Baat Hai Nuqta Ki
بات ہے نقطہ کی
نقطہ (ponit) کیا ہے؟ بظاہر ایک چھوٹا، حقیر، بے مقصد نقطہ۔ مگر در حقیقت یہ غیر اہم سا نقطہ اپنے اندر بہت طاقت و اہمیت رکھتا ہے۔ یہی نقطہ تو اس کائنات کی ابتدا ہے۔ جی ہاں بگ بینگ تھیوری یہی تو کہتی ہے کہ کائنات ایک نقط سے عدم سے وجود میں آگئی۔ آسمان پر نقطوں کی شکل میں سجے کھربوں ستارے در حقیقت بہت ہی بڑے اور روشن جسم ہیں۔ انہی نقطوں میں ایک ہمارا سورج بھی ہے۔ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ حیثیت کا تعلق بظاہر اس کی ظاہری وضع قطع سے نہیں ہوتا۔
ذرا غور کریں تو سارا علم فقط ایک نقطہ میں سمایا ہوا ہے اور وہ نقطہ "اقرا" ہے۔ قرآن کا پہلا لفظ جو نازل ہوا۔ پڑھنے کا حکم دیا جانا ہی علم کی ابتدا و انتہا کا نقطہ ہے۔ مطالعہ کے بغیر علم کا حصول دشوار اور کٹھن ہے۔ عام مشاہدہ بھی یہی ہے کہ صاحب علم لوگ صاحب مطالعہ بھی ہوتے ہیں۔
حساب کتاب اور معیشت میں نقطہ (اشاریہ) کی قدرو منزلت کا کسے معلوم نہیں۔ محض ایک چھوٹا سا نقطہ کسی بھی عدد کی اوقات بدلنے کو کافی ہے اور کاروبار میں تو سارا کھیل ہی اشاریہ والے نقطہ کا ہے کہ بزنس کرنے والے فقط اشاریہ سے کروڑ پتی ہوجاتے ہیں یقین نہ آئے تو پیٹرول کی قیمت میں جو رقم اشاریہ کے بعد آتی ہے اور جسے آپ نے کبھی لینے پر اسرار تک نہیں کیا اسے دن بھر کی sale سے ضرب دے کر دیکھیں یا شاپنگ بل میں اعشاریائی فرق پر غور کریں اور دیکھیں کتنے گاہک وہ رقم جو پیسوں میں بنتی ہے طلب تک نہیں کرتے۔ ہے نہ نقطہ کی بات۔
کھیل کے عالمی مقابلوں میں تو نقطہ (اشاریہ) کا فرق سونے کا تمغہ اور چیمپئن شپ دلا سکتا ہے۔ 100 میٹر دوڑ دنیا کے تیز ترین انسان کا فیصلہ کرتی ہے۔ دنیا بھر سے دوڑنے والے بھرپور پریکٹس، مشقت اور سخت ٹریننگ کے بعد دوڑنے کے عالمی مقابلے میں اپنی قوت و صلاحیت آزماتے ہیں۔ 1908 میں پہلی بار تاریخ میں کوئی ایتھلیٹ 10 سیکنڈز میں 100 میٹر دوڑ سکا۔ اس کے بعد 1968 تک یہ ریکارڈ برقرار رہا جب Jim Hines نے 100 میٹر نو اشاریہ نو سیکنڈز میں دوڑ کر 10 سیکنڈز کی نفسیاتی حد کو توڑا۔ محض 5 سیکنڈز کا نقطہ سر کرنے میں حضرت انسان نے آدھی صدی سے زیادہ وقت لیا۔ اب یا تو یہ حضرت انسان کی سستی تھی یا اسے حقیر و بے توقیر سمجھے جانے والے نقطے کی کرشماتی طاقت سمجھ لیں۔
اس کے بعد تو یہ سمجھا جانے لگا کے 100 میٹر ریس 9 سیکنڈز میں دوڑنا ناممکن ہے مگر اس نفسیاتی حد کو انسان نے چلینج سمجھ کر نا صرف قبول کیا بلکہ اسے شکست دے کر یہ ثابت کیا کے انسان مشکل اور ناممکن کو ممکن میں بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اب کون نہیں جانتا آج دنیا کا تیز ترین انسان جمیکا کا یوسین بولٹ ہے جس نے 100 میٹر نو اشاریہ پانچ سیکنڈز میں دوڑ کر یہ اعزاز حاصل کر رکھا ہے اور اب تک کوئی 9 سیکنڈز کے نقطہ کو 8 میں نہیں بدل سکا۔ یہ نقطہ کی لڑائی جاری رہیگی اور انسان فقط اس ایک نقطہ کو نیچے لانے کی تگ و دو میں مصروف عمل رہینگے۔
بات اگر لسانی قوائدو ضوابط کی کی جائے تو یہی نقطہ (full stop) لفظوں اور فقروں کے معنی تک بدل ڈالے۔ مثلا کسی فقرے کے اخیر میں نقطہ نہ ہو تو سمجھا جائیگا کے فقرہ ابھی جاری ہے اور پڑھنے والا انتظار میں رہے گا کہ بات ابھی نا مکمل ہے۔ مخفف الفاظ میں نقطہ کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کے اس سے ان کے معنی بدل جاتے ہیں۔ مثلا USA امریکا کا نام ہے مگر درمیان میں نقطے لگانے سے امریکی فضائیہ کی طرف اشارہ ہے یعنی U.S.A. نقطے اگر زباں میں نہ ہوں تو ہم بہت سی زبانیں نہ لکھ سکیں نہ پڑھ سکیں۔ وہ مثال تو آپ نے سنی ہوگی کہ ایک نقطے نے محرم سے مجرم بنا دیا۔ انہی نقطوں سے ہے وجود لسان میں رنگ۔
ایک نقطہ اور بھی ہے اور یہ نقطہ مملکت خداداد کے لیے نہ صرف از حد ضروری ہے بلکہ اس سے ملکی بقا بھی وابستہ ہے۔ یہ وہ نقطہ ہے جو غالباً سائز کے اعتبار سے یا تو بہت بڑا ہے یا واقتاً چھوٹا سا ہی ہے۔ یہ وہ نقطہ ہے جس پر اس مملکت خدا داد کی سیاسی و غیر سیاسی جماعتیں و غیر جماعتیں کبھی بھی جمع نہ ہو سکیں۔ اسی کا خمیازہ پوری قوم اپنی پیدائش سے بھگت رہی ہے اور جانے کس نقطے تک بھگتے گی۔
زندگی کیا ہے؟ زندگی ایک نقطہ یعنی پیدائش سے دوسرے نقطہ یعنی موت تک کا سفر ہے۔ فقط دو نقطوں میں لٹکتی یہ رواں دوں رنگوں سے مزین زندگی۔ نقطوں کے گرد گھومتی یہ زندگی ایک نطفے کے نقطے سے جنم لیتی ہے اور موت کی آخری ہچکی یعنی ایک آخری نقطے پر اپنے انجام کو پہنچتی ہے۔ ذرا غور تو کریں درمیان کے ان نقطوں پر جو زندگی کی تگ و دو کا حصّہ ہیں، سارا بچپن اور لڑکپن تعلیمی نقطے کے گرد گھومتا ہے پھر روزگار و معاش کی چکی میں پیستا ایک نا ختم ہونے والا نقطہ۔۔ گھر بار، دوست احباب، رشتے ناطے، اور صحت اور بیماری میں گزرے ایام زیست کے دقیق نقطے۔
غرض زندگی ان نقطوں کی مالا میں پروئی ہوئی ہے جو اس آخری نقطے کی جانب گامزن ہے جس سے فرار کسی زی روح کو ممکن نہیں۔ در حقیقت یہی اصل نقطہ ہے اگر اس نقطہ کی حقیقت سمجھ آجاۓ۔