Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sondas Jameel
  4. The Legend Of Mola Jutt

The Legend Of Mola Jutt

دی لیجنڈ آف مولا جٹ

فلم گاٹے سے گٹے تک پنجابی کلچر، تاریخ، لباس، مصنوعات اور بیشتر لوکیشنز سے گندھا فکشنل ورک ہے۔ کوئی مانتا ہے کوئی نہیں مانا، کوئی کنفیوز ہے۔ مگر یہ ایسا فکشنل ورک ہے جس پر سچ کا گمان ہو مگر دماغ میں سچ کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے کے لیے کوئی حقیقی حوالے نہ ہوں۔ بنانے والوں نے سینما کی نشست پر بیٹھتے ہی ڈیڑھ لائنی بات کہہ کر خود کو ناظرین کے سچ سے اور اپنی گپ سے یہ کہہ کر بری الزمہ کر دیا کہ "سب رنگ بازی اے سوھنیا"۔

نتوں کا جرگہ، گاؤں کا بار نما ہوٹل، آجو باجو سے دوہری کلہاڑیاں نکال کر گھماتا نوری نت، دھندلکی مٹیالی تاریکی میں گھوڑے پر گنڈاسا تھامے بیٹھا اور گول اکھاڑے کے بیک اسٹیج سے بپھری باڈی لینگویج سے نکلا مولا جٹ۔

یہ سب نظارے گیم آف تھرونز میں لنسیٹر ہاوس میں بیٹھی سمال کونسل، ونٹیج لکڑی کے گلاسوں میں کھانے کے ساتھ سرخ وائن پیتے جنگجوؤں، گھنے بالوں کی مضبوط چوٹی کیے لہراتی داڑھی آنکھ میں سور کا بال و پر لیے وحشی ہوئے وائکنگ، گھوڑے پر نیزا تھامے بیٹھے وائٹ والکر اور روم کے اکھاڑے میں اترتے گلیڈئیٹر کے واضح اور ناقابل اگنور قسم کے نہایت شدید تاثر چھوڑتے ہیں۔

سینماٹوگرافی پر ان سب موویز اور سیزن کی چھاپ سے انکار ممکن نہیں ہے۔ میکرز کا بھی اس بات سے فرار ممکن نہیں کہ وہ ان ساری ہالی وڈ پروڈکشنز سے انتہا درجے کے متاثر نہیں اور ان کے اعصاب پر ان کا سحر طاری نہیں اور انہوں نے ان سب سے ہی تھوڑا تھوڑا شعوری لاشعوری طور پر سمیٹ کر سینماٹوگرافی کی کاکٹیل بنا کر پنجابی کا اسٹرا لگائے پیش کی ہے۔

جنہوں نے متذکرہ بالہ شوز اور فلمز نہیں دیکھیں ان کے لیے یہ کیمرہ ورک سینماٹوگرافی "اوئے ہوئے" والی ہو سکتی ہے جنہوں نے بدقسمتی سے یہ چیزیں دیکھ رکھیں ہیں ان کے اذہان جگہ جگہ ریمانڈر دیں گے، کنفیوز کریں گے۔ محظوظ بھی کریں گے؟ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں۔

قدیم مولا جٹ کی کہانی زبان زد عام اور کردار فوک کلچر کا حصہ بن چکے تھے تو پبلک میں فلم کی پچ پہلے ہی بیٹھی تھی یوں سمجھ لیجیے فلم کی مارکیٹنگ ہو چکی تھی کہانی اور کرداروں میں کچھ زیادہ نیا کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ مولا جٹ وہی انتقامی مولا جٹ ہے جو چوالیس سال پہلے تھا، نوری نت وہی ولن ہے جس کا مرنے اور مارنے کے مقصد واضح نہیں۔ فلم کے ڈائلاگز پر تحفظات فلم کا ٹریلر نکلتے ہی تھے سو اب بھی برقرار ہیں۔

پنجابی مکالموں میں پنجابی ہے مگر پنجابیوں والی کوئی بات نہیں، جو لذیر ڈائلاگ تھے وہ نوری نت اپنی بہن دارو کے ساتھ مل کر کھا گیا۔ ماہرہ کب سین میں آتی ہے، کہاں سے آتی ہے، کیا چاہتی ہے، کیا کہتی ہے اور کب اسکرین چھوڑ جاتی ہے مولا جانتا ہے اور بس مولا ہی سمجھتا ہے۔ عورتوں کے سارے کردار فقط مین کردار کی کریکٹر ڈویلپمنٹ کے لیے تھے ان کی اپنی کوئی پہچان نہیں تھی۔

نتوں کی شدید مردانہ محفل میں اکلوتی خاتون محفل حمیمہ ملک خوب جچی اور نہایت سجی۔ سینسر بورڈ سے گلے رہیں گے کہ یہ دور ضیاء کا نہیں تھا حمیمہ کو ہم جانتے ہیں جی دار بچی تھی فواد خان کو منانا کہاں مشکل تھا اوپر سے کلچر بھی فکشنل تھا فلم میں ایک اور حوالے سے ہلچل ہو سکتی تھی مگر ڈائریکٹر شرما گیا یا سنسر بورڈ نے کھانس دیا۔ ایک بات بڑی ضروری کہ فلم جس یانرا میں فال کرتی تھی یا جس آڈینس کو کھینچنا مقصود تھا اس میں مکمل کامیاب ٹھہری۔

اب مدعے کی بات رکھ رہی ہوں۔ بھڑاس کہہ سکتے ہیں مگر فلم دیکھنے کے لیے لمبا تھکا دینے والا سفر کیا ہے سو مسافت کی تھکن کا تقاضا سمجھ لیں۔ سینماٹوگرافی سے فلم بنا سکتے ہیں، آڈینس بلا سکتے ہیں، وقتی ہلچل مچا سکتے ہیں مگر دیرپا فلم انڈسٹری میں نہ خود ٹک سکتے ہیں نہ انڈسٹری ٹکا سکتے ہیں۔ فلم کے اولین اجزاء میں کہانی سب سے اول رہی ہے اور رہے گی یہ بات ہم نے نہ پہلے سمجھی تھی نہ اب سمجھیں ہیں۔ فلم "بول" کو لوگوں نے کیوں یاد رکھا ہوا ہے؟ کہانی صرف کہانی کے بل بوتے پر۔

آپکا مقابلہ کیمرہ ورک اور سی جی آئی کا تھا ہی نہیں۔ آپ کے پاس کہانی کونٹینٹ اور کرداروں کا فقدان ہے مسئلہ اور مقابلہ بھی اسی کا ہے۔ ایک بوسیدہ کہانی اور کرادار کو کیمرے کی صفائی، میک اپ اور کاسٹیوم خوشنما نہیں کر سکتے۔ عامر خان کی ٹھگز آف ہندوستان ستھرے کیمرے، بھاری کاسٹیوم اور ہیوی ویٹ اداکاروں سمیت کیوں ڈوب گئی؟ ان سب کو جسٹیفائی کرنے کے لیے کہانی نہیں بن پائی۔

بڑے بجٹ کی ایک فلم ایک ہی طرز سے بنا کر دکھانے سے سینما کا گلا بھی گیلا نہیں ہو گا ریوائول خام خیالی ہے۔ چھوٹے بجٹ کی لاتعداد فلمیں ہر طرح کے مذہبی، سیاسی، اختلافی، آفاقی، سماجی سلگتے بجھتے موضوع اور جنرا پر ہر طرح کی علاقائی اور غیر علاقائی زبان میں بے شمار لگاتار متواتر بنتی رہیں سنسر بورڈ سے گزر کر سینما تک بغیر تاخیر پہنچتی رہیں۔

ایک ایسا سازگار ماحول جہاں ڈائریکٹر ابوعلیحہ کو اپنی فلم بنا کر سنسر بورڈ کی تنگ گلیوں کی حبس سے گزرنا نہ پڑے، جہاں سرمد کھوسٹ کی فلم سنسر بورڈ کے کوارٹر میں ڈبوں میں پڑی کسی کمرے میں رکھے گملے میں مرجھاتے پھول کی مانند بارش کے فقط چند قطروں کو نہ ترسے۔ جہاں مولا جٹ جیسا فکشنل ورک بھی دیکھنے کو ملے جہاں آرٹ سے سسپنس، تھرل، مزاح جیسے جنرا پر بھی اتنی ہی شدت سے کام ہو۔

اگر ایسا ہو تو ستے ہی خیراں ہے۔

ڈائریکٹر عادتیں بگاڑنے سے باز آئیں ڈش میں رکھ کر ہاتھ سے کھلانا بند کریں صدیوں سے ہوئی اس انٹرٹینمٹ کی ٹیوننگ کو بدل کر ایسی کہانی لائیں جس پر ناظرین خلوت میں بھی تسلی سے فلم کو مختلف زاویوں سے سوچنے پر خود سے مجبور ہوں۔ بنانے سے دکھانے اور دیکھنے والوں کے مزاج کو بدلنے کا ذمہ اور طاقت ڈائریکٹر کے پاس ہوتی ہے۔ پبلک کو جو بھی دکھاؤ دیکھنے آ جائے گی، بک جائے گا پبلک کا فلمی رجحان بدلنا سراسر ڈائریکٹر کا کام ہے۔

پاکستان فلم انڈسٹری میں کوئی ایک فلم جس کا سسپنس ایوشمان کی اندھا دھن کے قریب سے بھی گزرتا ہو؟ کیا اس فلم کا بجٹ بہت تھا کیا ایوشمان کی اداکاری میں سحر تھا؟ کیا فلم سینماٹوگرافی پر کھڑی تھی؟ ہرگز نہیں۔ کاغذ پر لکھی کہانی اور اسکرپٹ میں اتنی جان تھی کہ فلم شروع ہوتے ہی ناظر کو باندھتی ہے اور اختتام کے بعد بھی نہیں چھوڑتی۔ ادھر اپنی مولا جٹ میں سینماٹوگرافی نکال دیں تو فقط مایوسی بچتی ہے۔

اچھی خوش آئند اور خوبصورت بات یہ ہوئی کہ سیاست کے کیچڑ، مذہب کی دلدل اور ہنگامہ آرائی کی سرنگ میں پھول کھلا، لو جلی دل خوش ہوا اندر کا گبر مسکرایا مگر تسلی نہیں ہوئی۔ متروک کردار اور کہانی پر سینماٹوگرافی گھما کر دکھا دینا سیریس فلم بین اور صحت مند سینما کی بنیاد نہیں رکھ سکتا سو دل روندا اے۔

Check Also

Aik Chiragh Aur Aik Kitab

By Muhammad Saqib