Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sumaira Imam
  4. Dard

Dard

درد

گھاس کی کٹائی کا موسم تھا۔ مویشیوں کے پورے سال کے لیے چارہ کاٹ کے ذخیرہ کر لیا جاتا تھا۔ ان دنوں کیا بچہ کیا بڑا ہر کوئی کام میں مصروف ہوتا۔ رحیمہ کا گھر والا کراچی میں کسی بڑے بنگلے پہ کام کرتا تھا۔ ہر تین ماہ بعد اتنی رقم بھیج دیتا کہ بچوں کے کھانے پینے کا بندوبست ہوجاتا۔

رحیمہ کے چار بچے تھے اور اب کے پھر دو جی سے تھی۔ بس یہی ایام تھے ننھے مہمان بس آیا ہی چاہتے تھے۔ پور پور میں درد بسائے رحیمہ تیز تیز ہاتھ چلاتے ہوئے چارہ کاٹ رہی تھی۔ لیکن لگتا درد جان لے کے چھوڑے گا۔

درانتی کو رکھ کے پہاڑی کے سرے تک دوڑ کے گئی کیا خبر کوئی دکھائی دے تو آواز دے لے۔ یہ کوئی کھیت کھلیان تو تھے نہیں کہ کوئی حد ہوتی کسی دوسرے کا کھیت دکھائی دیتا۔ یہ تو پہاڑ تھے جن پہ چارہ اگتا اور ڈھلوان میں نیچے نیچے تک گھسٹ گھسٹ کے اسی چارے کی کٹائی کی جاتی۔

رحیمہ کو ٹھنڈے پسینے آرہے تھے۔ اس لگتا بس اسکا وقت آن پہنچا ہے۔ باقی سب تو کر ہی لیتی بس ذرا ہمت کم پڑ رہی تھی۔

اسکی تیسری اولاد بھی ان ہی دنوں دنیا میں آئی تھی۔ گھاس کاٹتے کاٹتے احساس ہوا کہ بس بچہ دنیا میں آیا ہی چاہتا ہے۔ اور پھر اللہ نے گود ہری کر دی۔ وہیں کپڑے میں لپیٹا ہمت کی گھر آگئی۔

اگلے دن سے پھر اپنے کام دھندوں میں مصروف۔۔

لیکن اس مرتبہ ہمت کم پڑ رہی تھی۔ تیسرے منے کو تو جھولے میں لٹا کے آس پاس چارپائیاں کھڑی کر دیتی کہ کہیں کوئی جانور اندر گھس کے بچے کو نقصان نہ پہنچا دے۔ ایک دن کے بچے کو اکیلا چھوڑ کے دروازہ بند کرکے صبح صبح گھاس کاٹ لیتی کہ جانور بھی تو بھوکے ہوتے۔ دس گیارہ تک گھر پہ ہوتی۔ یہاں کے بچے بھی جیسے اوپر سے سیکھ پڑھ کے آئے تھے کہ مائیں کاموں میں مصروف ہیں ہر وقت گودی نہیں لے سکتیں۔ لہذا وقت پہ دودھ ملے گا۔ سبھی بچے صابر شاکر تھے۔

شہروں میں باجیاں پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی باتیں کرتیں یہاں امیوں کی یہی فکر ہوتی کہ مویشی بھی توانا ہوجائیں اور منے بھی۔ بس پیٹ بھر جایا کرے۔

درد بڑھتا جارہا تھا۔ رحیمہ کی ہمت کم پڑتی جارہی تھی۔ درد کی انتہا پہ پہنچ کے اس نے بچے کو جنم دے ڈالا۔ درانتی سے آنول کاٹی۔ چادر میں لپیٹ کے گھر تک پہنچ گئی۔

بس آج ہمت نہ تھی کہ کھانا پکا سکے۔ بچے کسمساتے رہے۔ بالآخر بڑی بیٹی بھاگ کے پڑوسن کو بلا لائی۔ نگہت نے سوچا چلو باجی رحیمہ کو مبارک باد بھی دے آئے گی اور جو کام کرنا کرانا ہوگا کر دے گی۔

نگہت کو آتے آتے دیر ہوچکی تھی۔ باجی رحیمہ مبارک باد وصول کرنے کے لیے زندہ نہیں بچی تھیں۔

Check Also

Holocaust

By Mubashir Ali Zaidi