Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sondas Jameel
  4. Depression Aur Denial

Depression Aur Denial

ڈپریشن اور ڈینائل

مذہبی ذہن ڈپریشن محسوس کرتا ہے، قبول نہیں کرتا۔ کسی بھی کیفیت میں مبتلا ہوں اور وجہ جانتے ہوئے بھی خود کو ڈینائل میں رکھنے کا نتیجہ بربادی ہے۔

مذہب سے پھرے ذہنوں کو اندر کا خلا، زندگی کی بے وقت اور بے وجہ جیے جانے کی اذیت کسی شدید قدم پر اکساتی ہے، ایسا نہیں کہ ملحد اور متشکک ذہن کو پریشان کرنے لیے صرف یہی خیال بچتے ہیں، معاشی اور مالی حالات کا عمل دخل بہرحال ان کے کسی بھی سنگین فیصلے میں کارفرما رہتا ہی ہے۔

بات مذہبی ذہن کی ہے، جو سرے سے ہی یہ ماننے سے انکاری ہے کہ وہ ڈپریشن میں مبتلا بھی ہوسکتا ہے۔ اسے ہمیشہ سے مذہبی تعلیمات نے یہ سمجھایا کہ مذہب کے گھنے درخت تلے آئے وجود کو ڈپریشن اور ذہنی بے سکونی کی تند ہوا نہیں چھو سکتی پھر اس سائے کے نیچے کسی کا جیتے جی دم گھٹے کلیجہ جلے متلی اٹھے وہ کسی کو تو کیا خود کو بھی اس کا پتہ نہیں لگنے دیتا۔

ایک دن ڈپریشن میں گزار کر کوئی خود کا خاتمہ نہیں کرتا۔ یہ مسلسل دنوں مہینوں اور سالوں پر محیط غم مایوسی اور بے دلی کی وہ فصل ہے جس کے بیج پہلے لگتے ہیں پھر تسلسل سے درد آبیاری کرتا ہے اور جب بیج سے نکلے تنے ہر جانب سے دل و دماغ پر اپنی شاخیں گھنی کرلیں تو ایک دن فصل کاٹ لی جاتی ہے۔ اس فصل کے اگنے سے پکنے تک ایک دماغ کو سب علم ہوتا ہے وقت بھی ہوتا ہے کوئی بچاؤ میں گزار کر بچ جاتا ہے کوئی ڈینائل میں رہ کر مرجاتا ہے۔

ڈپریشن کا علاج کسی آیت کسی الہامی کلام میں نہیں، اس کے حل میں کوئی تسبیح کوئی نماز کوئی وسیلہ اپنانا ڈینائل کے دورانیے کو طویل کرنا ہے۔ الجھن اگر نجی ہے تو وہ نجی معاملات کو ڈی کوڈ اور واضح طور پر حل کیے بغیر کسی وظیفے کا ہزار دفعہ ورد کرنے سے حل نہیں ہوگی، ڈینائل کا دورانیہ بڑھے گا۔ تکلیف اگر مالی ہے فاقے در فاقے ہیں تو بھوکے پیٹ سے سورہ الواقعہ کی تلاوت محض ڈینائل ہے۔ اولاد کسی معاملے میں الجھی ہے، الجھن کی وجہ بیرونی ہے اور والدین جائے نماز بچھائے دعا میں اسکا حل کسی سے مانگ رہے ہیں خود نہیں کر رہے تو ڈینائل میں ہیں۔

بدلے وقت کے تقاضوں نے جہاں ضروریات بدلی ہیں وہیں ترجیحات بدلی ہیں اور نئی ترجیحات نے نئے اور بالکل الگ طرح کے مسائل اور پیچیدگیوں کو جنم دیا ہے جس کا حل کسی پرانی روایت اور شریعت کی روشنی میں کسی پرائی زبان کے ورد میں تو بالکل بھی نہیں ہے۔

کوئی مذہبی عالم مفتی مولوی ملا ڈپریشن کی حالت کو سمجھنا تو کجا ماننے تک سے انکاری ہے۔ کوئی انہیں بتا بھی دے تو یہ سوالی کو پشیمان کرتے ہیں۔ ڈپریشن کو مذہب سے دوری، دل کی تاریکی دنیاوی معاملات کی فکر اور بعد از مرگ دل سے خوف کا نکلنا بتا کر نماز کے بعد انگلیوں کے پوروں پر گنتے ہوئے کوئی ورد اور وظیفہ کرنے کا کہتے ہیں۔

وہ یہ نہیں جانتے کہ تنگی میں پھنسا ذہن عین نماز میں کھڑے آدمی کو زرا سا بھی اس تنگی کی الجھن سے بے خبر نہیں رکھ سکتا وہ نہیں جانتے کہ کسی غم کے سائے میں لپٹا ہوا آدمی ورد کے کلمات زبان سے دوہراتے ہوئے بھی ذہن کو زرا سا بھی دھوکہ نہیں دے سکتا، ایسے میں کون جھوٹا ہے؟ آدمی ملا غم یا خدا؟

Check Also

Baray Maidan Ka Khilari

By Muhammad Saqib