Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sultan Ahmed
  4. Pakistan, Seyahat Ki Jannat

Pakistan, Seyahat Ki Jannat

پاکستان، سیاحت کی جنّت

"جب آپ کوئی عمدہ اور خوبصورت کام کرتے ہیں اور کسی نے اس پر توجہ نہیں دی تو غمگین نہ ہوں کیونکہ ہر صبح سورج ایک خوبصورت نظارہ ہوتا ہے اور اس کے باوجود زیادہ تر تماش بین سورہے ہوتے ہیں"۔ یہ جان لینن کے سنہرے الفاظ ہیں اور یہ ہمارے اردگرد پھیلے ہوئے قدرت کے ان گنت شاندار نظاروں کے بارے میں بجا طور پر کہا گیا ہے جو ہر روز ہم پر قدرت نازل کرتی ہے، پھر بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس سے محروم رہتی ہے اور کبھی فطرت کو اس کے حقیقی رنگوں میں نہیں دیکھ پاتی۔

ذرا یاد کریں آخری بار کب آپ نے پرندوں کو باقاعدہ چہچہاتے سنا ہو، آسمان تاروں سے بھرپور دیکھا ہو یا چاندنی رات میں تاروں سے باتیں کی ہوں، سمندر کی لہروں کا سکوت اپنی روح میں جذب کیا ہو، کسی گھنے درخت کی چھاؤں کی ٹھنڈک میں سکون پایا ہو یا برف باری برستی ہوئی دیکھی ہو۔

پاکستان کو برف پوش شاندار چوٹیوں، روح کو سکون بخشتے مناظر، بل کھاتی شفاف ندیوں، دلکش رنگ برنگی جھیلوں، یخ بستہ آبشاروں، تاریخی مقامات، تاحد نگاہ وسیع صحراؤں، میلوں تک پھیلے ساحلی کناروں اور یہاں تک کہ سرد صحراؤں سے نوازا گیا ہے۔ پاکستان کا شمار ان چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں تمام موسم اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ موجود ہیں۔

مری، پاکستان کا سب سے زیادہ پسندیدہ سیاحتی مقام، دارالحکومت اسلام آباد سے تقریباً 1 گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ مری 100 سالوں سے ایک فعال اور سب سے زیادہ وزٹ کیا جانے والا سیاحتی مقام ہے اور یہ ان لوگوں کے لیے ایک ٹھنڈے پڑاؤ اور آرام دہ سرائے کی حیثیت رکھتا ہے جو شہروں کی مشینی، بارونق اور مسابقتی زندگی سے سکون، توانائی اور فرار چاہتے ہیں۔ سیاحوں کا مری کی جانب آسان سفر ہی لوٹ کھسوٹ کا سبب بھی بن رہا ہے۔ ویسے جس مہنگائی کا رونا مری میں رویا جاتا ہے یہ مصنوئی مہنگائی پاکستان میں کہاں نہیں۔ مری کے آس پاس گلیات کا سلسلہ ہے جو مری کی حسین بلندیوں سے زیادہ دلربا، سرسبز و شاداب، گھنے درختوں کا مسکن اور مسحورکن ہے۔ یہاں گزرے چند پل آپ کے دل کو سکون سے بھردینگے۔

پاکستان ٹریکنگ (trekking) اور ہائیکنگ کرنے والوں کے لیے جنت ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں ٹریکنگ اور ہائیکنگ کے بہت سارے مواقع موجود ہیں۔ یہ ٹریکس آپ کا ہاتھ تھامے آپ کو کسی پہاڑ کی برفیلی چوٹی، کسی وسیع و عریض اور سرسبز و شاداب چراگاہ، ان دیکھی جھیل، خاموش گلیشیر یا ان وادیوں تک لے جائیں گے جنہیں صرف ان آنکھوں نے دیکھا ہوتا ہے جن میں خواب سجتے ہیں اور بقول مستنصر حسین تارڑ صاحب کہ جن کے دماغ میں فتور ہوتا ہے۔ جہاں سکون آپ کی رگوں میں اور ٹھہراؤ آپ کے دماغ میں سرور و مستی کی کیفیت بھردے گا۔ جہاں جانور آزاد فضا میں سانس لیتے ہیں اور فطرت کو مزید حسین بنا دیتے ہیں۔ ان مناظر کو دیکھ کر آپ کی آنکھیں یقین نہیں کریں گی کہ پاکستان کس قدر خوبصورت ملک ہے۔ کچھ ٹریکس واقعی مشکل ہوتے ہیں اور سخت تربیت اور جامع مہارتوں کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن بہت سے ٹریک آسان ہیں اور کوئی بھی انہیں آسانی سے مکمل کر سکتا ہے۔ مشک پوری ٹاپ، اپنے نام کی طرح مشک سے پر، ان پریشانیوں سے پاک، مہارتوں سے آزاد ٹریکس میں شامل ہے جسے آپ ہنستے کھیلتے، اٹھکیلیاں کرتے، فطرت کے مناظر سے لطف اندوز ہوتے بآسانی مکمل کر سکتے ہیں۔

گلیات "گلی" کی جمع ہے۔ ان گلیوں میں نتھیا گلی، جھیکا گلی، ڈونگا گلی، اور بہت کچھ پیش کرنے والی "گلیاں" ہیں۔ ڈونگا گلی مشک پوری ٹاپ کی میزبان ہے جو نتھیا گلی سے تقریباً 5 کلومیٹر دور واقع ہے۔ آپ گاڑی کے ذریعے آسانی سے وہاں پہنچ سکتے ہیں۔ بشرطہ کہ گاڑی اپنی ہو۔ ورنہ غریبوں کی سواری پبلک ٹرانسپورٹ ہماری، ہر جگہ دستیاب ہے۔ مشک پوری ٹاپ سطح سمندر سے 9,200 فٹ بلند ہے اور یہ گلیات کی دوسری بلند ترین پہاڑی ہے۔ موسم بہت ٹھنڈا اور صحت بخش ہے۔

مشک پوری ٹاپ کا ٹریک تقریباً 3 کلومیٹر ہے اور یہ آپ کو مشک پوری کی چوٹی تک لے جاتا ہے جو گرمیوں کے موسم میں سرسبز و شاداب ہوتی ہے جب کہ سردیوں میں برف کی سفید چادر اس وادی کے حسن کو انسانی سوچ میں موجود خوبصورتی کے جتنے استعارے ہیں ان سے کہیں زیادہ جاذب نظر بنا دیتی ہے۔ ایک بار جب آپ وہاں پہنچیں گے تو آپ کو گلیات کے آس پاس کا علاقہ قدموں میں سبزقالین کی طرح بچھا ہوا اور دلفریب نظر آئے گا اور آپ خود کو کسی لاپتہ سلطنت کا بادشاہ سمجھنا شروع کر دیں گے۔ یہاں پہنچ کر میرے جیسے ٹریکرز کو خواہ مخواہ کے ٹو فتح کرنے جیسی خوشی کا احساس ہوتا ہے۔

ڈونگا گلی سے ٹریک شروع ہوتا ہے۔ جو لوگ چلنے کے عادی نہیں ہیں اور پہاڑ پر سنبھل کر نہیں چل سکتے وہ واکنگ سٹک کرائے پر حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر ٹریک پر برف ہو تو پھسلن سے بچنے کے لیے واکنگ اسٹک اور موزے جنہیں مقامی زبان میں"بریک شو" کہا جاتا ہے، بآسانی دستیاب ہیں۔ دھیمے من موجی قسم کے چلنے والوں کو چوٹی تک پہنچنے میں تقریباً 2 سے 3 گھنٹے لگ سکتے ہیں۔ آپ ٹریک کے دوران وہاں بنے ہوئے شیڈز میں آرام کر سکتے ہیں اور وادی کے دلکش نظاروں سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر سکتے ہیں۔

ٹریک بالکل مشکل نہیں ہے۔ مگر اتنا آسان بھی نہیں ان لوگوں کے لئے جو چلنے کے بھی عادی نہیں۔ ٹریک محض پیدل چلنے کا راستہ ہے اور تھوڑی بہت چڑھائی شامل ہے۔ ٹریک کے دوران کھانے کے لیے اسنیکس، جوس اور پانی کی بوتل لینا یاد رکھیں۔ یہ اس خوبصورت سفر کی خوشی میں اضافہ کرے گا۔ پیدل سفر سخت ہے اور اسے چڑھنے کے لیے طاقت کی ضرورت ہوگی کیوں کہ آپ پہاڑ کی چڑھائی چڑھ رہے ہیں لہذا زیادہ سامان لے جانے کی زحمت میں نہ پڑیں۔ اس سے آپ ہلکا پھلکا بھی محسوس کریں گے اور سفر کو انجوائے بھی کر سکیں گے۔ لیکن اپنی زندگی کے ان انمول لمحات کو کیپچر کرنے کے لیے کیمرہ یا سیل فون نہ بھولیں۔

تھوڑی سی منصوبہ بندی سے گلیات یا کسی بھی پر فضا مقام پر کفایت شعاری سے جایا جا سکتا ہے۔ اپنی آمدنی کا ایک حصّہ خالص اپنے لیے بھی مختص کرنا چاہیے۔ زندگی کی ریس میں سر پٹ دوڑتے ہم مشینی پرزے ذرا کچھ دل و دماغ کی ترو تازہ غذا اور روح کی تسکین کا بندوبست بھی کر لیا کریں تو بے جا صحت کے مسائل بھی کم ہونگے اور بچنے والی ڈاکٹروں کی بھاری بھر کم فیسوں اور دواؤں کی آسمان کو چھوتی قیمتوں سے با آسانی گھومنے کا بجٹ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔

اگلی بار، اگر آپ گلیات میں ہیں، تو مشک پوری ٹاپ پر جائیں اور اس خوشی سے لطف اٹھائیں۔ اس مقام پر پہنچنے میں کبھی دیر نہیں لگتی جہاں آپ کا دل راستے کا تعین خود کرے۔

Check Also

Aik Chiragh Aur Aik Kitab

By Muhammad Saqib