Bollywood Ka Deewaliya
بالی وڈ کادیوالیہ
بُری فلموں کو ہٹ کرنا بند کیجیے۔ ہندی سینما مُکمل تباہ ہو چکا ہے۔ حقیقی اوریجنل کونٹینٹ کا فقدان شروع سے ہی تھا مگر اب دیوالیہ پن ایسا ہے کہ چُھپائے نہیں چُھپتا۔ دو گھنٹے کی فلم کے نام پر ہلا گلا مچا کر سو کروڑ اکھٹے کر لینا کسی بھی طور کامیاب فلم کے زُمرے میں نہیں آتا۔
بالی وڈ کے حالیہ مین اسٹریم اداکاروں کی کاسٹ پر مشتمل فلمیں سراہنے والوں نے سوائے اِن فلموں کے اور کُچھ نہیں دیکھا۔ ویب سیریز اور سیزن ہندی فلاپ سینما اور پٹ چکے اداکاروں کا حل ہے۔ ویب سیریز ٹیسٹ میچ ہے ہر اداکار کی قابلیت اور پوٹینشل کُھل کر سامنے آتا ہے۔ ویب سیریز میں کسی ایک سین پر سنگل مُکالمے پر تالیاں بجنے کا رواج نہیں۔ اگر سین اچھا ہوا ڈائلاگ پوری جان کے ساتھ ڈلیور ہوا تو آپکو پوری سیریز میں اس کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔
سیف علی خان ہندی فلموں میں کچرا تھا۔ انوراگ کیشپ کی سیکرڈ گیم میں سرتاج کا کردار سیف کے ایکٹنگ کیرئر کو ڈیفائن کر گیا۔ پنکج ترپاٹھی کے ٹیلینٹ اور ایفرٹ لس ایکٹنگ میں کوئی شک نہیں مگر اب وہ یکسانیت کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ ہر فلم میں ایک جیسے ہی رول میں ایک جیسی ہی باڈی لینگویج ایک جیسی ہی ڈائلاگ ڈلیوری کرتے خود کو بوریت کی جانب دھکیل رہے ہیں۔
فلم کاغذ اور شیر دل پنکج کی یہ دونوں فلمیں اس بات کی گواہی دیں گی۔ منوج باجپائی علی گڑھ بنانے کے بعد اِس اسکرپٹ کے شایان شان فلم میں نطر نہیں آئے۔ پھر وہی بات کہ ویب سیریز فیملی مین نے اُنہیں زندہ رکھا۔ نواز الدین کے سر پہ انوراگ کا ہاتھ اُٹھا تو کمرشل فلموں میں نظر آنے لگے اسکرپٹ اپنی مرضی کا چُننے کی آزادی ملی تو ٹائیگر شروف کے ساتھ دو بیزار قسم کے رول سائن کر لیے۔
یقیناً بڑے اداکار کے ساتھ بڑا گھر آتا ہے اور بڑے گھر کے بڑے خرچے پورے کرنے ہوتے ہیں سو نواز بھائی کو یہ معاف ہے کہ مینن کی خبر نہیں کہ وہ کُچھ کر بھی رہے ہیں یا نہیں۔ وجے راز کو آج تک دو سے تین فلموں کے علاوہ مکمل استعمال نہیں کیا گیا۔ نصیر الدین صاحب پولیٹکل تجزیوں میں اُلجھ گئے ہیں اُنہوں نے خود کو منوا لیا ہے مگر اب انڈسٹری میں ان کے لیے کام نہیں۔
سلمان، شاہ رخ، عامر اور اکشے وغیرہ کہانی اسکرپٹ اور کونٹینٹ جیسی چیزوں سے بُہت دور ہو کر فلموں میں محض اپنی سیٹ آڈینس کے ساتھ آتے ہیں۔ رنبیر کپور نے راکسٹار کے بعد کُچھ ایسا نہیں کیا جسے دیرپا سراہا جائے۔ حال ہی میں ریلیز ہوئی برہماسترا محض اپنے وی ایفکس اور بھاری لاگت کی وجہ سے دیکھی گئی۔ ڈائلاگ اور لوو اسٹوری کرینج سے بھر پور رہی۔
سنجے دت کو ابھی تک کام ملنا معجزہ ہے۔ اجے مُکمل طور پر سائیڈ رول میں چلیں جائیں یا کسی ویب سیریز کا بوجھ اُٹھا لیں تو بہتر ہے۔ ورن دھون، ارجن کپور، سدھارتھ ملہوترا وغیرہ کُچھ بھی کر لیں جیسے بھی رول پکڑ لیں میچور اداکاری ان کے بس کی نہیں۔ رنویر سنگھ فلمی پردے کے باہر جو کرتے ہیں وہ کرنے کے بعد کسی سنجیدہ کریکٹر رول میں اسے دیکھنا دیکھنے والے کے لیے بڑا مشکل کام بنتا جا رہا ہے۔ فیمیل اداکاراؤں نے ایکٹنگ سے زیادہ فگر مینٹین کر کے اپنا اپنا کیرئیر سنبھالا ہوا ہے۔
عالیہ بھٹ اُڑتا پنجاب اور گلی بوائے کے علاوہ صرف گنگو بائی میں امپریس کر سکیں مگر پوٹینشل کی کمی نہیں کردار میں اُتر جانا اِسے آتا ہے آگے چل کر اس سے کُچھ اچھا دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ ایسی پھٹکار پڑی ہے بالی وڈ میں کہ سنی لیونی کے بعد نورا فتحی فلم میں ایکٹنگ پہ اُتر آئی ہے۔ ودیا بالن شیرنی کے بعد منظر سے غائب ہیں رادھیکا آپٹے بھی چھٹی پر ہیں۔ دہلی کرائم کی شیفالی شاہ اور رچا چڈا کے علاوہ کوئی میچور خاتون کا چہرہ کسی رول میں پرفیکشن کے ساتھ بیٹھتا بالی وڈ میں فی الحال میری نظروں سے نہیں گُزرا۔
اختتامی نوٹ یہ کہ، دو گھنٹے کی فلم بالی وڈ کے لئے ایک مشکل ٹاسک بن گیا ہے اور عموماً بالی وڈ ڈائریکٹر اس میں فیل ہیں۔ ہندی سینما کا فیوچر نیٹ فلکس ایمازون اور دیگر اِسی طرز کے پلیٹ فارمز ہیں جہاں سیزن اور ویب سیریز نے ٹیک اوور کیا ہے۔ جن میں کہانی چلتی ہے جسے نبھانے کے لیے اداکار کو ایفرٹ کرنی پڑتی ہے ایک سین سے کیرئر ڈیفائن نہیں ہوتے۔
جس میں کامیابی اور کمائی اس بات پر منحصر ہوتی ہے کہ اِس کا اگلا سیزن بننا چاہیے یا نہیں۔ اے سیوٹیبل بوائے، پنچائیت آسُر، پاتال لوک، مرزا پور، دہلی کرائم اور فیملی مین جیسے کاسٹ سکینڈری اور کونٹیٹ پرائمری شوز نے یہ ثابت کیا ہے کہ آئٹم نمبر سلو واک، لاؤڈ آواز میں پھیکی بھڑکیں، ٹک ٹاک کی ریل جیسے اسکرپٹ پر لکھی لوو اسٹوریاں، بے ہنگم ایکشن وغیرہ اب قابلِ برداشت نہیں جو ایسی چیزوں کو اب بھی سراہے وہ سخت قابلِ تنقید ہے۔