10 10 10 Ka Asool
10، 10،10کا اصول
ہر روز، ہم بہت سارے فیصلے کرتے ہیں۔ میں آج کیا پہنوں، کونسا جوتا لینا ہے اور کہاں سے؟ یہ ملازمت چھوڑ دینی چاہیے یا ابھی نہیں؟ اس ویک اینڈ پر کونسے دوستوں یا رشتے داروں سے ملنا ہے؟
ہم روزانہ چھوٹے، بڑے، ذاتی نوعیت کے، پیشہ ورانہ، سماجی، معاشی اور مذہبی فیصلے کرتے ہیں۔ اکثر ہمیں دوسروں کے لئے بھی فیصلے لینے پڑتے ہیں۔ زندگی میں کیے گئے اچھے فیصلے ہمیں ہمیشہ یاد رہتے ہیں جب کہ تلخ اور برے فیصلے لاش کی طرح ہوتے ہیں جنہیں عمر بھر اٹھانا پڑتا ہے۔ ان فیصلوں کے ساتھ کاش کا لفظ بھی جڑ جاتا ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ کاش ہم نے یہ فیصلہ نہ کیا ہوتا۔ آپ کے فیصلے آپ کی زندگی کا تعین کرتے ہیں۔ آپ جو ملازمت منتخب کرتے ہیں وہ آپ کے کیرئیر کے لیے عمومی رفتار کا تعین کرتی ہے۔ آپ جو کھانا کھاتے ہیں وہ آپ کی صحت کا ایک اہم جزو ہے۔ آپ کا شہر اور اپارٹمنٹ یا گھر آپ کے معیار زندگی کو بڑی حد تک متاثر کرتے ہیں۔
اپنی کتاب "فیصلہ کن: زندگی اور کام میں بہتر انتخاب کیسے کریں" میں، مصنفین چپ اور ڈین ہیتھ فیصلوں کو ایک مختلف نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ اور جانچتے ہیں کہ ہم اکثر ان کے بارے میں غلط کیوں نظر آتے ہیں۔ آپ کو کسی فیصلے پر کتنی بار افسوس ہوا؟ نہ صرف یہ، بلکہ آپ نے کتنی بار اس کی وجہ سے بہت سا قیمتی وقت، پیسہ اور توانائی ضائع کی؟ وہ ملازمت جو ختم ہوگئی، اس یونیورسٹی کا انتخاب کیوں کیا یا وہ سرمایہ کاری جس میں کمی آئی؟ لائف پارٹنر کا انتخاب زندگی کے اہم ترین فیصلوں میں سے ایک ہے۔
تصور کریں کہ اگر آپ بہتر فیصلے کرتے ہیں تو آپ کی زندگی کیسی ہو سکتی ہے۔ ایک صحیح فیصلہ آپ کو بہت کچھ دے سکتا ہے بالکل اسی طرح فقط ایک ہی غلط فیصلہ بہت کچھ چھین بھی سکتا ہے۔ بہت سے فیصلے بےضرر بھی ہوتے ہیں۔ لیکن ہم اکثر ایسے فیصلے کیوں کرتے ہیں جس پر ہمیں بعد میں پچھتاوا ہوتا ہے؟ اور ہم اپنے فیصلے کیسے بہتر بنا سکتے ہیں؟ فیصلے کرنا ایک آسان اور روٹین کی بات ہے۔ ہم کسی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے بہترین حل یا متبادل تلاش کرتے ہیں، انہیں پرکھتے ہیں اور سب سے بہترین کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔
مثلاََ بھوک لگی ہے تو کھانے میں کیا کیا آپشن دستیاب ہیں، سب سے بہتر آپشن کا انتخاب کر لیا جاتا ہے۔ ہمارے زیادہ تر فیصلوں کے پیچھے جذبات کا عمل دخل ہوتا ہے، ہمارا دماغ جیسے محسوس کرتا ہے ویسا فیصلہ صادر کر دیتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے جذبات عارضی ہوتے ہیں اور تھوڑی دیر قبل محسوس کی گئی بات جب فیصلہ بن کر سامنے آتی ہے تو ندامت میں بدل جاتی ہے۔
اسی لیے فیصلہ سازی میں دور اندیشی ہونی چاہیے۔ اپنے بیوی بچوں پر چلانا یا نوکری اس وجہ سے چھوڑ دینا کے آپ کا باس بہت ڈانٹ ڈپٹ کرتا ہے یا ایک ہی وقت میں بہت سا میٹھا کھا لینا شاید وقتی اطمینان فراہم کر دے مگر بعد میں تکلیف دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ دراصل ہم فیصلوں کو جذبات سے نتھی کر کے وقتی فائدہ دیکھ کر مطمئن ہو جاتے ہیں اور ان فیصلوں کے دور رس نتائج سے صرف نظر کرتے ہیں۔
فیصلہ کرنے کا ایک آسان اور مؤثر طریقہ ہے جس سے فیصلہ سازی میں مدد لی جا سکتی ہے۔ بہتر فیصلے کرنا دراصل اتنا مشکل نہیں ہے۔ آپ کو قلیل مدتی جذبات میں مبتلا ہونے کے بجائے عقلی اور طویل مدتی نتائج کے بارے میں سوچنے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ 10۔ 10۔ 10 کا اصول آپ کو ایسا کرنے میں مدد کرے گا۔ اس میں ایک دس، منٹ، دوسرا 10 مہینے، اور تیسرا دس سال کو ظاہر کرتا ہے۔
یہ اتنا ہی آسان ہے جتنا مؤثر۔ جب آپ کو کسی مشکل فیصلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو آپ اسے تین حصوں میں تقسیم کر دیں۔ آپ اپنے آپ سے پوچھتے ہیں: میں اب سے دس منٹ، دس مہینے اور دس سالوں میں اس کے بارے میں کیسا محسوس کروں گا؟ ان تینوں ٹائم فریموں میں خاص بات یہ ہے کہ وہ آپ کو اپنے فیصلے کا تین مختلف نقطہ نظر سے جائزہ لینے دیتے ہیں۔ وہ آپ کو ایک بہت متوازن، جامع اور حقیقت پسندانہ جائزہ فراہم کرتے ہیں کہ آپ کی پسند کیسی ہوگی۔
آپ کے جذبات اب بھی طے کریں گے کہ آپ دس منٹ میں اس کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں۔ یہ ایک اچھا نقطہ ہے اور اندازہ لگانے کا طریقہ ہے کہ آپ اس وقت صورتحال کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں۔ دس مہینوں میں، آپ کے رویے کے بہت بڑے ہونے کا امکان ہے، اگرچہ آپ کو کیسا محسوس ہوتا ہے اس پر مختلف اثر پڑے گا۔ آپ کے قلیل مدتی جذبات ختم ہو گئے ہیں، اور آپ کی پسند کے درمیانی سے طویل مدتی اثرات آپ کی زندگی میں ظاہر ہو گئے ہیں۔
اب سے دس سال بعد، آپ کا انتخاب یا تو مکمل طور پر غیر متعلقہ یا ممکنہ طور پر زندگی کو بدلنے والا ہوگا، جس کے درمیان بہت کم ہوگا۔ کسی انتخاب کی طویل مدتی اہمیت کا اندازہ لگانے کا یہ ایک اچھا طریقہ ہے اس سے پہلے کہ آپ اس کے بارے میں اپنے دماغ کو چھیڑتے ہوئے ہفتوں گزاریں۔ یہاں ہم ایک حقیقی مثال دیکھتے ہیں۔ میں نے اپنا کیریئر ایچ آر مینیجمنٹ سے شروع کیا کیونکہ میں نے اسی میں ایم بی اے کر رکھا تھا۔ ابتدائی دو تین سال کافی کٹھن اور محنت کے تھے تاہم اس کے بعد میں اسسٹنٹ مینیجر اور مینیجر کی پوسٹ تک پہنچ گیا۔
یہاں میری زندگی میں ایک بڑی تبدیلی آئی۔ مجھے کارپوریٹ سیکٹر کا ماحول راس نہیں آ رہا تھا، مجھے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے میں اپنے پیشن سے دور ہوتا جا رہا ہوں۔ میرا پیشن مجھے ٹیچنگ میں نظر آنے لگا اور پھر میں نے ایم اے انگریزی کرنے کے لیے کارپوریٹ سیکٹر کی بہت ہی شاندار نوکری چھوڑ دی۔ یہ نوکری چھوڑنے سے قبل میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے ایم اے انگریزی کرنا چاہیے، اس کے لیے مجھے اس نوکری اور اس شعبے کی قربانی دینا ہوگی، شروع کے دس منٹ تک تو یہ فیصلہ جذبات کی رو سے کیا جانے والا فیصلہ تھا کیونکہ انگریزی میں ماسٹرز کرنا میرا خواب تھا۔ مگر یہ اتنا آسان نہیں تھا۔
پھر میں نے سوچنا شروع کیا، دس مہینے بعد میں کہاں کھڑا ہوں گا؟ کیا مجھے کوئی مناسب نوکری مل جائے گی؟ اور پھر دس سال بعد؟ یقیناََ اس فیصلے سے میرے کیریئر میں 360 ڈگری بدلاؤ آنا تھا، تو کیا میں اس کے لئے تیار ہوں؟ اور پھر میں نے اپنے فیصلے کے دس مہینے اور دس سال کے درمیان کے نتائج، مشکلات اور چیلنجز کا تجزیہ کرنا شروع کر دیا۔ یوں جذبات کی رو میں بہہ کر شروع ہونے والا فیصلہ طویل مدت میں ایک اچھا فیصلہ ثابت ہوا۔ فیصلہ کرنے سے پہلے فیصلے کو وقت دیں۔ اسے دس مہینے اور دس سال کے ٹائم فریم میں رکھ کر دیکھیں، درمیان میں آنے والی رکاوٹیں، مسائل اور حالات کا جائزہ لیں اور پھر فیصلہ کریں۔
ہماری زندگی کے فیصلے وقت کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں اور وقت آنے پر ہمیں ہر حال میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے ایک فیصلہ قدرت کا بھی ہوتا ہے اور ہوتا وہی ہے جو قدرت فیصلہ کرتی ہے کیوں کہ قدرت بہترین فیصلہ ساز ہے اور اس کا فیصلہ اٹل ہوتا ہے۔ ہمارے اور قدرت کے درمیان ایک مضبوط ڈور ہے جو ہمیں آپس میں جوڑے ہوئے ہے اور یہ ڈور ہے دعا۔ ہم انسان اپنے ربّ سے دعاؤں کے ذریعہ قربت میں رہتے ہیں۔ لہٰذا اس ڈور کو تھامے رہیں اور اپنے کیے ہوئے فیصلوں میں قدرت کی تائید شامل رکھنے کے لیے دعا کا دامن کبھی نہ چھوڑیں۔