Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sultan Ahmed
  4. Degree Ba Muqabla Skill

Degree Ba Muqabla Skill

ڈگری بمقابلہ سکل

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 31 فیصد (%31) نوجوان بیروزگار ہیں اور یہ سب اعلی تعلیم یافتہ ہیں۔ ان کے پاس ڈگری بھی ہے اور معلومات کا خزانہ بھی۔ تو پھر کیا وجہ ہے کے اتنے سارے نوجوان برسر روزگار نہیں ہیں۔

وجہ بڑی سادہ ہے۔ انہیں کوئی کام نہیں آتا۔ ان میں ہنر کی کمی ہے۔ ان نوجوانوں نے بیس بیس سال تعلیم اور ڈگری حاصل کرنے میں تو گزار دی، مگر زندگی کی گاڑی کام سے چلتی ہے۔ انٹرویو میں آپ سے پہلا سوال پوچھا جائے گا کہ آپ کیا کرسکتے ہیں؟ آپ اپنے اطراف نظر دوڑایئے، آپ کو کوئی بھی ہنر مند شخص بیکار اور فارغ نہیں ملے گا۔ وہ دہاڑی ضرور لگا لےگا۔ ہنر مند شخص چاہے کسی فیکٹری یا کمپنی میں ملازمت اختیار کرے یا خود کام کرے جسے آج کل فری لانس کہتے ہیں، وہ پیسہ کما لے گا اور یوں اپنی زندگی کی گاڑی رواں دواں رکھے گا۔

اس کے مقابلے میں ڈگری لینے والا تعلیم یافتہ شخص وہ نوکری تلاش کرے گا جس کی اس نے تعلیم حاصل کی ہے۔ یاد رہے جاب اور کام میں یہی فرق ہوتا ہے۔ جاب یا نوکری تلاش کرنے والا شخص اپنے ہی شعبے کی نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے اگرچہ اسے کوئی نہ کوئی کام مل رہا ہوتا ہے مگر وہ اپنے شعبے کی تلاش میں نوکری نہ ملنے سے کام سے انکاری ہو جاتا ہے۔

دوسری صورتحال یہ ہوتی ہے کہ اسے اس کہ شعبے کی جاب تو مل رہی ہوتی ہے مگر اس کے مطابق تنخواہ کم ہوتی ہے۔ وہ اپنی ڈگری پر انویسٹمنٹ دیکھتا ہے اور اس کے ساتھ تنہا کا موازنہ کرتا ہے۔ حالانکہ وہ کام تو ابھی جانتا ہی نہیں۔ اگر اسے مفت میں بھی اپنے شعبے کا کام ملے تو کر لینا چاہیے۔ اس سے اسے سب سے قیمتی چیز حاصل ہوگی یعنی اسکل اور تجربہ۔ ڈگری آپ کو کسی نوکری کے انٹرویو تک تو پہنچا سکتی ہے مگر اس کے بعد اسکل ہی وہ فرق ہے جو آپ کو ملازمت کی سیڑھی چڑھنے میں مدد دے گی۔

Glass door نامی ویب سائٹ جو کہ کمپنیز کا ڈیٹا فراہم کرتی ہے، نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ گوگل اور ایپل جیسی بڑی کمپنیز بھی آج کل اسکل کو ڈگری پر فوقیت دیتی ہیں۔ کچھ اسکلز کی دنیا میں بہت زیادہ ڈیمانڈ ہے جبکہ اس کے مقابلے میں اعلی ترین ڈگری بھی کمیاب اسکل سے مقابلہ نہیں کر سکتی۔

اسی طرح کے ایک اور سروے کے مطابق گزشتہ برس 136 بیروزگاروں نے خودکشی کی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد ڈگری ہولڈر کا فرسٹریشن لیول کتنا بڑھ جاتا ہے اگر اگر وہ ملازمت کے حصول میں ناکام رہے۔ سی پیک پاکستان اور چین کا ایک جوائنٹ وینچر ہے۔ اس کا زیادہ تر کام پاکستان میں ہو رہا ہے مگر آپ حیران ہوں گے کہ پاکستانی انجینئرز بے روزگار ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ چین ہمارے انجینئرز پر بھروسا نہیں کرتا۔

دوسری طرف اگر ہنرمندوں کی بات کی جائے تو پاکستان جس میں کام "جگاڑ" سے زیادہ اور ہنر یا مہارت سے کم کیے جاتے ہیں وہاں اچھا ہنرمند ملنا بھی ایک مشکل امر ہے۔ یہ اتنا ہی مشکل ہے جتنا کراچی کی سڑکوں سے بارش کا پانی نکالنا۔ اندازہ کریں ایک اچھا الیکٹریشن، اچھا پلمبر یا اچھا گاڑی کا میکینک ڈھونڈنا اذیت ناک عمل ہے۔ ساری زندگی ہم اچھے کاریگر کی تلاش میں ہی رہتے ہیں۔ آپ زندگی میں شاید ہی کسی کاریگر کے کام سے مکمل مطمئن ہوئے ہونگے۔ ANI کی ایک رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں 814 لوگ صرف بجلی لگنے کے واقعات میں جاں بحق ہوئے۔ اس کی ایک بڑی وجہ اچھی وائرنگ کا نہ ہونا ہے جس سے نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ مہارت کا اندازہ آپ اس سے بخوبی لگا سکتے ہیں۔

ہاورڈ یونیورسٹی کی ایک ریسرچ کے مطابق کسی شخص کے پیشہ ورانہ کیریئر میں اس کی تعلیم اور تجربے کا حصہ محض 15فیصد ہے۔ جبکہ اس کی ترقی میں اسکل کا حصہ 85 فیصد ہے۔ اس کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کو ملازمت کرتے ہوئے پانچ سال یا اس سے زیادہ ہو چکے ہیں اور آپ ترقی نہیں کر رہے تو آپ میں موجودہ دور کی اسکلز ناپید ہیں۔

ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جس میں معلومات چند گھنٹوں بعد ہی پرانی ہو جاتی ہے۔ آجکل کمپنیز کو ایک سے زیادہ ہنر رکھنے والے لوگوں کی ضرورت ہے۔ آج اگر آپ ہر دو سال بعد کوئی بھی نیا ہنر یا نئی اسکل نہیں سیکھتے تو آپ اپنی ملازمت حتی کہ کاروبار میں بھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ بلیک بیری نامی موبائل کمپنی کا نام تو سنا ہوگا۔ بلیک بیری نے سب سے پہلے سمارٹ فون ایجاد کیا۔ 2009 میں اس کا مارکیٹ شیئر 50 فیصد تھا۔ مطلب دنیا کے ہر ایگزیکٹو کے پاس بلیک بیری تھا۔ بلیک بیری ایک اسٹیٹس سمبل بن چکا تھا۔ اس کا مقابلہ ایپل سے تھا۔

ایپل نے سب سے پہلے ٹچ اسکرین متعارف کرائی۔ جب بلیک بیری کے سی ای او کو اپنے موبائل فون کو ٹچ سکرین پر شفٹ کرنے کو کہا گیا تو اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ موبائل کوئی کھلونا نہیں کے اسے بچوں کی طرح ٹچ کیا جائے۔ اس کے مطابق موبائل فون میں سے بٹن کو کبھی بھی نکالا نہیں جا سکے گا۔ مگر وہ غلط ثابت ہوا اور صرف پانچ سال میں۔۔ جی ہاں 2014 میں بلیک بیری کا شیئر صرف ایک فیصد رہ گیا اور 2022 میں بلیک بیری ماضی کا حصہ بن کر وقت کی گرد میں گم ہوگئی۔

صرف وقت کے ساتھ نہ چلنا اور تکبر بلیک بیری کو لے ڈوبا۔ جب یہ اتنی بڑی کمپنی زمانے کی اسکلز نہ اپنا کر ختم ہو سکتی ہے تو ایک شخص سوچیں کتنا نقصان اٹھائے گا۔ اگر صرف کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا استعمال ہی سیکھ لیا جائے تو آپ کے لیے موجودہ دور کی 90 فیصد اسکلز سیکھنا کوئی مسئلہ نہ ہوگا۔

ڈگری اور اسکل یا ہنر کا مرکب ہی بہترین فارمولا ہے۔ ڈگری حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اگر اسکلز پر بھی توجہ دی جائے تو یقینا ملازمت بھی آسانی سے مل جائے گی۔ دوسری طرف اگر صرف اسکل یا ہنر ہے تو ایک خاص حد تک ہی ترقی کی جاسکتی ہے۔ ڈگری کے بغیر آپ کبھی بھی لیڈنگ رول میں نہیں جا سکتے۔ ڈگری اسکلز کے ساتھ مل کر ترقی کی سیڑھیاں تیزی سے چڑھنے میں آپ کی مدد کر سکتی ہے۔ ہمارے ملک میں آبادی کا 60 فیصد سے زائد نوجوان ہیں۔ اگر آبادی کا اتنا بڑا حصہ تربیت اور ہنر کے بغیر صرف ڈگری حاصل کر لے گا تو وہ کارخانوں کے آگے لائن میں ہی کھڑا رہے گا۔ یقینا اتنے بڑے طبقے کو روزگار فراہم کرنا ممکن نہ ہوگا۔

ہر کام حکومت نہیں کر سکتی۔ ہمیں یہ تو بتایا جاتا ہے کہ اسکول اور کالج جانے کی ایک عمر ہوتی ہے مگر یہ باور نہیں کرایا جاتا کے اسی اسکول کالج کے دور میں ہم نے زندگی کی ضروری مہارتیں اور ہنر بھی سیکھنے ہیں۔ ہمارے ملک میں الگ سے ہنر اور مہارتیں سکھانے کے ادارے انتہائی قلیل ہیں۔ جبکہ اسکول تعلیم کا فریضہ انجام دے کر اس میں سے تربیت غائب کر دیتے ہیں۔ ڈگری کا ایک صفحہ تھما کر بچے کو زندگی کے ایک ایسے بپھرے ہوئے سمندر میں دھکیل دیا جاتا ہے جس کی تند و تیز موجیں اسے ڈبو دیتی ہیں۔

ڈگری ہولڈر یہ سمجھتا ہے کہ بڑی بڑی کمپنیاں بانہیں پھیلائے اس کا استقبال کرنے کو تیار ہیں۔ مگر حقیقت اس کے برعکس اور تلخ ہے۔ جس طرح ہمارے ملک میں تیزی سے آبادی بڑھ رہی ہے، مقابلہ بھی سخت تر ہوتا جا رہا ہے۔ اسکول جانے کی عمر سے ہی بچوں کو کوئی نہ کوئی ہنر اور مہارت سکھانی چاہیے۔ ڈگری کے ساتھ ساتھ جب وہ ہنر مند ہوں گے تو یقینا وہ ایک آسودہ زندگی گزاریں گے اور مستقبل کی غیر یقینی صورتحال سے محفوظ رہیں گے۔

Check Also

Taunsa Barrage

By Zafar Iqbal Wattoo