Shohrat Ka Dukh
شہرت کا دکھ
شہرت کا اپنا دکھ ہے۔ لوگ جب کام کی وجہ سے چہرے سے جاننا شروع ہو جائیں تو یہ امر اپنے ساتھ ہمہ جہت قسم کے ڈائریکٹ ایفکٹ لاتا ہے۔ آپ کسی آرٹسٹ سنگر، ایکٹر کا انٹرویو سن لیں وہ یہی کہے گا کہ وہ پبلک میں چھپ چھپا کر نکلتا ہے۔
ایک انٹرویو میں الپچینو نے لمبی آہ بھرتے ہوئے کہا تھا۔
میں صرف ایک دن کے لیے ایسی دنیا میں ایک ایسی زندگی جینا چاہتا ہوں جہاں مجھے کوئی پہچانتا نہ ہو۔ کسی ریستوران کے کونے میں عام شہری کی طرح بیٹھ کر کافی پیوں بغیر اس ڈر کے کوئی پیچھے سے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر آٹو گراف مانگنے والا اور سوالات کرنے والا نہیں ہے۔ میں شاپنگ مال میں بغیر ہجوم لگنے کے ڈر سے اپنے لیے جوتا خرید سکوں۔ صرف ایک دن کے لیے میں ایسی گمنام زندگی جینا چاہتا ہوں۔
آرٹسٹ کی آرٹ، فن، ہنر اور تخلیق پبلک ہوتی ہے۔ اس کی زندگی پبلک نہیں ہوتی۔ اس کی میرج پبلک نہیں ہوتی، اس کے بچے پبلک نہیں ہوتے، اس کا غم پبلک نہیں ہوتا، اس کے فیملی ممبر پبلک نہیں ہوتے۔ وہ دیگر عوام الناس کی طرح کسی اسٹیٹ کا ٹیکس پیڈ شہری ہوتا ہے۔ پردے کے پیچھے اس کی زندگی کے رنج اور خوشیوں پر اس کا حق اور صرف اس کا حق ہوتا ہے۔ پبلک کا کوئی حق نہیں اور کوئی زور نہیں ہوتا۔
فین نامی مخلوق اندھی اور بہری ہوتی ہے۔ اپنے پسندیدہ شخص کو سراہنے کے بیسیوں طریقے ہو سکتے ہیں اس کے ساتھ سیلفی لینا سب سے لو لیول کا طریقہ ہے۔ تصور کریں ایک آدمی ہے جس کے لاکھوں فین ہیں اس کا چہرہ عوامی ہے، اس کا کوئی نہایت ہی قریبی اسپتال کے آپریشن تھیٹر میں زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے اور وہ آدمی باہر کوریڈور میں مضطرب کھڑا ہے اور دوسری جانب سے ایک جتھا موبائل لے کر اس پر لپک جاتا ہے اور سلیفی لینے پر اصرار کرنا شروع کرتا ہے۔
تو ایسے میں یہ آدمی انہیں یہ بات بتانے میں وقت ضائع کرے کہ یہ تصویر لینے کی جگہ نہیں اور نہ میں اس حالت میں ہوں میرا اپنا کوئی اندر شدید تکلیف میں ہے یا وہ آدمی اپنے تمام تر ضبط اور رنج پہ قابو رکھ کر ان کے ساتھ تصویر بنا لے تاکہ وہ اسے ایک گھمنڈی آدمی نہ سمجھیں اور وہ وہاں سے چلے جائیں۔ یقین کیجیے بہت سے کیسز میں ایسا آدمی مجبوراََ تصویر بنوا لیتا ہے تاکہ اس کی امیج پر کوئی خبر نہ بن سکے۔ یہ شہرت کی بےبسی ہے۔
کروڑوں میں کوئی ایک چانس ہو کہ میں کسی جگہ فرینڈز کی کاسٹ کے کسی ممبر کو دیکھوں اور ایسی حالت میں دیکھوں کہ وہ اپنی نجی زندگی کی کسی مصروفیت میں مگن ہوں۔ کسی ہوٹل میں کھانا کھا رہے ہوں، کسی مال میں شاپنگ کر رہے ہوں، اپنے بچوں کے ساتھ ہوں تو میں ان کے قریب جا کر ہیلو کہنے اور موبائل کا فرنٹ کیمرہ ان کے منھ کے آگے کر کے سیلفی لینے کی ہمت اکھٹی نہیں کر سکوں گی اور میرا خیال ہے ان سے محبت اور انہیں سراہنے کا بہترین طریقہ بھی یہی ہو گا کہ ان کی پرائیویسی کا احترام خود پر لازم کروں۔
آرٹسٹ چھوٹا ہو یا بڑا، اس کا میڈیم فلم ہو یا یوٹیوب، اس کے فین ہزاروں میں ہوں یا کروڑوں میں وہ ہوتا انسان ہی ہے اور اس کے مسئلے بھی اسی سیارے پر بکھرے انسانوں والے ہی ہوتے ہیں۔ اسے بھی زندگی خوشیاں اور غم ایک تناسب سے دیتی ہے۔ وہ عام زندگی میں اسکرین پر نظر آنے والا چمکتا مسکراتا اور فریش نہیں بھی ہو سکتا۔ مگر فینز کی نفسیات میں وہ ان سب چیزوں سے ماورا ہوتا ہے اور کسی آرٹسٹ کے پاس اس نفسیات کا کوئی حل نہیں۔
گمنامی تو ہے ہی دکھ مگر ناموری کے ساتھ اپنے دکھ جڑے ہیں جو شاید سمجھ نہ آئیں اور زیادہ تر کوئی بتائے بھی نہ مگر یہ موجود ہیں۔
اختتامی نوٹ یہی ہے کہ پبلک میں کسی مشہور چہرے کو دیکھ کر خود پر اور کیمرے پر قابو رکھیں ہر لمحہ اور جگہ تصویر لینے والی نہیں ہوتی اور مانوس چہروں کے ساتھ تصویر لے کر لگانا سوشل میڈیا کے کسی پلیٹ فارم کی شرط بھی نہیں۔ کوئی مشہور پسندیدہ چہرہ نظر آ بھی جائے تو اسے دور سے دیکھ کر ہاتھ ہلا سکتے ہیں، مسکرا سکتے ہیں اور بدلے میں مسکراہٹ کا جواب دینا بھی اس پر فرض نہیں آپ اس کے فین ہیں وہ آپکا نہیں۔