Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sultan Ahmed
  4. Gallian

Gallian

گالیاں

گالیاں گالیاں ہی ہوتی ہیں چاہے دور سے دی جائیں یا قریب سے، آہستہ دی جائیں یا تیز آواز میں۔ یہ رنگ، نسل، ثقافت اور حتیٰ کہ زبان سے بھی آزاد ہوتی ہیں۔ گالیاں دی جائیں، بکی جائیں یا پھر نکالی جائیں یہ رہتی اور کہلاتی گالیاں ہی ہیں۔ بہت سے لوگ گالیوں کی اچھی خاصی جگالی کرتے ہیں اور ہر فقرے میں 1، 2 گالیاں ضرورتََ یا عادتََ شامل کرتے ہیں۔ اگرچہ گالیوں کا رنگ نہیں ہوتا مگر یہ رنگ لے آتی ہیں۔ گالیاں آپ خود نکالیں تو حق جب کہ کوئی اور بکے تو گالی گولی لگنے لگتی ہے۔

فی زمانہ ہر شعبے کی طرح گالیاں بھی خوب ترقی کر رہی ہیں۔ گزرے وقتوں میں لوگ گالیاں spoken انداز بیان میں دیا کرتے تھے۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی آمد کیا ہوئی گویا گالیوں کو بھی پر لگ گۓ۔ اب گالیاں نہ صرف لکھی جاتی ہیں بلکہ ٹائپ بھی کی جاتی ہیں۔ اگرچہ گالیوں کا کوئی ڈپلوما یا کورس نہیں کرایا جاتا کم از کم ہماری نظر سے تو ایسا کوئی ادارہ نہیں گزرا نہ اشتہار دیکھنے کی سعادت ملی مگر گالیوں کی تعداد اور quality میں خاطر خواہ اضافہ ہی دیکھنے بلکہ سننے میں آیا ہے۔

اس فن کے "ماہرین" نے بھی جدّت کو اپنا لیا ہے اور خوب اس فن کی ترویج و ٹویٹ ہو رہی ہے۔ ہماری ناقص معلومات اور مطالعہ نہ کرنے کی خصلت کا شاخسانہ ہے کہ اس موضوع پر کوئی تحقیقاتی مطالعہ نہ کر سکے۔ اس کا ایک نقصان تو مستند حوالہ جات کی کمی کی شکل میں سامنے آیا اور دوسرا بدتر نقصان یہ ہوا کہ ہم اس پھلتے پھولتے فن کے اسرار و رموز نہ سیکھ سکے جسکا غم ہمیں کھاۓ جاتا ہے اور دل مچلتا ہے کہ دو چار گالیاں دے ڈالی جائیں۔

مگر چونکہ اس فن سے نا آشنائی آڑے آتی ہے لہٰذا یہ خشک تحریر یونہی بدمزہ ہی رہے گی۔ مگر قارئین یہاں بتانا مقصود یہ ہے کہ گالیوں کا صحت پر اثر ثابت شدہ ہے اگرچہ ہمارے پاس کوئی مستند حوالہ نہیں تاہم گالیاں اپنے آپ میں antibiotic اثر رکھتی ہیں۔ پہلی بات تو یاد رکھنے والی یہ ہے کہ گالی دینے والا اور لینے (سننے) والا برابر ہر گز نہیں۔ گالیاں "نکالنے" سے دل ہلکا ہوتا ہے اور blood pressure بھی کنٹرول ہو جاتا ہے۔

چونکہ غصّہ ایک energy ہے لہٰذا اسے جسم سے باہر نکالنا از حد ضروری ہے۔ گالیاں بہترین پلیٹ فارم سمجھی جاتی ہیں اس انرجی کو فرار کا راستہ دینے کا۔ جبکہ دوسری طرف گالیاں سننے والا (receiver) اپنے آپ میں انرجی محسوس کرنے لگتا ہے اور پھر وہ speaking turn لے لیتا ہے اب اس کی باری آ جاتی ہے انرجی کی شکل بدلنے کی۔ جہاں اتنی گالیاں گالیاں ہو رہی ہیں وہیں کچھ گالیوں کی اقسام جاننا بھی اشد ضروری ہے تاکہ دینے والا اس شعبے کا ماہر لگے۔

گالیوں کی پہلی اور "پھیکی" قسم تو وہ ہے جو حقیقتََ شاید گالیاں کہلانے کی مستحق ہی نہیں۔ گالی دینے والے کے لئے ہماری نظر سے کوئی لفظ نہیں گزرا تاہم "گالی باز" مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ایک طرح کا صوتی اثر پایا جاتا ہے۔ تو قارئین پہلی پھیکی قسم کی گالیاں وہ ہیں جو ہلکے پھلکے انداز میں اپنے موڈ کو بیان کرنے کے لئے ادا کی جاتی ہیں جیسے ذلیل، کمینے وغیرہ مگر گالی باز انہیں گالیوں کے اہل قرار نہیں دیتے اور ہاں کچھ جانور بیچارے بھی اس مقصد کے لئے استعمال میں لائے جاتے ہیں۔

گالیوں کی سب سے مقبول قسم خواہ مخوا کی گالیاں ہیں جو حسب توفیق، حسب ذائقہ، حسب ضرورت، حسب حال، حسب جلال اور حسب خواہ مخواہ دی جاتی ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تو خواہ مخواہ گالیاں دیتا ہے۔ گالیوں کی دوسری قسم کسی کی خوبی یا صلاحیت کی قبولیت (endorsement) ہے۔ مثلاََ فلاں شخص کتنا اچھا ڈرائیور ہے۔ قارئین خالی جگہ ہر گز پر نہ کریں۔ یہاں گالیاں کسی کی صفاتی خوبی بن جاتی ہیں اور سپر لیٹو degree بن جاتی ہے۔

گالیوں کی اگلی ٹائپ بہت ہی وکھری ٹائپ ہے اس ٹائپ کا تعلق انسانوں سے ہے۔ کچھ اشخاص ایسے بھی نفیس ہوتے ہیں کہ جب ان کے لب سے گالیاں جھڑتی ہیں تو یقین نہیں آتا کہ یہ نفیس انسان بھی یدطولہ رکھتے ہیں۔ گالیوں اور رشتوں میں بہت گہرا رشتہ ہے۔ اگر رشتے ناطے نہ ہوتے تو شاید گالیوں کا وجود ناپید ہو جاتا۔ یہ المیہ ہے کہ خوبصورت رشتے گالیوں میں استعمال میں لاۓ جاتے ہیں اور ان کا تقدّس پامال کیا جاتا ہے۔ سچ پوچھیں تو یہاں پہنچ کر گالیاں واقعی بری لگنے لگتی ہیں۔

قارئین باتیں تو سب کرتے ہیں اور گالیاں بھی بہت سے لوگ بجلی گیس کے بلوں کی طرح باقاعدہ دیتے ہیں مگر ہم آپ کو ان سے بچنے یا احتراز کرنے کا نسخہ بھی بتاۓ دیتے ہیں، عمل کرینگے تو شاید افاقہ ہو جاۓ ورنہ گالیاں کون سا چاند یا مریخ پر پڑی ہیں۔ جب بھی گالی دینے یا بکنے کا ارادہ ہو تو گالی کو کسی ملتے جلتے "صاف ستھرے" لفظ سے بدل کر نکالیں مگر یاد رہے کہ غصّہ اور چہرے کے تاثرات ہر گز تبدیل نہ ہونے پائیں۔

یاد رہے گالی کا مقصد اندرونی انرجی باہر نکالنا ہے۔ مثلاََ "بھینس کی پونچھ" اور "بینک چور" "shampoo" باقی آپ خود بنا سکتے ہیں۔ ان کی باقاعدہ مشق ہی آپ کو گالیوں سے دور لے جا سکتی ہے اور دینی ذرا ٹکا کے ہے۔ قارئین ارادہ تو کچھ مشق کرانے کا بھی تھا آپ کو مگر اتنی پھیکی تحریر پڑھ کر کہیں آپ گالم گلوچ پر نہ اتر آئیں لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ اختتام کیا جاۓ ورنہ۔

Check Also

Bhai Sharam Se Mar Gaya

By Muhammad Yousaf