Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mubashir Ali
  4. Turkia Ke Sadarti Intikhabat

Turkia Ke Sadarti Intikhabat

ترکیا کے صدارتی انتخابات

ترکیا میں ہونے والے حالیہ صدارتی انتخابات اس وقت پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ ترکیا میں صدارتی نظام رائج ہے جس کا اجرا موجودہ صدر طیب اردگان نے سنہ 2017 میں کیا۔ ترکیا کے قانون کے مطابق انتخابات کے پہلے مرحلے میں کامیابی کے لیے کسی بھی امیدوار کو پچاس فیصد ووٹ حاصل کرنا ضروری ہے بہ صورت دیگر انتخابات دوسرے مرحلے کی طرف چلے جاتے ہیں۔ حالیہ انتخابات کے پہلے مرحلے میں کوئی بھی امیدوار پچاس فیصد ووٹ حاصل نہ کر سکا اور یوں انتخابات کا دوسرا مرحلہ 28 مئی کو طے پایا۔

پہلے مرحلے میں صدر طیب اردگان نے 49 سے 5 فیصد ووٹ حاصل کیے جب کہ ان کے حریف کلیجدار اوغلو 44 سے 8 فیصد ووٹ حاصل کر سکے۔ انتخابات کے اگلے مرحلے میں دیگر امیدوار شرکت نہیں کر سکیں گے بلکہ مقابلہ اردگان اور کلیجدار کے مابین ہی ہوگا۔ پہلے مرحلے کے تیسرے امیدوار سینان اوغان کا کردار دوسرے مرحلے میں انتہائی اہمیت کا حامل تصور کیا جا رہا ہے۔ سینان انتخابات میں کل 5 سے 6 فیصد ووٹ حاصل کر سکے تھے۔ ان کے حامیوں کی بڑی تعداد قوم پرست ہے۔

دوسرے مرحلے میں سینان کو دونوں ہی امیدواروں سے اتحاد میں مشکلات پیش آئیں گی کیوں کہ وہ اپنی انتخابی مہم میں ایک طرف کلیجدار کے خلاف سخت تقاریر کر چکے ہیں اور ان کے حامی کردوں کی بڑی تعداد بھی کلیجدار کے سخت خلاف ہے اور دوسری طرف اردگان شامی مہاجرین کے حامی اور سینان اُن کی بے دخلی کے پرجوش داعی ہیں۔ دونوں میں سے کسی کے ساتھ بھی سینان کا اتحاد مخالف کے لیے مشکلات پیدا کرے گا گویا سینان دوسرے مرحلے کے الیکشن میں"کنگ میکر" کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

حالیہ انتخابات میں آق پارٹی کے سربراہ رجب طیب اردگان چار جماعتی اتحاد کے صدارتی امیدوار ہیں جب کہ کمال کلیجدار اوغلو نیشن الائنس کے صدارتی امیدوار ہیں اور ان کی حامی ترک مذہبی جماعتیں بھی ہیں۔ ان میں سب سے اہم جماعت سعادت پارٹی ہے جو طیب اردگان کے مرشد نجم الدین اربکان کی پارٹی ہے۔ اور جسے جماعت اسلامی کی ہم خیال پارٹی تصور کیا جاتا ہے۔ یہ امر انتہائی حیران کن ہے کہ چند ترک مذہبی حلقے انتخابات میں طیب اردگان کے مخالف ہیں حال آں کہ طیب اردگان اسلام پسند اور قدامت پسند لیڈر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں اور حالیہ انتخابات میں بھی انہیں مغربی قوتوں کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا ہے۔

دنیا کے نقشے پر بنتے بگڑتے طاقت کے توازن نے بھی ترک انتخابات کو انتہائی اہمیت کا حامل بنا دیا ہے۔ ایک طرف طیب اردگان ہیں جو نہ صرف روسی بلاک کا حصہ بننے کے لیے پَر تول رہے ہیں بلکہ ان کے قطری امیر شیخ تمیم، سعودی فرماں روا محمد بن سلمان سمیت دیگر عرب سربراہان کے ساتھ بھی گہرے تعلقات ہیں۔ ان تمام کی یہی خواہش ہے کہ اگلے صدر اردگان ہوں تاکہ دونوں ممالک کے دوطرفہ تعلقات نہ صرف بہ دستور بحال رہیں بلکہ خطے میں تیزی سے بدلتی بلاکس کی سیاست میں بھی توازن برقرار رہے۔

جبکہ دوسری طرف کلیجدار اوغلو ہیں جو امریکی اور یورپی بلاک کا حصہ بننے کی شدید خواہش کا اظہار اپنی الیکشن کمپین میں بارہا کر چکے ہیں۔ انہیں الیکشن میں مغربی چینلز اور اخبارات کی حمایت بھی حاصل رہی ہے۔ جس کا واضح مطلب مغربی قوتوں کی کلیجدار اوغلو کو صدر بنانے کی خواہش ہے تاکہ ترکیا میں امریکی اور یورپی اثر و رسوخ کو پھر سے پروان چڑھایا جا سکے۔

اس پورے منظر نامے میں دیکھنا یہ ہے کہ آیا 28 مئی کو ہونے والے انتخابات میں ترک عوام طیب اردگان کا انتخاب کرتی ہے جنہوں نے اپنے ووٹرز سے ترک معیشت کی بحالی، دہشت گردی کے خاتمے، ہم جنس پرستوں کی تحریک LGBTQ+ کی سرکوبی اور زلزلہ زدگان کی بحالی کے ساتھ ساتھ عالمی سیاست میں ترک مفادات کے تحفظ کو پیش نظر رکھتے ہوئے قریبی ممالک سے تعلقات کو استوار کرنے کے وعدے کر رکھے ہیں یا دوسری جانب کمال کلیجدار اوغلو کا انتخاب کرتی ہے جنہوں نے اپنے ووٹرز سے گرتی معیشت کی بحالی، اردگان کے قدامت پسندانہ فیصلوں کی منسوخی، شامی مہاجرین کی واپسی سمیت پارلیمانی نظام کی بحالی کے وعدے کر رکھے ہیں۔

28 مئی کو ہونے والے یہ انتخابات ترکیا اور عرب ممالک کے مستقبل میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔

Check Also

Israeli Parliman Aur Amit Halevi Se Mulaqat

By Mubashir Ali Zaidi