Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sultan Ahmed
  4. Warda Ki Pareshani Aur 7 Ajaibat

Warda Ki Pareshani Aur 7 Ajaibat

وردہ کی پریشانی اور سات عجائبات

وردہ بہت پریشان تھی۔ اس کی پریشانی جائز بھی تھی۔ وجہ بہت سادہ تھی۔ اسے کلاس میں ایک ایسا اسائنمنٹ دیا گیا تھا کہ جس کے بارے میں وہ شش و پنج کا شکار تھی۔ ایسا نہ تھا کہ اسے اسائمنٹ کی سمجھ بوجھ نہ تھی بلکہ وہ حیران تھی کہ اس حیرت انگیز اسائنمنٹ میں کیا کچھ لکھے۔ آخر وردہ کا اسائنمنٹ کیا تھا؟ اس کے لئے ہمیں کہانی کو تھوڑا پیچھے لے جانا پڑے گا۔

آج جمعہ تھا اور اس ہفتے کی آخری کلاس۔ جنرل نالج کی ٹیچر نے لیکچر کے اختتام پر تمام بچوں کو ایک اسائنمنٹ دیا۔ اگرچہ آج کے لیکچر میں اسی اسائنمنٹ کے بارے میں پڑھایا اور بتایا گیا تھا مگر وردہ تذبذب کا شکار ہو گئی۔ ٹیچر کا اسائنمنٹ بہت دلچسپ تھا۔ ٹیچر نے تمام بچوں کو دنیا کے سات عجائبات کی فہرست بنانے کا کہا تھا۔ ٹیچر نے ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا تھا کہ جس کے عجائبات کی فہرست سب سے اچھی اور دلچسپ ہوگی اسے نہ صرف انعام دیا جائے گا بلکہ صبح کی اسمبلی میں اس بچے کا نام اس کی فہرست کے ساتھ دیگر تمام طلبہ و طالبات اور اساتذہ کرام کے سامنے لیا جائے گا تاکہ اس کی حوصلہ افزائی ہو۔

حالانکہ یہ ایک آسان فہرست ہے۔ آپ گوگل کریں اور دنیا کے سات عجائبات آپ کی نظروں کے سامنے تصاویر کے ساتھ حاضر ہو جائیں گے۔ گوگل نامی عجوبہ اس فہرست میں یقینا شامل نہیں ہوگا کیونکہ ہمیں تاریخ میں گم کھنڈرات میں زندہ رہنے کا شوق ہے۔ حالانکہ گوگل پلک جھپکتے ہی آپ کے ہر سوال کا جواب فوری حاضر کر دیتا ہے۔ وردہ کی والدہ نے اسے گوگل سے ہی مدد لینے کا کہا۔ مگر وردہ گوگل کے جوابات دیکھ کر حیران تھی کہ کوئی عمارت یا کوئی دیوار، اہرام، مجسمہ، کھنڈرات، اجڑے ہوئے باغات کیوں کر عجائبات کی ٹوکری میں ڈالے جا سکتے ہیں۔ ان سب میں ایسی کیا خاص بات ہے؟

آج اس فیصلے کی گھڑی آن پہنچی تھی۔ تمام بچوں نے بہت محنت کی تھی اور وہ بہت پرجوش تھے۔ ان کے دلوں کی دھڑکن بے ترتیب تھی۔ وہ اپنا نام سننا چاہتے تھے۔ شہرت بھی کیا شے ہے۔ انسان اس کی طلب میں عمر کی قید سے بھی آزاد ہے کیونکہ یہ ایک فطری طلب ہے۔ وردہ کی کلاس کے دیگر بچے اپنی اپنی عجائبات کی فہرست مختلف رنگ برنگے، چھوٹے بڑے سائز کے چارٹس پر سجائے خوشی میں بے چینی اور اضطراب کی پرجوش کیفیت سے سرشار تھے کہ شاید ان کی فہرست پہلے انعام کی حقدار ہوگی۔

وہ اپنی فہرست دوسروں سے چھپائے ہوئے تھے کہ کہیں ان کے سات عجائبات دوسروں پر آشکار نہ ہو جائیں۔ حالانکہ سب بچے اپنی اپنی فہرست ترتیب دے چکے تھے اور سب نے یقینا گوگل بابا سے ہی مدد لی ہوگی مگر وہ پھر بھی سمجھتے تھے یہ ان کی فہرست بے مثال و بے نظیر ہوگی۔ مگر وردہ کے پاس کوئی چارٹ تھا نہ کوئی فہرست۔ وہ تو بس خالی ہاتھ تھی۔ اس کی کلاس کے دیگر بچے اسے ایسی نظروں سے دیکھتے تھے جیسے وہ ایک ہاری ہوئی شکست خوردہ کھلاڑی ہو۔ وردہ کی ٹیچر بھی حیران تھی کی وردہ جیسی ذہین اور ہونہار طالبہ اتنا آسان اسائنمنٹ کیسے چھوڑ سکتی تھا۔

انتظار کی گھڑیاں تمام ہوئیں اور تمام بچوں کو ایک ایک کر کے منج پر اپنی عجائبات کی فہرست پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔ کم و بیش ایک جیسی فہرستیں سماعت سے ٹکراتی اور بچوں کے موتی جیسے الفاظ ہوا میں تحلیل ہو کر گم ہو جاتے۔ اسمبلی میں موجود حاضرین بچوں کی محنت پر تالیاں بجاتے اور پھر وردہ کا نام پکارا گیا۔ وردہ بہت اعتماد کے ساتھ اسٹیج پر پہنچی۔ اس کے اعتماد سے ایسا ظاہر ہی نہیں ہو رہا تھا کہ اس نے کوئی کام نہیں کیا۔ وردہ نے دنیا کے سات عظیم عجائبات گنوانا شروع کیے۔

وردہ کی فہرست میں دیکھنا، سننا، بولنا، چکھنا، چھونا، محسوس کرنا اور محبّت کرنا شامل تھا۔ حاضرین یہ انوکھی اور منفرد فہرست سن کر ششدر رہ گئے۔ سناٹا چھا گیا۔ سب ایک دوسرے کے چہرے تکتے تھے جیسے کہہ رہے ہوں کہ ہاں یہی تو اصل عجائبات ہیں جو قدرت نے انسان کو عطا کیے ہیں اور سب سے بڑا عجوبہ تو انسانی دماغ ہے۔ انسانی آنکھ کے دیکھنے کی صلاحیت 576 میگا پیکسل ہے۔ یہ 25 لاکھ نوری سال تک دیکھ سکتی ہے۔ ذرا تصور کریں بینائی کے بغیر انسان کی زندگی کتنی کٹھن اور مشکل ہوگی؟

انسانی کان حیرت انگیز صلاحیتوں سے مالامال ہیں۔ یہ مختلف آوازیں سن کر دماغ تک پہنچاتے ہیں اور دماغ ان آوازوں کو جانچتا اور پہچانتا ہے۔ اس وقت ایک شخص 225 الفاظ فی منٹ تک سن سکتا ہے۔ سننے کی اس حیرت انگیز صلاحیت سے فیصلہ سازی میں مدد ملتی ہے۔ بولنے کی صلاحیت تو بہت حیرت انگیز ہے۔ یہ کیسی انوکھی بات ہے کہ انسان اپنی سوچ جسے دیکھا نہیں جا سکتا، جس کا کوئی وجود نہیں، اسے انسان دوسروں تک الفاظ کے ذریعے پہنچا دیتا ہے۔ بولنا علم بانٹنا ہے۔

دنیا میں 87 لاکھ مخلوقات ہیں۔ قدرت نے ان میں صرف انسان کو بولنے اور اپنی سوچ کو الفاظ میں ڈھالنے کی صلاحیت دے رکھی ہے۔ انسان ہی ہیں جو ایک دوسرے کو علم سے روشناس کرانے کے لیے بولنے کا سہارا لیتے ہیں۔ ایک ایوریج انسان ایک منٹ میں تقریبا 125 سے 175 الفاظ تک بول سکتا ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز صلاحیت ہے۔

چکھنے کی صلاحیت اور بھی حیرت انگیز ہے۔ اسی سے تو انسان میٹھی، کڑوی، نمکین اور ترش شے کا اندازہ لگاتا ہے۔ ذائقہ بھی رنگوں کی طرح خوبصورت ہوتے ہیں۔ رنگوں کی خوبصورتی دیکھ کر جبکہ ذائقہ کی خوبصورتی چکھ کر محسوس کی جاتی ہے۔ کیا آپ کو پتا ہے انسان ایک لاکھ سے زائد مختلف ذائقے پہچان سکتا ہے۔ انسانی زبان میں دو ہزار سے دس ہزار تک tasting buds ہوتے ہیں جو پہچاننے میں مدد کرتے ہیں۔ ذرا غور تو کریں اگر یہ کسی کی زبان میں نہ ہوں تو وہ کیسے کسی بھی ذائقے سے لطف اندوز ہوسکتا ہے۔ بے ذائقہ زندگی بھی یقینا بے رنگ ہے۔

سونگھنے کی صلاحیت کو تو غالبا ہم صلاحیت ہی نہیں مانتے۔ صرف خوشبو اور بدبو ہی اس حس کے زمرے میں نہیں آتے۔ انسانی نتھنوں میں ایک ہزار سے زیادہ خاص سونگھنے کے خلیہ پائے جاتے ہیں اس سے انسان دس ہزار مختلف قسم کی خوشبو سونگھ سکتا ہے۔ بعض لوگوں میں سونگھنے کی حس اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ ہم کسی بھی انسان سے بات کرنے اور دیکھنے سے قبل محض اس کی لگائی ہوئی خوشبو سونگھ کر اس کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

محسوس کرنے کی صلاحیت سب سے زیادہ نظرانداز کی جاتی ہے۔ محسوس کرنا دوسروں کے جذبات کا خیال رکھنا کئی جہات رکھتا ہے۔ کامیاب سماجی زندگی ہو یا پیشہ ورانہ زندگی، یہ صلاحیت اپنے آپ میں بے مثال ہے۔ اسے انگریزی میں empathy کہتے ہیں۔ اس صلاحیت سے دل فتح کئے جا سکتے ہیں۔ IQ کے بارے میں آپ یقیناً جانتے ہونگے۔ empathy کا تعلق QE یعنی quotient emotional سے ہے۔ آئی کیو کی طرح QE بھی فیصلہ سازی میں سازگار ہے۔

پیشہ ورانہ زندگی میں اس صلاحیت کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ آپ کا باس یا آپ کے کولیگز صرف آپ سے خوشگوار انداز میں بات ہی کر لیں تو آپ کا موٹیویشن لیول بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح اپنے جونیئر اسٹاف کی محض دلجوئی کرنا، ان کے مسائل سننا اوراشک شوئی کرنا ہی ان کی کارکردگی میں اضافہ کا باعث بن سکتا ہے۔ جو اچھا listener ہوگا وہ دوسروں کا سب سے اچھا اور قریب ترین دوست ہوگا اور اچھا listener وہی ہوگا جس میں empathy ہوگی۔

محبّت، ایک لازوال جذبہ، انمول تحفہ ہے جسے قدرت نے اپنی تمام مخلوقات میں سے صرف انسان کے نصیب میں لکھ رکھا ہے۔ محبّت بھی انسان کا رزق ہے۔ لمحوں میں قید محبت نصیب سے ہی ملتی ہے۔ نصیب میں نہیں لکھی تو لاکھ ٹکریں ماریں، ماتھا رگڑیں، منت مانیں، تعویذ دھاگا کریں، محبّت دل میں جاگزیں نہیں ہو سکتی۔ محبت کا احساس اور جذبہ ایسا عجوبہ ہے کہ جس کے لیے دیگر عجوبے نا بھی ہوں تو یہ زندگی کے لیے کافی ہے کیونکہ محبت زندگی ہے اور زندگی محبت ہے۔

کوئی شخص اگر دیکھنے، سننے، بولنے اور چکھنے سے محروم بھی ہے تو بھی محبت اس کے دل کے سوکھے تنے کو سرسبز کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ عظیم عجائبات انسان کی تخلیق کی تکمیل ہیں۔ ان سے بڑھ کر دنیا کا کوئی عجوبہ کیوں کر حیرت انگیز ہو سکتا ہے۔ لہذا ان عجائبات قدرت کی قدر کریں اور شکر بجا لائیں۔

Check Also

Wo Shakhs Jis Ne Meri Zindagi Badal Dali

By Hafiz Muhammad Shahid