Khawateen, Mard Aur Mazah
خواتین، مرد اور مزاح
ایک عام مشاہدے اور بحث کی بات ہے کہ عورتیں مزاح سمجھتی ہیں مگر عملی مزاح پیدا کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں یا بہت ہی کم نظر آتی ہیں۔ بہت سے فلسفیوں اور تھنکرز نے اس مدعے پر سینگ اڑائے، سب کی اپنی آراء ہے۔
اکثریت نے حس مزاح کو انفرادی مزاج اور میلان سمجھ کر کوئی حتمی فیصلہ نہیں دیا۔ چونکہ حس مزاح کا تعلق دماغی ذہانت مشاہدے اور باریکی سے ہے تو سگمنڈ فرائڈ کا اس بحث میں کودنا یقینی ہے۔ عورتوں میں مزاح کم یا بالکل ہی ناپید ہوتا ہے اس بحث کو چار ہاتھ آگے جاکر فرائڈ نے سائنسی ٹچ (سوڈو سائنس) دے کر بتایا ہے کہ عورتوں کا دماغ اس طرح سے ڈیزائن کیا ہے کہ وہ مزاح پیدا کرنے کی عملی صلاحیت سے محروم ہے۔ سگمنڈ اپنی دوسری تھیوریز کی طرح اس تھیوری کو لے کر بھی ہارٹ اٹیک کی طرح سیریس تھے۔
بحث آگے چلتی ہے۔ سوال اٹھتے ہیں کہ واقعی عورتیں لطیفہ گوئی اور مزاح جیسی خوش طبع حس سے محروم پائی گئی ہیں۔ مرحوم کرسٹوفر ہچنز " why women aren't funny " کی سرخی دے کر عرق ریز مضمون باندھتے ہیں جس میں جابجا وہ اس بات کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں کہ عورتیں مردوں کے مقابلے کم حس مزاح رکھتی ہیں کیونکہ انہیں عام زندگی میں مزاح کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔
ارتقائی نکتہ نظر سے قبائل سے نکل کر بستیوں اور ایگریکلچر ریولوشن کے بعد مزاح لاشعوری طور پر مردوں کا عورتوں کو اپنی جانب مبذول کرنے کے لیے ایک ٹول بن گیا۔ جیسے ہر نوع میں عموما ہمیشہ نر ہی کو جداگانہ ٹریٹ ملتے ہیں جس کے زریعے وہ مادہ کو بہلا کر اپنی نسل آگے بڑھانے کا سلسہ جاری رکھتا ہے۔ انسانی نوع میں حس مزاح کا استعمال مردوں کی جانب سے عورتوں کے قریب جانے کا ذریعہ ہے۔
محفل میں یا ڈیٹ پر مردوں کی جانب سے عورتوں سے مزاح لطیفے اور ٹھٹھے کی توقع بھی نہیں کی جاتی۔ البتہ مرد پر اچھی حس مزاح کا ہونا اور چیزوں کو مزاح کے پہلو میں بیان کرنے کا پریشر ہمیشہ رہتا ہے۔ عورت کو تعریف کے طور پر خوبصورت کہنا مرد کو فنی کہنے کے مترادف ہے۔
یہاں یہ بات قابل قبول ہے کہ کسی مرد کو امپریس کرنے کے لیے عورتوں کو مزاح پیدا کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔
دور جدید میں پریکٹیکلی مزاحیہ اداکاروں، اسٹیج کامیڈین اور دیگر فلم یا اسٹینڈ اپ کامیڈی کی فیلڈ کا حصہ بنے مرد و عورت کی کامیابی اور کارکردگی کا گراف بنائیں تو دو باتیں واضح ہوں گی۔ پہلی یہ کہ پروفیشنل مزاح کی ہر فیلڈ میں مردوں کی تعداد عورتوں کے مقابلے زیادہ ہے اور دوسری یہ کہ مردوں کی کارکردگی عورتوں کے مقابلے بھی کہیں زیادہ ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟
مرد سیلف ممکری میں زرا نہیں ہچکچاتے۔ ان کے مزاح اور لطیفیوں میں زیادہ عنصر بھی ذاتی بیوقوفی اور نادانی کا ہوتا ہے۔ دوسرا مرد سیکچوئل پارٹس کو مزاح کے طور پر استعمال کرتے ہیں، ان کو لے کر مختلف سچیوشن بنا کر لطیفے بناتے ہیں اس میں بہت سا پہلو مردوں کے لاشعور میں دبی جنسی خواہشات کا شامل ہوتا ہے۔ سکچوئل پارٹس پر مبنی جوک دراصل جنسی خواہشات اور محرومیوں کو بیان کرنے کا اظہاریہ بنتے ہیں۔ جنسی اعضا کو مختلف اصطلاحات میں ڈھال کر گالیوں اور لطیفوں دونوں میں طیش دلانے اور ہنسانے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
مزاح ایک انفرادی معاملہ ہے جس پر انفرادی مشاہدے تجربے انٹلکچوئل لیول اور دماغی اپروچ جیسے دیگر فیکٹر کار فرما ہوتے ہیں۔ مزاح پرسن ٹو پرسن علاقے سے دوسرے علاقے ایک زبان سے دوسری زبان مختلف ہوتا ہے جس کا تعلق کسی ایک سوسائٹی میں رائج نومز عام بول چال سلینگز اور عام رجحانات کا مرہون منت ہوتا ہے۔
عورت کو دبانے والے معاشروں میں ٹھٹھہ مزاح اور مرد کے مقابلے میں لطیفہ سناتی عورت کو معیوب اور گھٹیا سمجھا جاتا جو کہ ایسے معاشروں میں عورتوں سے پیدائشی طور پر حس مزاح چھین لیتا۔
مزاح کا تعلق جنسی تفریق سے بھی نہیں۔ مزاح پر کسی ایک جنس کی مانوپلی بھی نہیں۔ مرد کے مقابلے عورت بھی ٹھیک ٹھاک ٹھٹھول ہوسکتی ہے اور حس ظرافت رکھ سکتی ہے۔ مگر چونکہ یہ انفرادی نظریہ اور سوچ ہے سو اس بحث کا اختتام ممکن نہیں ہر زمانے ہر دور ہر تہذیب میں یہ بحث رہے گی کہ کیا عورت واقعی مرد کے مقابلے کم حس لطافت رکھتی ہے یا کہیں مرد کی انا عورت کا مزاح قبول کرنے کے لئے راضی نہیں !