Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sultan Ahmed
  4. Walk For Life

Walk For Life

واک فور لائف

محض چلنا بھی ایک مکمل اور جامع ورزش ہے۔ فی زمانہ واکنگ پر بہت زور دیا جاتا ہے کیوں کہ اب یہی ایک آسان ورزش رہ گئی ہے جو آج کا مصروف انسان سر انجام دے سکتا ہے۔ اس کی وجہ آج کا لائف سٹائل ہے جس میں جسمانی مشقت کم اور آسائش اور آرام طلبی زیادہ ہے۔ ایک جگہ بیٹھ گئے تو اب وہاں گڑھا بنے گا تبھی اٹھیں گے۔ سب سے زیادہ "بیٹھنا" کام کے دوران ہوتا ہے۔

انسان بہت چالاک ہے اس نے ایسے پیشے ایجاد کر لیے ہیں جس میں تمام کام بیٹھے بیٹھے انجام دیا جا سکتا ہے۔ حتی کہ اب تو گیمز بھی بیٹھے بیٹھے اور لیٹے لیٹے کھیلے جا رہے ہیں۔ اسی آرام طلبی کے بطن سے ظہور ہوا ایسے لائف سٹائل کا جس میں ہاتھوں پیروں کے مسلز مسلسل مسئلہ بنتے چلے جا رہے ہیں۔ ہمارے بچے مشینی، نوجوان بوڑھے اور بوڑھے ناکارہ ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے شہری خطرناک حد تک کینسر، ہیپاٹائٹس، ایڈز اور موٹاپے جیسی مہلک بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔

ہمارے ہسپتال آباد ہیں کیوں کہ ہوٹلز آباد ہیں اور صرف کھانا ہی زندگی کا مقصد بن کر رہ گیا ہے۔ شادی ہو تو کھانا، جنازے سویم اور برسی پر کھانا، کوئی بچہ پاس ہو جائے یا حفظ کر لے، کھلایا کھانا ہی جائیگا، کسی کو نوکری مل جائے یا پروموشن، خوشی میں کھانے کی دعوت ناگزیر ہے۔ کھانا کھلانا اچھی ریت ہے مگر فی زمانہ جو کچھ غذا کے نام پر کھایا جا رہا ہے وہ صحت جیسی نعمت کے لیے نقصان کا سبب بن رہا ہے۔

تازہ ترین مطالعات اور ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 40 فیصد بچے یا تو زیادہ وزن یا موٹاپے کا شکار ہیں، جس کی بنیادی وجہ بیٹھے رہنے والا طرز زندگی، ضرورت سے زیادہ اسکرین ٹائم اور غیر صحت بخش خوراک ہے۔ موٹاپے کے علاوہ بھی مہلک بیماریاں پاکستان میں اپنے پنجے گاڑ چکی ہیں۔ دنیا میں سب سے صحت مند قوم سنگا پور کے رہنے والے ہیں کیونکہ یہ سب سے زیادہ تیز چلنے والی قوم ہے۔ اسی طرح ہانگ کانگ، چین، یو کے، جرمنی، فرانس، آسٹریلیا اور کینیڈا کے باشندے بھی "چلنے کی لت" میں مبتلا ہیں اور صحت مند ہیں۔

2018 میں پاکستان ہیلتھ کمیشن (PHC) کی تازہ ترین تحقیق کے مطابق، ملک میں 11 فیصد سے زیادہ بچے زیادہ وزن اور 5 فیصد سے زیادہ موٹے تھے۔ پارکس اور میدانوں کی جگہ بڑی بڑی ہاؤسنگ سوسائٹیز نے لے لی ہے۔ یہ بھی بڑی وجہ ہے کہ چلنے اور دوڑنے کی ورزش جیسی سرگرمیاں کم ہوتی جا رہی ہیں۔ پانچ چھ عشرے قبل کا انسان اگر آج کے انسان کو کسی پارک یا میدان میں مسلسل ایک دائرے میں واک کرتے ہوئے دیکھتا تو وہ یقینا حیران ہو جاتا کہ اس شخص کو آخر کیا ہوگیا ہے یہ کوہلو کا بیل بے وجہ کیوں گھومے جا رہا ہے۔ لیکن آج واکنگ بھی ایک ایسی لگژری ہے جو ہر کسی کو میسر نہیں۔ لوگ محض کچھ پل چلنے کے لیے بھی وقت نکالنے سے قاصر ہیں اور اس کا تاوان انتہائی خوفناک صورت میں ان کی صحت ادا کر رہی ہے۔ اے پیسے کی دوڑ میں بھاگنے والے انسان! زندگی کے لیے بھی تھوڑا چل! اسی میں چھپا ہے صحت کا حل۔

چلنے کے بیشمار فائدے ہیں اور یہ سب سے آسان ورزش میں شمار ہوتی ہے، بس اسے عادت بنالیں اور اسکا اثر دنوں میں اپنا جادو دکھانا شروع کردیگا۔ اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ کونسا وقت واکنگ کے لیے اچھا ہے، واکنگ کتنی کرنی چاہئے، اس سے کتنی کیلوریز جلتی ہیں، وزن کتنا چلنے سے کتنا کم ہوتا ہے، واک کھانے سے پہلے یا بعد میں کرنی سود مند ہے وغیرہ وغیرہ۔ میں نے جتنی بھی مستند تحقیقات اس ضمن میں پڑھی ہیں ان کا نچوڑ یہ ہے کہ واکنگ کسی بھی وقت کی جا سکتی ہے یہ فائدوں سے پر ہے مگر کھانے سے پہلے زیادہ فائدے ہیں۔

60 سال سے کم عمر افراد کو چھ سے دس ہزار قدم روزانہ چلنا چاہئے (ضروری نہیں کہ یہ ایک ہی تسلسل میں ہوں)، ساٹھ سال سے ٹپے ہوئے افراد چار سے چھ ہزار قدم چلنے کا کشت کریں تو ہر قدم پر نیکیوں کی طرح جسمانی فائدے ان کے راستے کے پھول بنتے چلے جائیں گے۔ واکنگ کے ساتھ تھوڑا سا لائف سٹائل اور خوراک کا خیال رکھیں، چینی(شوگر) کی جسم کو ضرورت نہیں اس کا کم سے کم استعمال کریں، تازہ پھل سبزیاں کھائیں، ہر نعمت کے بدلے قدرت کے شکر گزار بنیں اور حیرت انگیز نتائج دیکھیں۔ اور ہاں! خوراک دوا کی مقدار کھائیں ورنہ دوا خوراک کی مقدار کھانی پڑے گی۔

یہ تو باتیں تھی نارمل واکنگ کی ایک ایبنارمل واکنگ بھی ہوتی ہے۔ 1915میں 20 ہزار ڈالر کی شرط جیتنے کے لیے پیٹرک ہارمون نامی 50 سالہ سگار کی دکان کے مالک نے تپتے ہوئے موسم گرما میں ایک دلچسپ چیلنج کا آغاز کیا۔ اس نے سان فرانسسکو سے نیویارک سٹی (تقریبا چھ ہزار تین سو کلومیٹر) تک پیچھے کی طرف چلنے (retro walking) کا منصوبہ بنایا، جی ہاں آپ نے صحیح پڑھا! الٹے قدم پیچھے کی طرف چلنا۔

ایک دوست کی مدد سے اس نے اپنے سینے پر ایک کار کا چھوٹا آئینہ لگوالیا تاکہ پیچھے دیکھنے میں آسانی رہے کہ وہ کہاں جا رہا ہے، ہارمون نے 3,900 میل (6,300 کلومیٹر) کا سفر 290 دنوں میں طے کیا۔ ہارمون نے دعویٰ کیا کہ اس سفر نے اس کے ٹخنوں کو اتنا مضبوط بنا دیا ہے کہ ان کو موچ آنے کے لیے ہتھوڑے کا ایک جھٹکا لگے گا۔

تحقیق کے مطابق، پیچھے کی طرف یعنی الٹے قدم چلنے (retro walking) سے آپ کی جسمانی صحت اور دماغ دونوں کے لیے حیران کن فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔

ریٹرو واکنگ، جیسا کہ پیچھے کی طرف چلنا علمی حلقوں میں جانا جاتا ہے، اس کی ایک بھرپور تاریخ ہے۔ انیسویں صدی کے اوائل میں لوگوں کے سینکڑوں اور بعض اوقات ہزاروں میل، الٹا پیدل چلنے کی اطلاعات ہیں۔ ان میں سے بیشتر واکنگ شرطوں کا نتیجہ تھی اور دیگر صرف ایک عجیب و غریب نئے ریکارڈ پر شیخی مارنے کے حقوق کا دعوی کرنے کی کوششیں تھیں۔ لیکن بائیو مکینکس میں فرق کی وجہ سے، پیچھے کی طرف چلنا درحقیقت کچھ جسمانی فوائد لا سکتا ہے۔ یہ اکثر کمر درد، گھٹنوں کے مسائل اور گھٹیا سے نجات کے لیے فزیو تھراپی میں استعمال ہوتا ہے۔ کچھ مطالعات یہاں تک بتاتے ہیں کہ پیچھے کی طرف چلنا ذہنی صلاحیتوں پر مثبت اثر ڈال سکتا ہے جیسے یادداشت، رد عمل کا وقت (response time) اور مسئلہ حل کرنے کی مہارت(problem solving)۔

خیال کیا جاتا ہے کہ صحت کے مقاصد کے لیے پیچھے کی طرف چلنے کا رواج قدیم چین میں شروع ہوا، لیکن حال ہی میں امریکہ اور یورپ کے محققین کی طرف سے کھیلوں میں کارکردگی بہتر بنانے اور پٹھوں کی طاقت بڑھانے کے طریقے کے طور پر اس پر توجہ حاصل ہوئی ہے۔ یہاں تو آگے کی جانب چلنا بھی ناپید ہے۔

بس چلنا شروع کریں آگے یا پیچھے اس فکر میں نہ پڑیں۔ دونوں کے صحت مند فائدے ہیں اور اچھے کام میں"ریس" کرنی چاہیے۔ واکنگ سلو پوائزن کی طرح اثر دکھانا شروع کرے گی۔ اپنی زندگی میں اپنے لیے بحر حال وقت نکالنا چاہئے۔ ایک بار ملنے والی زندگی میں صحت سونے کی کان ہے 460 قبل مسیح میں پیدا ہونے والے ماہر طب Hippocrates نے کہا ہے کہ چلنا(واکنگ) انسان کے لیے بہترین دوا ہے۔

Check Also

Wo Shakhs Jis Ne Meri Zindagi Badal Dali

By Hafiz Muhammad Shahid