Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sultan Ahmed
  4. Agar Tum Aise Hi Mar Gaye To

Agar Tum Aise Hi Mar Gaye To

اگر تم ایسے ہی مر گئے تو

گلیات اور ایبٹ آباد میں موسم سرما کی پہلی برفباری کا آغاز ہوگیا، سیاحوں کی بڑی تعداد لطف اندوز ہونے پہنچ گئی۔ "میں نے یہ خبر پڑھی اور دوست سے کہنے لگا، " یار یہ سیاح برفباری میں کیا لینے جاتے ہیں، انہیں اس سے کیا ملتا ہے اور یہ گلیات کونسی جگہ کا نام ہے؟" میرے دوست نے میری طرف غور سے دیکھا اور کہا کہ زندگی ایک ہی شہر میں پیدا ہونے اور مرنے کا نام نہیں، اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بے پناہ خوبصورت مقامات اور دلکش نظاروں سے نوازا ہے۔

فطرت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ یہاں جلوہ گر ہے۔ اگر تم یہ انجوائے نہیں کرتے تو یہ بھی ناشکری ہے۔ وہ کہتے ہیں نہ کہ حرکت میں برکت ہے تو بھائی بالکل ٹھیک کہتے ہیں، اگر تم روزگار کے معاملے میں کہیں پھنس جاؤ یا ترقی رک جاۓ تو سفر کرو۔ اس نے مزید کہا گلیات حسین وادیوں کا مجموعہ ہے جس میں نتھیا گلی، ڈونگا گلی، جھیکا گلی وغیرہ شامل ہیں۔ میں نے چڑ کر کہا، "ہاں بھائی یہ امیروں کے چونچلے ہیں، کراچی سے مری یا ایبٹ آباد جانا کونسا سستا ہے، ہم سے اپنی دال روٹی پوری نہیں ہو رہی ہے، یہ گھومنے پھرنے کی عیاشی ہم افورڈ نہیں کر سکتے۔ "

میرے دوست نے تنک کر کہا کہ تم کنویں کے مینڈک ہی رہنا، سارا سال کام کر کے تم تھکتے نہیں ہو، تمہیں ہفتہ دس دن بریک نہیں چاہیے؟ گھومنے سے ہماری جسمانی اور دماغی بیٹڑی چارج ہو جاتی ہے اور ہم پھر سے تازہ دم ہو کر شہری زندگی کی مشین کا پرزہ بننے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ تمہارے بچے اور بیوی ڈیزرو کرتے ہیں سال میں کم سے کم ایک کوالٹی وکیشن۔ اس سے بچوں کی لرننگ بھی ہوتی ہے، وہ سوشل سکلز بھی سیکھتے ہیں اور انہیں مختلف لوگوں اور کلچر کا بھی پتہ چلتا ہے جو کہ کتابوں سے نہیں سیکھا جا سکتا۔

کچھ دن تو اپنی بیوی کو بھی ایسے دو جس میں اسے پکانا نہ پڑے اور نہ برتن دھونے کی فکر۔ اس نے کہا ضروری نہیں تم مری ہی جاؤ۔ بہت سے آپشن ہیں۔ پھر پوچھا "تمہیں پتہ ہے دریاۓ سندھ کہاں ہے؟" میں نے اپنی معلومات پر فخر کرتے ہوئے کہا، "بیوقوف سندھ کا دریا ہے تو سندھ میں ہی ہے ہوگا نہ" اس نے پوچھا "یہ آتا کہاں سے ہے؟" میں شرمندہ ہو کر سوچنے لگا۔ اس نے کہا "یار، کبھی حیدرآباد ہی چلے جاؤ دریائے سندھ جسے شیر دریا بھی کہتے ہیں، دیکھنے کہ کیسا خوبصورت نظارہ ہے اس کا وہاں۔

ایک انگریز دیوانہ جوڑا تبت، جہاں سے دریاۓ سندھ کا آغاز ہوتا ہے وہاں سے اس دریا کے ساتھ ساتھ سفر کرتے کرتے بھارت اور افغانستان سے ہوتا ہوا پاکستان میں داخل ہوا اور اسی کے ساتھ ساتھ سفر جاری رکھا۔ " میں نے کہا یار دل تو چاہتا ہے کہیں جانے کا مگر آفس سے چھٹیاں نہیں ملتی یا پھر بچوں کا اسکول۔ میرا دوست جیسے اسی موقع کے انتظار میں تھا، وہ فوراََ بولنے لگا، تمام سرکاری اداروں اور پرائیویٹ کمپنیوں میں سالانہ چھٹیاں ہوتی ہیں اور درخواست دینے پر مل بھی جاتی ہیں۔

مگر تم ہر بار ان کی جگہ کیش لے لیتے ہو۔ میں نے عاجز آ کر کہا "میرے دوست، گھر میں بوڑھے اور بیمار ماں باپ ہیں، آفس اور گھر کے نہ ختم ہونے والے کام، زندگی بہت مصروف ہے، تمہیں کیا مسئلہ ہے تمہارا تو گاؤں میں بھی گھر ہے، تم وہاں جا سکتے ہو۔ " یہ سن کر تو وہ غصے میں پھول گیا مگر پھر فوراََ ٹھنڈا ہو کر کہا "گھومنا پھرنا صرف عیاشی اور انجوائے کرنے کا نام نہیں، سفر تمہیں زندگی کے بہت سے تجربات سکھاتا ہے، سفر کرنے سے لوگوں کی پہچان ہوتی ہے اور سب سے بڑی بات آپ نئے دوست بناتے ہیں۔

میں گاؤں اس لیے جاتا ہوں تاکہ میرے بچوں کا ان کی آبائی جگہ اور فطرت سے رشتہ جڑا رہے، وہ اپنی اصل کبھی نہ بھولیں اور وہاں کے لوگ بھی میرے بچوں کو جانتے ہوں، ساتھ ہی سال میں ایک مرتبہ "چینج" بھی ملتا ہے۔ اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سوچو تم اگر ایسے ہی فوت ہو گئے کہ تم نے صرف کراچی کا سمندر ہی دیکھ رکھا ہے، طویل ریگستان، بلند و بالا پہاڑ، بل کھاتے دریا، سرسبز اور برف پوش چوٹیاں، تاحد نگاہ تک وسیع چراہ گاہیں۔

دیوسائی جیسا دنیا کا دوسرا سب سے بلند میدان، قدیم تہذیب کے امین کھنڈرات، شاہراہ قراقرم جیسی عجوبہ سڑک، ٹیکسلا کا قدرتی تھیٹر، دنیا کا بلند ترین پولو گراؤنڈ، ٹرینگو ٹاورز جیسا عجوبہ اور سب سے بڑھ کر دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی اور اس سے ملحقہ نظارے دیکھے بنا ہی فوت ہو گئے تو تم نے دنیا میں آ کر کیا کیا؟ کام تو تمہارے بعد بھی چلتا رہے گا۔ تم اپنی زندگی میں تھوڑا سا تو اپنے لیے بھی جیو۔ تف ہے تم پر، تم قدموں میں پڑی اتنی خوبصورتی سے کیسے صرف نظر سکتے ہو؟

تم نے سوئٹزرلینڈ جانے کے خواب تو دیکھے ہوں گے؟ میں نے خوش ہو کر کہا "ہاں کیوں نہیں، خواب دیکھنے پر کوئی پابندی ہے کیا؟" میرا دوست جو مجھے لازمی کہیں بھیجنے پر تلا ہوا تھا، نے پھر میری معلومات چیک کرنے کے لئے سوال داغ دیا کہ بتاؤ پاکستان کا دوسرا اونچا پہاڑ کونسا ہے؟" میں نے معذرت خواہانہ انداز میں شرمندہ ہوتے ہوئے سر جھکا لیا۔ اور جیسے وہ اسی موقع کی تلاش میں تھا۔ "تمہارے تین ماسٹرز کرنے کا کیا فائدہ، تمہیں پاکستان کا ہی کچھ اتا پتا نہیں"۔

اب پانی سر سے اونچا ہوتا جا رہا تھا اور میں باقاعدہ اس میں غوطے لگا رہا تھا۔ بات میری ڈگریوں تک آ گئی تھی۔ میں نے جھنجھلا کر کہا "معاف کرنا میں نے جغرافیہ یا مطالعہ پاکستان میں ماسٹر نہیں کیا۔ وہ پھر گویا ہوا" دنیا میں 14 بلند ترین پہاڑ ہیں اور ان میں سے پانچ پاکستان میں ہیں۔ دنیا کی خوبصورت ترین جھیلیں پاکستان میں ہیں، دنیا کے خوبصورت ترین ساحلی نظارے، سبزہ زار، اور شفاف پانیوں کے دریا قدرت نے پاکستان کی جھولی میں ڈالے ہیں۔

دنیا میں اگر کہیں گلیشیر کسی ملک میں سب سے زیادہ ہیں تو وہ پاکستان ہے۔ مگر تم تو زاہد کی نہاری اور سٹوڈنٹ کی بریانی سے آگے سوچتے ہی نہیں، اپنے شہر کی حدود سے تھوڑے سے نکلو اور دیکھو کتنا سکون تم پر برستا ہے۔ تھوڑے تو سر پھرے بنو، کبھی تھر کے ویران و بیابان حسین ریگستانوں میں بھٹک جاؤ یا بلوچستان کی ساحلی لکیر پر سفر کر کے دیکھو، زندگی میں ایک بار صرف ایک بار نظاروں کے امام، روئی جیسی گالوں پر پڑتی سفید برف اپنے بدن اور اطراف میں محسوس کرو۔

فقط ایک بار ہی شیر دریا، دریائے سندھ کی لہر تھام کر بیٹھو اور بیٹھے رہو، کبھی تو سنہری دھوپ میں لہلہاتے کھیت کھلیان اپنی آنکھوں سے دیکھو، اپنی زندگی میں سے اپنے لیے چند ساعتیں نکال کر راکاپوشی جیسی حسین چوٹی کے روبرو ہو کر فقط ایک لمحے کے لیے اس کا حصہ بن جاؤ۔ اور ہو سکے تو ایک ہی بار ملنے والی اس قیمتی زندگی میں ہی دنیا کے سب سے خوبصورت نظاروں والے ٹریک پر پاؤں رکھو اور امر ہو جاؤ۔

مگر تم کچھ نہیں کرو گے کیوں کہ تم سمجھتے ہو کہ تمہارے کام تمھارے بنا کوئی نہیں کر سکتا، تم ہی اکیلے اپنے آفس کا بوجھ اٹھاۓ پھرتے ہو۔ کیا تم سے پہلے دنیا میں کام نہیں ہوتا تھا یا تمھارے بعد نہیں ہوگا؟ تم دنیا میں مرنے کے لیے جی رہے ہو" اب تو میں بھول گیا کہ یہ میرا دوست ہے اور میرا پارا بھی چڑھ گیا۔ میں نے غصّے سے کہا" تم میری لائف نہیں گزارتے، اپنے مسائل میں جانتا ہوں، میری چادر کا سائز بھی مجھے ہی پتا ہے۔ " اس نے کہا تم ایسا کیوں سمجھتے ہو کہ یہ بہت مہنگا ہے، یہ اتنا مہنگا نہیں جتنا تم سمجھ رہے ہو۔

اس کے علاوہ ہم زندگی میں بہت سے ایسے کام بھی کرتے ہیں جس میں بیجا اخراجات کرتے ہیں، آجکل ہماری آمدنی کا بڑا حصہ فضول شاپنگ کی نظر ہو جاتا ہے۔ اگر ہم تھوڑی سی بچت کر لیں یا اس کام کے لیے کمیٹی ڈال لیں تو یہ آسان ہو جائیگا۔ سفر کرنا خود پر انویسٹ کرنا ہے۔ یہ نئی راہیں کھولے گا۔ رزق صرف کھانا پینا نہیں بلکہ یہ الگ الگ نظارے، فطرت کی حسین تصاویر اور لوگ بھی ہمارے نصیب کا رزق ہوتے ہیں۔ انہیں بھی اپنی دعاؤں میں جگہ دو اور اپنا نصیب پا لو۔

Check Also

Israeli Parliman Aur Amit Halevi Se Mulaqat

By Mubashir Ali Zaidi