Brands Ke Naamo Ki Dilchasp Kahaniyan
برانڈز کے ناموں کی دلچسپ کہانیاں
نوکیا کے نام سے کون واقف نہیں۔ ایک وقت تھا جب نوکیا کمپنی کا ہر 5 سیکنڈ میں ایک موبائل بکتا تھا اور اسکا دنیا کی موبائل مارکیٹ میں سب سے زیادہ حصّہ تھا۔ نوکیا کا آغاز Finland سے ہوا۔ دراصل وہاں ایک نوکیا نامی قصبہ ہے جہاں نوکیا کا پہلا کارخانہ لگا جس کی وجہ سے نوکیا نام پوری دنیا میں چمکا۔ نوکیا نے 1865 میں گودا کی چکی سے آغاز کیا۔ اس کے بعد ٹایلیٹ پیپر بھی بناۓ۔ 1967 میں نوکیا نے دوسری کچھ کمپنیز کے ساتھ مل کر مختلف کام شروع کیے جن میں الیکٹرانکس کا کاروبار بھی شامل تھا۔ اس کے بعد نوکیا نے موبائل فون کی دنیا میں انقلابی کردار ادا کیا۔
موبائل کا ذکر ہو تو iPhone ذہن میں آنا لازمی ہے۔ Steve Jobbs کو iPhone کا فادر سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کے Steve کو چونکہ سیب بہت پسند تھے لہذا اس نے ایپل نام پسند کیا اور steve ایپل سے پہلے Atari نامی کمپنی میں کام کرتا تھا جو اب ایپل کی حریف تھی لہذا وہ چاہتا تھا کے اس کی کمپنی کا نام directory میں حریف سے پہلے لکھا جاۓ۔ آپ نے ایپل کا لوگو بھی دیکھا ہوگا جس میں سیب کو تھوڑا سا کھایا ہوا دکھایا جاتا ہے۔ یہ مشہور سائسدان Isaac Newton کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کیا گیا۔ تادم تحریر ایپل کی برانڈ ویلیو 355 ارب ڈالر ہے۔ پہلی بار تاریخ میں کسی کمپنی نے 3 کھرب ڈالر کی حد کو عبور کیا ہے۔ برانڈ ویلیو دراصل وہ قیمت ہے کے اگر کوئی ایپل کا صرف نام خریدنا چاہے تو اسے اتنی قیمت ایپل کو ادا کرنی ہوگی۔
آپ نے ڈرامے اور کہانیوں میں "کیا حکم ہے میرے آقا" یقیناً سنا اور دیکھا ہوگا اور ایک موٹا اونچے قد کا خوفناک جن دھویں کے ساتھ ایک چراغ میں سے برآمد ہوجاتا تھا۔ گوگل آج کل کا الہ دین کا وہ چراغ ہے جو ہر حکم پورا کرتا ہے اور الہ دین کے چراغ والے جن سے کہیں تیز بھی ہے۔ جہاں آپ دنیا جہاں کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر کبھی کچھ لکھ کر ذرا سرچ کے نیچے دیکھیں تو آپ کو اپنی سرچ کے بیشمار نتائج دکھائی دینگے یہی دراصل گوگل بنانے والے دو دوستوں Sergie Brin اور Larry Page کا مقصد تھا کے ایک سرچ کے بہت سے نتائج ظاہر ہوں۔ حقیقت میں یہ نام ایک غلطی کا کرشمہ ہے۔ اصل لفظ Googol ہے جس کا مطلب 1 کے بعد 100 صفر ہیں اور یہ ریاضی کی اصطلاح ہے۔ سپیلنگ میں غلطی کی وجہ سے دنیا میں گوگل نامی جن وارد ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک بہت بڑی کمپنی بن گئی۔
کیا آپکو پتہ ہے دنیا کا سب سے بڑا جنگل اور دریا کونسا ہے؟ جی ہاں۔۔ Amazon۔۔ جیف بیزوس کو ایسا نام چاہیے تھا کے وہ تلاش میں سب سے اوپر ہو یعنی A سے شروع ہو۔ ایمیزون نے اسکی مشکل آسان کردی۔ ایمیزون واقعی مصنوعات کا دریا ہے۔ ایمیزون کا جی ڈی پی(1.3 کھرب ڈالر) دنیا کے کئی ملکوں سے زیادہ ہے ان ملکوں میں آسٹریلیا، اسپین اور کوریا وغیرہ بھی شامل ہیں۔ (بہت جلد ایمیزون پر بزنس کرنے کے حوالے سے ایک کالم تحریر کیا جائیگا)۔
باٹا بلا مبالغہ ہر گھر میں پایا جاتا ہے۔ کم سے کم آپ نے یہ نام تو ضرور سنا ہوگا۔ جوتوں کا یہ بین الاقوامی برانڈ تھامس باٹا نامی شخص نے 1894 میں شروع کیا تھا۔ تھامس باٹا کا تعلق چیک ریپبلک سے تھا۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کے باٹا کی بنیاد بھارت میں رکھی گئی تھی۔ باٹا دوسری جنگ عظیم میں شدید مشکلات سے دو چار رہا کیوں کے اس کے بہت سے ملازمین جبری طور پر جنگ میں سپاہی کے طور پر شامل کر لیے گئے تھے مگر ان کی بیویوں نے باٹا کو سمبھالے رکھا اور یہ برانڈ دنیا بھر کے قدموں کی زینت بنا۔
وطن عزیز میں بھی بہت سے ادارے اپنی مثال آپ ہیں۔ بہت سے اداروں کے نام ان کے قائم کرنے والوں کے نام پر رکھے جاتے ہیں جب کے کچھ کے نام باقاعدہ دلچسپ کہانیاں اپنے اندر سموئے ہوتے ہیں۔ TCS کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ یہ کورئیر کمپنی پی آئی اے کے ایک انجنیئر خالد نواز اعوان نے 1983 میں قائم کی۔ اس کے نام کا مخفف ہے Tranzum courier service۔ کہا جاتا ہے کے ترانظم خالد نواز کی پوتی کا نام ہے۔
ڈالڈا پاکستان سے کون واقف نہیں۔ 1930 میں قاسم ڈاڈا نامی تاجر نے ہالینڈ سے وناسپتی گھی در آمد کرنا شروع کیا کیوں کے اس زمانے میں دیسی گھی بہت مہنگا ہوا کرتا تھا اور لوگوں کی قوت خرید سے باہر تھا۔ 1931 میں وناسپتی مینوفیکچرنگ کے نام سے ایک ادارہ قائم ہوا جس نے بعد ازاں Unilever سے الحاق کر لیا۔ قاسم ڈاڈا گھی ڈاڈا وناسپتی کے نام سے بیچتے تھے۔ Unilever نے قاسم ڈاڈا سے درخواست کی کے اپنے نام میں لفظ لیور میں سے L شامل کر لیں جسے قاسم ڈاڈا نے قبول کر لیا یوں ایک بڑے پاکستانی برانڈ نے جنم لیا۔
یہ بات ہے 1969 کی جب حاجی محمد علی صاحب نے ایک چھوٹی سی جگہ سے بریانی بچنے کا آغاز کیا۔ دیگر بازاری بریانی فروشوں کے مقابلے میں حاجی صاحب کی بریانی زیادہ ذائقے دار اور لذیذ تھی۔ کیوں؟ کیوں کہ حاجی صاحب نے اطراف کے آفس میں کام کرنے والے سینکڑوں ملازمین کے لیے وہ فارمولا تلاش کر لیا تھا جس کی انہیں ضرورت تھی۔ اور وہ فارمولا تھا گھر میں تیار کردہ بریانی۔ چونکہ حاجی صاحب ایک دور اندیش اور ویژن رکھنے والے شخص تھے اس لیے ان کا شروع کیا گیا بریانی کا چھوٹا سا کام بعد ازاں سٹوڈنٹ بریانی کے نام سے مشہور و معروف برانڈ بن گیا۔ اس نام کی وجہ حاجی صاحب یہ بتاتے تھے اس پاس چونکہ بہت تعداد میں اسکول کالجز تھے اسی بنا پر سٹوڈنٹس بریانی نام کلک کرتا تھا۔
آجکا کالم آپ کو کیسا لگا کمینٹ میں ضرور بتائیں اور اگر آپ کسی کمپنی کے نام کی وجہ تسمیہ جاننا چاہیں تو کمینٹ سیکشن میں نام لکھ بھیجیں۔