ہے۔

باقی کا سفر پھر کبھی سہی۔

عشق کی اِک جَست نے طے کر دیا قصّہ تمام

اس زمین و آسماں کو بےکراں سمجھا تھا میں۔

Check Also

Aalmi Siasat 2024, Tanz o Mazah Ko Roshni Mein

By Muhammad Salahuddin