Garmi Ki Chuttiyan Kaise Guzare?
گرمی کی چھٹیاں کیسے گزاریں؟
جویریہ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا کیونکہ آج اسے دادا دادی کے گھر جانا تھا اور اس کے پیر زمین پر نہ پڑتے تھے۔ وہ ہمیشہ ہی دادا کے گھر جا کر خوش رہتی تھی۔ ایسا نہیں ہے کے وہ اپنے گھر خوش نہیں تھی مگر دادا دادی کے گھر کی عیاشی، ہر وقت پروٹوکول، دکان سے من پسند چیزیں خریدنا، دادا دادی کا لاڈ اور سب سے بڑھ کر آزادی۔ گرمیوں کی چھٹیاں تھی اور جویریہ کودادا کے گھر جانے کی اجازت مل گئی۔
آپ بھی یقینی طور پر دیگر والدین کی طرح پریشان ہونگے کہ بچوں کی گرمیوں کی چھٹیاں ہیں اور کس طرح اس وقت کو کار آمد بنایا جاسکتا ہے۔ اگرچہ مہنگائی بھی ہتھوڑے برسا رہی ہے اور سارے بجٹ کو تہس نہس کر دیتی ہے مگر جو والدین صاحب حثیت ہیں وہ جنّت نظیر شمالی علاقہ جات کی سیر کو نکل جاتے ہیں اور دیگر بہت سے اپنے آبائی علاقوں کو جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
کچھ عرصے سے اسکولز اور نجی ادارے سمر کیمپ کا انقعاد کرتے ہیں جس میں بچوں کی تعمیری تربیت اور معاشرتی مہارتیں سکھانے کے بجاے وقت گزاری اور پیسہ بٹوری زیادہ ہوتی ہے۔ بچوں کو چھٹیوں کا کام کروا کے سمر کیمپ کا حق ادا کر دیا جاتا ہے۔ ماں باپ بھی یہی چاہتے ہیں کے بچے اسکول کا کام کرلیں اور وقت بھی گزر جائے۔ بچوں نے اگر چھٹیوں میں بھی اسکول میں ہی پناہ گزین رہنا ہے تو چھٹیوں کا مقصد ہی کیا رہ جاتا ہے۔ اسی اسکول کی عمارت اور ماحول میں ہی چھٹیاں گزار کر بچے اسکول سے متنففر ہوجاتے ہیں۔ بچوں کو چھٹیوں میں تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے جس سے وہ دوبارہ چارج ہو کر اسکول لگن سے جائیں۔
یاد رہے کہ جون جولائی کی چھٹیاں انگریز سرکار کے دور سے چلی آ رہی ہیں جب انگریز برصغیر کی گرمی سے پریشان ہو کر اپنے دیس سدھار جاتے تھے۔ ہم چونکہ ان گرمیوں کے عادی ہیں لہذا آج تک ہم انکا مصرف نہ سمجھ سکے بس انھیں کسی طرح گزارنا ہے تاکہ اگست میں اسکول کھلیں اور بچے پھر سے اس مشینی دور میں واپس چلے جائیں جس کا وہ پرزہ ہیں۔ جہاں آج بچوں کو موبائل فون سے دور کرنے کی ضرورت ہے وہیں کورونا نےاپنوں سے جو فاصلے پیدا کیے انھیں بھی کم کرنے کی ضرورت ہے۔
سمر کیمپ کو حقیقی "ثمر" کیمپ بنانے کے لئے نہ صرف اپنے گھر کو بلکہ اپنے نانا نانی، دادا دادی، ماموں، چاچو وغیرہ کے گھروں کو سمر میں کیمپ بنا لینا چاہیے۔ بچوں کو رشتوں سے ملوائیں، کہانیاں سنائیں اور سنوائیں، بزرگوں کی محفل میں کیمپ کروائیں اور حقیقی تربیت کریں جو کسی سمر کیمپ میں بھاری بھرکم فیسیں دے کر حاصل نہیں کی جاسکتی۔
موبائل سے جان چھڑانے کے لئے یہ فیصلہ کر لیں کے یہ کوئی کھلونا ہے یا نہیں۔ اگر تو یہ کھلونا ہے تو بیشک بچوں کو کھیلنے دیں ورنہ بچوں کو اس کے نشے سے دور رکھیں۔ خود انکے سامنے استمعال سے گریز کریں۔ کتابیں، میگزین پڑھیں، پرانے دور کے کھیلوں کا رواج پھر سے شروع کریں اور اپنے ثمر کیمپ کا حصّہ بنائیں۔ اپنے دور کے کھیل جیسے لوڈو، کیرم، کروڑ پتی لنگڑی پالا، پٹھو گرم جیسے سستے مگر تعمیری کھیل بچوں پر نہ صرف مثبت اثرات مرتب کرینگے بلکہ وہ ساتھ رہنا، مل کر کھیلنا، بانٹنا بھی سیکھ سکیں گے اور فی زمانہ ان صلاحیتوں کی اشد ضرورت ہے کہ ایک طرف بچے موبائل سکرین سے چپکے ہوئے ہیں تو دوسری طرف مل جل کر کھیلنے کا رجحان خطرناک حد تک کم ہوا ہے۔
آجکل بچوں میں فزیکل کھیل کھیلنے کا جنون نہ ہونے سے صحت کے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ چھٹیوں میں بچوں کو پارکس لے جائیں، کسی بھی قریبی تفریح گاہ لے جائیں، کبھی آئیس کریم کھلانے لے جائیں۔ مقصد بچوں کو لوگوں سے ملانا ہے اور باہر کے ماحول میں کیسے رہنا ہے، کیسے برتاو کرنا ہے یہ سب بچوں کی کردار سازی کے لئے ضروری ہیں۔ بد قسمتی سے یہ کردار سازی اسکول میں ناپید ہے۔
بچوں پر ان دو مہینوں میں کچھ مسلّط نہ کریں بےجا روک ٹوک نہ کریں بلکہ انکی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے تھوڑی آزادی دیں۔ ایسا سمر کیمپ حقیقی ثمر کیمپ ہوگا جس میں بچے جنہوں نے مستقبل میں والدین کا کردار نبھانا ہے، یہ جان سکیں گے کہ گھر بھی اسکول کی طرح ایک تربیتی ادارہ ہے اور ہمارے خاندان کے لوگ بھی اساتذہ کی طرح کچھ نہ کچھ سکھانے کے اہل ہیں۔