Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. Chinese Ki Taraqi Ka Raaz

Chinese Ki Taraqi Ka Raaz

چائنیز کی ترقی کا راز

جب گوادر بندرگاہ پر کام شروع ہوا تھا تو اس وقت میں چائنیز کے ساتھ کام کرتا تھا، میری رہائش، کھانا پینا، ان کے آفیسر و انجینئرز وغیرہ کے ساتھ ہی تھا۔

دوستو، اب اس قوم کی ترقی کے چند راز سنو۔

ہر شخص صبح جاگ کر ورزش ضرور کرتا، اس کے بعد نیم گرم پانی کو شیشے کے جار میں ڈال کر اس میں جڑی بوٹیاں ڈال دیتے، اس چائے نما مشروب کا وقفے وقفے بعد صرف ایک گھونٹ بھرتے اور اس کی بھاپ کو چہرے پر لیتے اور جار کا منہ بند کر دیتے۔ ہر شخص اپنے کام خود کرنے کا عادی تھا۔ جو کام انہیں نہیں آتا یا جس کی سمجھ نہ آتی تو بلا جھجک فوراً کہتے کہ یہ کام مجھے نہیں آتا یا اس کی سمجھ نہیں آ رہی۔ ان کی ایسی عادت جو مجھے سب سے زیادہ پسند تھی وہ تھی وقت کی پابندی، کام وقت پر، کھانا وقت پر، سونا جاگنا وقت پر۔

بندرگاہ پر کام صبح آٹھ بجے شروع ہوتا تھا، آٹھ سے لیکر ایک بجے تک کام ہوتا، ایک بجے کھانے کا وقفہ ہوتا جو ایک بجے سے لیکر تین بجے تک ہوتا، تین بجے دوبارہ کام شروع ہوتا جو پانچ بجے تک جاری رہتا، اور پانچ بجے چھٹی ہو جاتی۔

اب صبح آٹھ بجے اپنے کیمپ سے نکلنے، یا آٹھ بجے سائٹ پر پہنچنے کی بجائے، ہر شخص وہاں کم از کم پندرہ منٹ پہلے پہنچتا، اور ٹھیک آٹھ بجے ہر جگہ کام شروع ہو جاتا تھا، کام شروع ہونے کے بعد کوئی بھی چینی شخص سگریٹ پینے کے لیے کھڑا نہیں ہوتا تھا، نہ ہی کوئی بار بار بیت الخلاء کے چکر لگاتا، نہ ہی کوئی گپ شپ کے چکر میں آدھ پون گھنٹہ ضائع کرتا تھا، درمیان میں جب چائے پانی کا وقفہ ہوتا، تو اسی وقفے میں لوگ سگریٹ، چائے، پانی وغیرہ پیتے، اور بیت الخلاء استعمال کرتے۔

ایک بجے کھانے کا اور قیلولے کا وقفہ ہوتا، تو ہر شخص ایک بجے ہی کام روکتا تھا، اسی طرح دن کے آخر میں چھٹی کا وقت ہوتا تو پانچ بجے کے بعد ہی، اوزار وغیرہ نیچے رکھتے، اور مشینری کو بند کرنے کے بعد ہاتھ منہ دھوتے۔ اپنی رہائش گاہ پر تاخیر سے پہنچنے کا انہیں کوئی خوف یا قلق نہیں ہوتا تھا، مگر کام پر تاخیر سے پہنچنا ان کے لیے ناقابل برداشت فعل تھا۔

شام کو کام سے چھٹی کرنے کے بعد، رہائش گاہ پر پہنچتے، نہا دھو کر کپڑے تبدیل کرتے اور واک کرنے یا سائیکل چلانے نکل پڑتے، جس کے پاس کوئی پالتو جانور ہوتا اس کو بھی ساتھ لے آتے۔ اس دوران وہ ایک دوسرے سے گپ شپ کرتے۔ کام کے دوران ان کے لیے جو چیز نئی ہوتی اس پر بات چیت کرتے، اور ہر وقت کچھ نیا سیکھنے اور کچھ نیا کرنے کی کوشش کرتے رہتے۔ رات سونے سے پہلے وہ کچھ نہ کچھ پڑھ کر سوتے اور اکثر چینی لوگ ہم سے اردو یا انگریزی زبان بھی سیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔

کسی بھی محکمے کا جو بھی پاکستانی افسر ان سے ملنے آتا تو اس کو اعلیٰ قسم کے خشک میوہ جات، انواع و اقسام کے کھانوں کے ساتھ ایک پیکٹ سگریٹ یا پرفیوم یا پھر "بوتل" ضرور دیتے۔ میں نے ایک دفعہ پوچھا یار کھانے پینے کے ساتھ یہ سگریٹ وغیرہ کیوں دیتے ہو؟

وہ کہنے لگا ہمیں پاکستان آنے سے پہلے بریفنگ میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی افسران کو جو مرضی کھلا پلا دو لیکن جاتے ہوئے انہیں ساتھ لے جانے کے لیے کچھ نہ دو تو ناراض ہو جاتے ہیں، اس لیے ہم نے نچوڑ نکالا کہ یہ سگریٹ پیتے ہوں یا نہ پیتے ہوں، لیکن انہیں اچھے برانڈ کا سگریٹ دو تو فوراً لے کر رکھ لیتے ہیں، کیونکہ یہ لوگ اپنے دوستوں کو امپورٹڈ سگریٹ، بوتل وغیرہ کو دکھا کر بہت خوش ہوتے ہیں۔

Check Also

Ghair Yahudion Ko Jakarne Wale Israeli Qawaneen (1)

By Wusat Ullah Khan