Mosiqi Aur Mosiqar
موسیقی اور موسیقار
موسیقی کا کوئی رخ کوئی منزل کوئی ٹھکانہ نہیں یہ جس طرف بہا کر لے جائے جانا پڑتا ہے، آدمی کا کوئی زور نہیں۔ موسیقی اندرون کا وہ سنگین سچ ہے جسے دغا دے کر آدمی کسی جھوٹ کے ساتھ زیادہ دیر دل بہلا نہیں سکتا۔
اُسے کیسی موسیقی پسند ہے آدمی اس میں کتنا خودمختار ہے۔ من چاہا چن کر سننے کی آذادی کبھی محسوس نہیں ہوئی مگر سوچیں تو بڑی عیاشی ہے۔ کوئی گیت دھکے سے پسند نہیں کروایا جاسکتا، کان کا کام بغیر درد کے ہر آواز قبول کرنا ہے مگر کوئی آواز ایک بار من ردّ کردے تو کان بھی اکتاہٹ کا اظہار درد سے کرنے لگتا ہے۔
آدمی اپنی پسند اور نہ پسند کو دھوکے میں نہیں رکھ سکتا چاہے تخلیے میں اپنی تنہائی میں ڈوبا بند کمرے میں اظہار کرے مگر پسند کا اظہار نہیں چھپا سکتا اور ناپسندیدگی کی میل دل سے نہیں اتار سکتا۔
ہر موسیقی اور موسیقار بیک وقت بہت سوں کی پسند اور ناپسند کے بیچ بیٹھ کر گاتا ہے اس پر نہ اس کا کوئی بس ہے نہ سننے والوں یا جھٹلانے والوں کا کوئی اختیار۔ ایک آواز کی پسندیدگی اور ناپسندیدگی کے لیے کسی وجہ کا ہونا لازمی ہے ہی نہیں۔ موسیقی پسند کرنے کا کوئی اصول اور قاعدہ نہیں اگر کوئی کہے کہ اسے ہنی سنگھ پسند ہے تو بس بات ختم ہوئی۔ کیوں پسند ہے والا سوال offensive سمجھا جائے۔
آدمی میں موسیقی کے ٹیسٹ بڈز کا عمر کے ساتھ تبدیل ہونا ضروری ہے، یقینی نہیں۔ ساری عمر گزر جاتی ہے لوگ نور جہاں سے باہر نہیں آسکتے، مہدی حسن کے علاوہ کچھ سن ہی نہیں سکتے یہ سب نارمل لوگ ہیں ان کی کسی اور آواز سے نہیں بنی، تو بس نہیں بنی۔
نصرت کی آواز کسی عمر میں اندر تہلکہ مچاتی ہے تو کسی عمر میں چیخ کے آگے کچھ محسوس نہیں ہوتی۔ کسی عمر میں ابرار الحق کا میوزک سننے کے لیے ٹی وی پر گھنٹوں انتظار کرنے میں بھی لطف تھا تو کسی عمر میں ابرار کا کوئی گیت سنے بغیر سالوں گزر جاتے ہیں اور طلب نہیں ہوتی۔ کچھ آوازوں سے آدمی رجّ جاتا ہے۔ کان اور من سیر ہوجاتے ہیں مزید سننے کی گنجائش نہیں رہتی ایسے بہت سے گیت اور گلوکار ہیں جو ایک عمر میں یا ایک لمحے میں پسند آتے ہیں مگر پھر کسی عمر یا کسی لمحے میں سننے پر قدر کھو دیتے ہیں۔
کچھ آوازیں دیر سے پسند آتی ہیں یا شاید ان کا صیحیح وقت ہی تب ہوتا ہے۔ جگجیت سنگھ کی آواز ایسی ہی تھی جس سے کان کی آشنائی تو تھی مگر من کی لاپرواہی برابر تھی۔ کمپیوٹر گھر آیا تو ابا صرف جگجیت کے گانے سننے کے لیے ہمارے پاس بیٹھ جاتے۔ ہم نے علیحدہ سے چند گانوں کا ایک فولڈر Aba's favorite کے نام سے بنا کر رکھا تھا جو جگجیت سے بھرا تھا۔ اس فولڈر کا کوئی گانا ہم نہیں سنتے تھے گانے چلا کر بس باہر آجاتے اور ابا محو ہوجاتے۔
زندگی آگے بڑھی تو یہ فولڈر ہم پہ ایسے کھلا جیسے نکلتا آرہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ۔۔
جس آواز کو کبھی خشک اور سادہ سمجھ کر کان نہیں دھرے تھے وہ ہارمونیم اور طبلے سمیت شب و روز کی تنہائیوں میں گھل گئی۔ اندرون کی آواز بن کر ہر طرف گنگنانے لگی۔ یہ آواز دیر سے پہنچی دیر سے قبول ہوئی مگر، پیار کا پہلا خط لکھنے میں وقت تو لگتا ہے۔۔
یہ آواز کوئی شوخ نہیں تھی۔ گاڑھے سروں کی بندشوں سے لبریز سازوں کی اچھوتی جگل بندی سے گھری بھی نہیں تھی مگر ایک مٹھاس تھی جس میں لطف کے پارٹیکلز ہر اعضاء کو تسکین پہنچاتے محسوس ہوتے۔ جیسے جون کے موسم میں کسی لمبے سفر کے بیچ کسی سرائے میں کوئی رکے اور اسے کوئی پینے کے لیے ٹھنڈا پانی پیش کردے۔ یہ جگجیت کی آواز تھی جس نے من کا جگ بڑے پریم سے جیتا۔
جگجیت کی گائیکی کے بارے میں لکھنا اور پسندیدگی کی وجہ بھی بتانا بے حد مشکل ہے یا مجھے لگتا ہے کہ لکھنے اور بتا دینے سے انصاف نہیں ہوگا کہ ہم پچھلے دس سالوں سے اِسے سننے سے سیر نہیں ہو پا رہے اور یہ کہیں سے پرانی بھی نہیں ہورہی۔ جگجیت کی گائیکی تکنیک بڑی سیدھی ہے لیرکس میں خوشی ہے تو جگجیت کی آواز میں مسکراہٹ ملے گی، کہیں غم کا بیان ہے تو آواز میں تلخی اتر آئے گی اور دونوں صورتوں میں کوئی بناوٹ کوئی تصنوع ڈھونڈنے سے نہیں ملے گا۔
گائیکی کا احاطہ کرنا تکنیکی بات ہےسو چھوڑیے۔ وہ لمحہ کیسے بیان ہو کہ جب جگجیت اپنی غزل 'میں نشے میں ہوں ' کے آخری انترے میں ہارمونیم، ستار و طبلہ روک کے عالمِ مدہوشی میں آواز کی پچ کسی اسکاٹش وہسکی کی بے حد پرانی بوتل میں گھول کر کہتا ہے، میرا نہ اعتبار کرو۔۔ میں نشے میں ہوں۔۔
جگجیت سنگھ انڈیا سے باہر بے حد جگہ گئے پاکستان بھی آئے، مختلف ادوار میں آئے۔ مشرف کے دور میں آئے تو ایک نجی محفل میں مشرف نے ساتھ بیٹھ کر طبلہ بجایا اور جگجیت سے کہا آپ گائیے۔ آخری بار تو کراچی میں فنکشن کیا۔ پانچ ہزار کی ٹکٹ تھی۔ سہیل وڑائچ نے بھی انٹرویو کیا، کھدر کی چادر لپیٹے بے حد دھیمے انداز سے نپی تلی گفتگو شائستگی کے ساتھ کرتے ہوئے وڑائچ صاحب کے آف دا بیٹ سوالوں کا بھی جواب دیتے رہے۔ اسی انٹرویو میں قینچی چپل پہنے لاہور کے ایک سپر اسٹور سے اشیاء بھی خریدتے نظر آئے۔ انٹرویو اب یوٹیوب پہ پورا موجود نہیں ہے مگر دل پہ نقش ہے۔
حادثہ اور آرٹسٹ جتنا بڑا ہو اتنے ہی کم الفاظ میں اس کو بیان کیا جاتا ہے زیادہ الفاظ بے ڈھنگے ہوکر معنی کھو دیتے ہیں۔ کم الفاظ میں جگجیت سنگھ کی گائیکی کا احاطہ یہ ہے کہ یہ سیدھی سادہ اور دل پذیر تھی جسے ایک بار چھو گئی اسے راس آگئی۔
جگجیت کا باپ کٹر سکھ تھا۔ جگجیت کو گوردوارے کی خدمت میں دینا چاہتا تھا مگر جگجیت کے ارادے اور تھے۔ وہ گھر سے نکل کر ممبئی آئے پگڑی اتاری لمبی کیس کٹوا دی اور ماں کو خط لکھا کہ اب کیس ان کے سر پہ نہیں رہی۔ باپ کو صدمے سے چپ لگ گئی ناراضگی تب ٹلی جب جگجیت نے شو کمار بٹالوی کو گایا۔ ریڈیو پہ جب شو کی نظم مائیں نی مائیں جگجیت کی آواز میں لگتی تو جگجیت کی ماں سن کر روتی اور روٹھا ہوا باپ آس پڑوس میں بتاتا کہ یہ میرا پتر ہے۔
جگجیت شروع میں اسٹیج پر ناچتے بھی تھے۔ اپنے گانے تب نہیں بناتے تھے کشور کمار اور اسی طرز کے پرانے گیت گاتے تھے۔ گھوڑوں کے شیدائی تھے پیسہ بھی کمایا اور بہت سارا دان بھی کیا۔ شہرت بھی ہوئی اور گمنامی سے بھی ڈرے۔ چترا سنگھ سے محبت کی شادی کی مگر اس جوڑے پر ایک ساتھ پہاڑ جیسے دو غم ٹوٹے دونوں بوجھ تلے آ گئے۔ چترا کی آواز چھن گئی جگجیت گاتے رہے مگر رونق نہیں رہی۔
بڑے آرٹسٹ کی نجی زندگی میں ادھیڑ عمری میں ماتم تب گھلا جب جوان بیٹا روڈ حادثے میں چل بسا۔ جگجیت حوصلے والے نہیں تھے مگر گانے کے علاوہ اور کوئی کام انہیں آتا نہیں تھا سو بیٹے کی موت کے چھ ماہ بعد گانے لگے۔ بیگم چترا سنگھ بیٹے کی موت کے بعد کبھی گا نہ سکی۔ مگر قدرت کا ستم اس جوڑے پہ تھما نہیں، اگلے برس بیٹی نے خودکشی کی تو جگجیت کی آواز میں مزید غم اتر آیا۔
اک آہ بھری ہوگی، ہم نے نہ سنی ہوگی، جاتے جاتے تم نے آواز تو دی ہوگی۔۔ غزل جب ان اشعار سے گزری جگجیت کی آواز نہ چاہتے ہوئے بھی کانپتی رہی۔
دو ہزار گیارہ میں جگجیت اپنی سترہویں سالگرہ پر ستر شوز کے لیے بُک تھے۔ مگر وقت نے ایک کے لئے بھی مہلت نہ دی۔ دماغ مفلوج کیا تو شراب نے جگر چھلنی کر دیا۔ غزل کو کمرشلزم سے ہم آہنگ کرکے نئی جہت بخشنے والا آرٹسٹ اکتوبر کی ایک شام دنیا سے رخصت ہوا۔
اخبار کے آخری پنوں پہ چھپی ان گنت گمنام شاعروں کی غزلوں کو کمپوز کرکے اپنی آواز دے کر امر کرنے والے جگجیت نے اپنا یہ مشغلہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا۔
کون آئے گا یہاں کوئی نہ آیا ہوگا
میرا دروازہ ہواؤں نے ہلایا ہوگا۔۔