Unhappiest Jobs
ان ہیپی اسٹ جابز
جاب اور خوشی کا بہت گہرا تعلق ہے۔ کام یا ملازمت کو انجوائے کرنا ویسے تو ہمارے قومی کلچر میں ناپید ہے، یہاں تو کام کے علاوہ ہر چیز سے عشق کیا جاتا ہے اور کام یا ملازمت کی سرگرمی ایسی سمجھی جاتی ہے جسے "فرض کفایہ" سمجھ کر پورا کیا جاتا ہے۔ یہاں تو کام، کام چلاؤ قسم کی اپروچ سے کیا جاتا ہے۔ ملازمت اس بیزاری اور وقت گزاری سے کی جاتی ہے کہ بس مہینہ پورا ہو اور تنخواہ آجاۓ۔
بابائے سمارٹ فون سٹیو جابز کا کہا ہوا قول کہ آپ کا پیشن آپ کا پروفیشن ہونا چاہئے ہم پر لاگو نہیں ہوتا کہ ہمارے پیشن نہ ہماری تعلیم سے میل کھاتے ہیں اور نہ ہم اپنے پیشن کی کھاتے ہیں۔ ہم بس نوکری پانے کی دھن میں ہوتے ہیں اور اسکا معاوضہ۔ بابائے قوم قائد اعظم قوم کی اس خصلت سے بخوبی واقف تھے تبھی تو انہوں نے کام پر زور دینے کے لیے تین مرتبہ ایک قول ارشاد فرمایا، کام، کام اور کام! وہ جانتے تھے کہ یہ قوم کام کے معاملے میں کام چور ہوگی۔ وقت پر کرنا تو دور کی بات یہ تو کام سرے سے کرے گی ہی نہیں۔
ہم اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ کام(ملازمت) کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔ (ایک ایورج انسان اپنی زندگی کے تقریبا 90 ہزار گھنٹے یعنی تیرا سال ملازمت پر گزارتا ہے)۔ اگر یہ وقت اطمینان اور خوشی کا باعث نھیں بن رہا تو یقین جانئے ہماری ملازمت یا نوکری کسی عذاب سے کم نہیں ہوگی کیونکہ ملازمت کے لیے صبح سویرے اٹھنا، تیار ہونا، ٹریفک جیسے پل صراط سے روز گزرنا اور پورے ماہ اسی مشینی روٹین کو برقرار رکھنا بہرحال ایک مشکل امر ہے۔
ملازمت کا وقت دن کا اہم حصہ ہوتا ہے، اس میں ہم کافی ایکٹو ہوتے ہیں اور انرجی کا لیول بھی زیادہ ہوتا ہے۔ لہذا یہ ہمارے رویے اور موڈ پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ مثلا اگر کام کی جگہ پر ہمارا موڈ آف تھا یا ہوگیا تو باقی دن بھی ایسا ہی گزرنے کا امکان ہے اور ہم اپنے ارد گرد موجود لوگوں کے ساتھ الجھتے رہیں گے۔ گھر میں بھی سکون کی دولت میسر نھیں آئیگی۔
اسی طرح اگر ہمیں اپنے آفس یا کاروبار سے کوئی خیر کی خبر موصول ہوئی ہے تو یہ دنیا جنت محسوس ہونے لگتی ہے۔ سب اچھا لگنے لگتا ہے اور انرجی کا پیمانہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ وقت گھر اور گھر والوں سے بھی دور گزرتا ہے لہذا اس وقت کا طمانیت بخش ہونا اشد ضروری ہے ورنہ ہم کام میں اپنی مکمل صلاحیتوں کا اظہار نہیں کر سکتے۔ پیشہ ورانہ مھارت بھی اسی وقت اپنے عروج پر ہوتی ہے جب کام میں من لگا رہے اور کام خوشی اور مزے سے کیا جائے ورنہ وقت تو گزر ہی جاتا ہے مگر حاصل وصول کچھ نھیں ہوتا۔
حال ہی میں مشہور زمانہ ہاورڈ یونیورسٹی نے اپنی ایک تازہ تحقیق شائع کی ہے جس کا موضوع انتھائی دلچسپ ہے۔ ناخوش گوار نوکریاں (Unhappiest jobs)۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ریسرچ 1938 میں شروع ہوئی اور 85 سال بعد اسکے نتائج اب سامنے آئے ہیں۔ اس تحقیق کو ملازمت اور خوشی کے بارے میں تعلق کے حوالے سے سب سے زیادہ دورانیہ کی ریسرچ کا شرف بھی حاصل ہو چکا ہے۔ یقیناً بانیان ریسرچ اس تحقیق کے نتائج سے قبل ہی دنیا کی "عارضی نوکری" سے فارغ ہوگئے ہوں گے مگر قربان جائیں ان گوروں پر کہ ایسا درخت لگاتے ہیں جس کا پھل آنے والی نسلیں کھاتی ہیں۔
اس ریسرچ میں دنیا بھر سے سات سو پیشہ ورلوگوں سے ان کے کام اور ملازمت کے ماحول وغیرہ کے بارے میں سوال کئے گئے۔ آپ کا کیا خیال ہے ملازمت یا جاب میں سب سے زیادہ خوشی کا سبب کیا ہو سکتا ہے؟ زیادہ تر لوگ غالباً اچھی تنخواہ کو خوشی کا "مورد الزام" ٹھہرائیں، اور وہ ملازمت پیشہ افراد جو اپنے باس کے رویے سے نالاں ہوں وہ ایسی نوکری کو بہترین ملازمت تصور کریں جس میں باس کا کوئی تصور نہ ہو۔
ہاورڈ یونیورسٹی کی پچاسی سالہ یہ "ضعیف" تحقیق نتیجہ اخذ کرتی ہے کہ unhappiest job وہ ہوتی ہے جس میں ٹیم ورک کی کمی ہو، جس میں مل کر کام کرنے کا ماحول میسر نہ ہو۔ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ ٹیم ورک پیداواری صلاحیت اور مجموعی پرفارمنس میں اہم کردار ادا کرتا ہے مگر اس سے انسانی مورال اور اطمینان قلب کی کیسی دولت نصیب ہوتی ہے اس کا پتا اب چلا ہے۔
سنتے اور پڑھتے تھے کہ انسان معاشرتی جاندار ہے، اسے اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے ساتھ رہنا پسند ہے کیونکہ اسے اسی طرح تخلیق کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غار کے زمانے کا انسان غار سے نکل کر بستیاں آباد کرنے نکل پڑا، قبائل بنائے، فیملی سسٹم اپنایا، خاندان بنایا، دوست احباب چنے، رشتے ناطے استوار کیے اور اپنے جیسے دوسرے انسانوں میں گھل مل گیا (اور انھیں پر حکومت کرنے لگا)۔ انسان کی یہی جبلت معاشرے کی تشکیل کا سبب بنی۔ اسی سے انسان نے اختلاف رائے کو برداشت کرنا بھی سیکھا اور ٹیم ورک کی افادیت سے بھی آشنا ہوا۔
ایک لمحے کے لیے ذرا تصور کریں آپ کی ملازمت انتہائی شاندار ہے، تنخواہ اور دیگر الاؤنسز بھی آپ کو غربت کی لکیر سے بہت اوپر لے جاتے ہیں، کمپنی نے آپ کو گھر بھی دے رکھا ہے اور اس گھر میں دنیا جہاں کی سہولیات بھی آپ کے قدموں میں ڈال دی گئی ہیں۔ ہفتے میں چار دن کام اور تین دن کی چھٹی بھی ہے مگر آپ کی جاب گھر سے دور ایک ویران سنسان علاقے میں ہے جہاں نہ بندہ نہ بندے کی ذات۔ آپ کے ساتھ کوئی کولیگ، کوئی ساتھی اور کوئی سپروائزر تک نہیں۔ نہ صرف کام کے لمحات بلکہ فارغ اوقات آپ کو مکمل نہیں تو آدھا پاگل ضرور کردیں گے۔
ڈپریشن، چڑچڑا پن، غصہ اور اکھڑپن جیسی خصلتیں ایسی ملازمت کا "ٹیک اوے" ہوتی ہیں ایسی ملازمت اور اس کی تمام تر عیاشیاں جس میں باس کی ڈانٹ نہ ہو، کولیگز کا مذاق نہ ہو، ساتھیوں کی گپ شپ نہ ہو، کوئی آپ کو سراہنے والا نہ ہو تو ایسی ملازمت ایک بوجھ لا حاصل کے سوا کچھ نہیں۔ اب ذرا تصویر کا دوسرا رخ بھی ملاحظہ کریں۔ آپ کی ملازمت میں تنخواہ اور الاؤنسز وغیرہ بہت اچھے نہ سہی مناسب ہیں، کولیگز کا ساتھ میسر ہے، باس کی شکل میں کوئی ہنسانے رلانے والا بھی اوپر ہے اور ماحول ایسا ہے کہ آفس جا کے تھکان کا احساس کم اور طمانیت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔
مل جل کر کام کرنے سے جہاں کام میں مدد ملتی ہے اور پرفارمنس کا گراف اوپر جاتا ہے وہیں دیگر سماجی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ یہ ٹیم ورک اور مل جل کر کام کرنے کا ماحول ہی دراصل ہماری لرزتی، کانپتی اور لڑکھڑاتی ملازمت کی گاڑی کو دھکا دیے رکھتے ہیں۔ ایسے ماحول میں ان ملازمین کا بھی بھلا ہو جاتا ہے جو "لیس اچیورز" ہوتے ہیں۔
کووڈ 19 نے دنیا کو گھر کیا بٹھایا ریموٹ ورک کی اصطلاح زبان زد عام ہوگئی۔ گویا اب آفس جانے کی زحمت بھی اٹھانے کی ضرورت نہ رہی اور گھر سے ہی کام کاج کا آغاز ہوا جس میں کام کم اور سہل پسندی زیادہ رہی۔ فری لانسرز نے تو ملازمت کو ایک نئی جہت عطا کر دی، اب آپ کو کسی کمپنی کو باقاعدہ جوائن کرنے کی بھی ضرورت نہیں، گھر بیٹھے مختلف پروجیکٹس لیں اور گھر بیٹھے کمائیں۔
اگرچہ یہ کوئی معیوب بات نہیں تاہم آفس کا روایتی ماحول جس میں ٹیم ورک اور سماجی میل جول ملازمت پیشہ افراد کی پیشہ ورانہ زندگی میں اہم جز کا حامل ہے، فری لانسرز کو دستیاب نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسا ماحول اپنانے کے لیے کامن اسپیس کی اصطلاح معرض وجود میں آئی اور فری لانسرز ایسی اسپیس کرائے پر حاصل کرنے لگے جہاں وہ دوسرے فری لانسرز کے ساتھ مل جل کر ایک ہی چھت کے نیچے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لا سکیں۔ ان کے اندر کا معاشرتی جاندار بالآخر جاگ گیا اور اسے دوسروں کی کمی محسوس ہونے لگی۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ جاب یا ملازمت میں ماحول کا کتنا اہم کردار ہے۔ اب تو ہاورڈ یونیورسٹی جیسی کہنہ مشق علمی درسگاہ نے بھی اپنی جامع تحقیق سے اس پر مہر ثبت کر دی ہے۔ اگر پھر بھی آپ کی ملازمت آپ کو خوشی اور اطمینان کی کیفیت میں مبتلا کرنے سے قاصر ہے تو ملازمت تبدیل کرنے کے بجائے خود کو بدلیں اور لوگوں کی کمپنی انجوائے کرنا سیکھیں۔